تن داغ داغ لٹا دیا

Amira Ehsan, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

باگرام سے امریکا عجب افراتفری کے عالم میں دبے پاؤں یوں نکلا کہ  ؎
 نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا
 جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ داغ لٹا دیا!
 C-17 ٹرانسپورٹر طیارے، جن کی وسعت مہیب ہے، سامان لادے ایک ہزار پھیرے لگا چکے۔ 95 فیصد فوج نکل گئی۔ امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف چیئرمین مارک ملے نے ستے ہوئے چہرے اور تناؤ کے شکار لب ولہجے میں پریس بریفنگ دی تھی: ’ہم افغان فوج اور قیادت کو محفوظ کرنے کے لیے بہت کچھ کررہے ہیں اور مسلسل کرتے رہیں گے……‘ تھکے لہجے میں اس عزم کا اظہار تو کیا تھامگر صحافیوں کے سوال پر کہ 3 لاکھ افغان فوج کے مقابل طالبان صرف 75 ہزار ہیں۔ (امریکا انہیں مسلسل ہتھیار، نیز 3 نئے بلیک ہاک ہیلی کاپٹر اور جنگی جہازوں سے حال ہی میں نواز چکا ہے۔) اس پر جنرل کا کہنا تھا کہ ’جنگیں مورال سے لڑی جاتی ہیں اعداد وشمار سے نہیں۔‘ یہ تو جنرل کی ’ہڈبیتی‘ ہے، 20 سال، ہائی ٹیک فوجوں کا عالمی اتحاد! الٹی ہوگئیں سب تدبیریں! اس دوران تضحیک، تہدید، تہ وبالا، زیر وزبر کردینے والے میڈیائی اور بارودی سبھی ہتھیار ناکام ہوئے۔ طالبان کو باہم تقسیم کرنے، لڑانے الجھانے کی سبھی کوششیں ناکام ہوئیں۔ ان کی کمانڈ اور اتحاد میں کوئی رخنہ نہ آیا۔ تاریخ میں وہ کلپ محفوظ ہے جب 16 فروری 2010ء کو ہمارے ہاں ملاعبدالغنی برادر کو برادرانِ یوسف گرفتار کرکے لے جا رہے ہیں۔ پھر تاریخ نے وہ کلپ بھی محفوظ کرلی جب دوحہ مذاکرات کی میز پر ملا عبد الغنی برادر امریکا کے مقابل امن معاہدے پر دستخط فرما رہے ہیں۔ اب اسلامی تاریخ کے سبھی مناظر دہرائے جا رہے ہیں۔ غزوہ بنونظیر میں مدینہ سے دل ریزہ ریزہ سمیٹ کر انخلا پر مجبور یہودی قبیلہ بنونظیر۔ (سورۃ الحشر میں حقائق ہر دور کے لیے محفوظ!) یہ وہ ہیں جنہیں اپنی طاقت کا گھمنڈ تھا، اسلام دشمنی میں طاق تھے۔ اللہ رسول کا مقابلہ کرنے کھڑے تھے۔ ان کے پشت پناہ منافقین کہتے تھے: ’اگر تمہیں نکالا گیا تو ہم تمہارے ساتھ نکلیں گے…… اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے۔‘ (الحشر۔ 11) پھر وہی ہوا جس کی خبر اللہ نے پہلے ہی دے دی تھی۔ بے وقعت ہوکر اپنے اموال اپنے ہاتھوں برباد کرکے (امریکا کی طرح) جتنا نکالنے کی اجازت ملی، سمیٹ کر یہودی انخلا پر مجبور ہوئے۔
 2001ء کا عالمی حملہ عین غزوہئ احزاب کی مثل تھا۔ ’زلزلوا زلزالاً شدیداً‘ …… بری طرح ہلا مارے جانے کی کیفیت وہی مناظر دہرا رہی تھی۔ منافقین کا کردار بھی حرفاً حرفاً کل اور آج یکساں رہا۔ شدید آزمائش سے گزرکر مومن منافق چھانٹ کر اللہ کی مدد بالآخر نازل ہوئی: جنوداً لم تروھا…… وہ نظر نہ آنے والی فوجیں جو اللہ کے وعدے پوری کرتی جب اترتی ہیں تو اسی بدحواسی سے ہم مدینہ کا محاصرہ کرنے والی افواج اور ان کے سرخیل قریشی لشکر کو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگتے دیکھتے ہیں، باگرام سے انخلا کی مانند۔ سورۃ الاحزاب آج بھی تروتازہ ہے! یہ قرآن…… خواہ کتنا ہی پڑھو کبھی پرانا نہیں ہوتا، علماء کبھی اس سے سیر نہیں ہوسکتے…… نیز قبل ازیں فرمایا: یہ قرآن ایک سنجیدہ اور فیصلہ کن کلام ہے کوئی مذاق کی چیز نہیں۔ جو کوئی ظالم وجبار شخص اس قرآن کو چھوڑے گا اللہ تعالیٰ اس کو کچل کر رکھ دے گا اور جس نے اسے چھوڑکر کسی اور جگہ سے ہدایت حاصل کرنے کی کوشش کی اللہ اسے گمراہ کردے۔ یہ قرآن اللہ کی مضبوط رسی ہے، حکیمانہ نصیحت ہے اور یہی سیدھا راستہ ہے……‘۔(ترمذی) منافق بارے اللہ نے فرمایا: تم انہیں اکٹھا سمجھتے ہو مگر ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ حال اس لیے ہے کہ یہ بے عقل لوگ ہیں۔‘ (الحشر۔ 14)
سو آج کابل حکومت اختلافات اور پھوٹ کا شکار ہے۔ خود اپنے آرمی چیف پر عدم اعتماد کا اظہار کررہے ہیں۔ طالبان کے متحد ومتفق بیانیے اور مضبوط موقف کے مقابل ہر جا منافقین کے ہاں خیانت، دھوکا، جھوٹ اور بدلتی پالیسیوں کو بہ چشم سر دیکھا جاسکتا ہے۔ افغان فوج ہر طرف سے خوفزدہ فراری مفروری کیفیت میں مبتلا بدترین انتشار میں ہے۔ پہلے 1300 اہلکار اسلحہ پھینک کر تاجکستان فرار ہوگئے اور یہ سرحدی علاقہ طالبان کی جھولی میں پکے پھل کی طرح آن گرا۔ طالبان کے خوف سے پسپا افغان فوج چترال کے ارندو سیکٹر میں بھی پناہ کی طلب گار ہوئی۔ دو مرتبہ یہاں انہیں پناہ خوراک علاج اور عزت سے مہمان نوازی دی گئی۔ چمن میں بھی ایسا ہی ہوا۔ افغان وزارت دفاع کے ترجمان نے اس پر ڈٹ کر دروغ گوئی فرماکر ان واقعات کو جھوٹ قرار دیا۔ ہم نے افغان کٹھ پتلیوں کو راضی رکھنے کے لیے کیا کیا ناز برداریاں نہ کیں۔ افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کے ڈرامے پر ہمارا سوشل میڈیا اس کی ہمدردی میں آنسو بہاتا 
ہلکان ہوگیا۔ ملا ضعیف کی سفارتی استثناء بھلاکر امریکا حوالگی کی شرمناک داستان کے برعکس ہماری حکومت نے افغان سفیر کی بیٹی کے لیے ہر ممکنہ کوشش کر ڈالی! حقائق (ڈرامے کے) کھل جانے کے خوف سے سفیر صاحب منہ بسورے ملک سدھار گئے۔ کٹھ پتلی حکومت اور بھارت گٹھ جوڑ شرمناک حد تک واضح ہے۔ 20 سال ہم امریکا/ افغان حکومت کا ساتھ دیتے رہے۔ پاکستان کا ادنیٰ ترین لحاظ نہیں رکھا گیا۔ ادھر امریکا نے انخلاء کے بعد سانس بحال ہوتے ہی جھوٹ بہتان سے میڈیائی مطلع دھندلانے کا کاروبار شروع کردیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ فرماتے ہیں: ’طالبان کارروائیوں کے دوران مظالم کی داستان سن رہے ہیں۔ آج مگرمچھ کے آنسو بہاتے خود 20 سال 70 ہزار پروازوں سے یہ کارپٹ بمباری کرتے پھول برساتے رہے؟ باراتوں، جنازوں 
پر حملے، معصوم بچوں کی انگلیاں کاٹ، سکھاکر یادگار کے طور پر دوستوں کو بھجواتے امریکی فوجی کیسے بھول سکتے ہیں! اب جسے یہ ظلم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کہہ رہے ہیں، وہ شراب وشباب، رقص وسرود کی بندش، کلب، منشیات ٹھپ ہونے کا غم ہے جو انہیں ہلکان کر رہا ہے۔ ادھر طالبان کی چین میں وزارت خارجہ کے ساتھ وفد کی سرکاری ملاقات عملاً انہیں تسلیم کرنے کے مترادف ہے جس سے امریکا بھارت، یورپ میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے! افغان کٹھ پتلی ستاروں بھری وردیاں، کالی امریکی عینکیں پہنے اکڑے اکڑے پھرتے تھے۔ اب یہ سب اتاراتار دوڑے پھر رہے ہیں۔
ادھر پاکستان میں صوبائی سطح پر ’گھریلو تشدد بل‘ منظور کرنے والوں کو، دونوں شرمناک پارٹنر شپ واقعات نے آئینہ دکھا دیا۔ ظالم ومظلوم جیسی قانون اور انصاف کے مہذب دائرے کی اصطلاحات ان دونوں واقعات پر چسپاں نہیں ہوتیں۔ پورے ملک نے شرمندہ ہونے کا یہ سامان دیکھا۔ ایلیٹ کلاس کے اس ہولناک لائیو ڈرامے میں فائیو اسٹار نجی تعلیمی اداروں کا پڑھا ارب پتی لاڈلا، روح کے خلا کو منشیات سے پر کرنے والا (اس کے باوجود اونچے اسکولوں میں اصلاحی، تربیتی لیکچر دیتا، نفسیاتی رہنمائی فرماتا) ظاہر جعفر۔ والدین معاشرے میں اعلیٰ ترین اثر ورسوخ کے حامل۔ نورمقدم، دنیا گھومی پھری، سالوں پر مبنی دوستی، پارٹیاں، رقص وسرود کی شواہد پر مبنی المناک کہانی۔ دونوں طرف کے والدین اتنا عرصہ پارٹنر شپ برداشت کرتے رہے۔ مسلم معاشرے کے یہ چھ کردار تمام تر اخلاقی قباحتوں سے عنداللہ، عندالناس واقف تھے۔ کوئی بھی بکنگھم پیلس میں پیدا نہ ہوا تھا۔ ایسے واقعات کو ہوا دینے، پھیلانے، اس پر انصاف (کس منہ سے؟) مانگنے کے عمل کو کیا نام دیا جائے؟ اسے پس پردہ رکھ کر ذمہ دارانہ رویے کے ساتھ سرکار خاموشی سے حل کرلیتی تو بہتر تھا۔ نوجوانوں کو نت نئی راہیں دکھانے، عورت کی تذلیل اور بے وقعتی کی عبرتناک داستان! اس کے باوجود پارٹنر شپ کے دلدادگان ڈٹ کر بیان دیتے رہے۔ ٹویٹ ملاحظہ ہو: ’پاکستان ساتویں صدی عیسوی کا ملک دکھائی دیتا ہے۔‘ تو آپ کینیڈا تشریف لے جائیں وہ 21 ویں صدی کا ملک ہے۔ وہاں تنہا نہیں پورے خاندان کے ساتھ بھری سڑک پر مار دیا جائے گا اجتماعی طور پر۔ یا پھر وہاں اسکولوں سے برآمد ہوتے ننھے کم عمر اور نوخیز لڑکے لڑکیوں کے قبرستان! انسان پرستی اور حقوق کے چارٹروں کے ہمیں بھاشن دینے والوں کی خوابوں کی جنت! 
اسلام آباد والے (E-11  میں) خواری وزاری اٹھانے والوں کو بھی ’جوڑا‘ کہہ کہہ کر مظلوم ٹھہرایا گیا۔ اس کی درستی لازم ہے۔ حرام دوستیوں کو جواز فراہم نہ کیجیے۔ ایسے سانحوں کو خاموشی سے ’انصاف‘ فراہم فرما دیں۔ پورے ملک کی فضا کو متعفن نہ کریں۔ ہر کہ و مہ کی زبان وبیان پر بدبودار ناپاکی جگہ نہ پائے۔ اخلاقی بیماریاں بھی قرنطینہ، لاک ڈاؤن طلب ہوتی ہیں متعدی ہونے کی بنا پر۔ ’پارٹنر شپ‘ بے ضرر دوستی نہیں، حرام ہے۔ آج بھل صفائی نہ کی تو فلیش فلڈ بن کر سب کچھ بہا لے جائے گی۔ گھریلو تشدد بل کا فوری قلع قمع لازم ہے۔ ورنہ خدانخواستہ گھرگھر یہی داستانیں چلیں گی۔ بیک زبان معاشرے کے سبھی طبقات اسے رد کریں۔
بیٹھے ہوئے ہیں قیمتی صوفوں پہ بھیڑیے
جنگل کے لوگ شہر میں آباد ہو گئے