اور اب پنڈورا …

اور اب پنڈورا …

 لیجئے صا حب ،لو گ پا نا مہ پیپرز کو بھو لنے ہی کو تھے کہ اب پنڈو را پیپرز کا قضیہ سا منے آ ن کھڑا ہوا۔ ایک کروڑ 19لاکھ فائلوں پر مشتمل پنڈورا پیپرز سکینڈل میں 200 سے زائدممالک کی 29000 آف شور کمپنیوں کا پردہ فاش کیا گیا جن کی ملکیت 45 ممالک سے تعلق رکھنے والی 130 ارب پتی شخصیات کے پاس ہے۔ کئی حکومتی عہدے داروں سمیت 700 پاکستانیوں کی آف شور کمپنیوں کی تفصیلات بھی ان پیپرز میں شامل ہیں۔ اگرچہ لوٹ مار کی کمائی، بدعنوانی کے ذریعے بنائی گئی دولت اور ناجائز ذرائع سے حاصل کیا گیا دھن دوسرے ممالک میں چھپانے کی خبریں اس سے پہلے سامنے آتی رہی تھیں لیکن جب پانامہ لیکس کا سکینڈل سامنے آیا تو ترقی پذیر ممالک کے عوام میں امید کی ایک کرن جگمگائی تھی کہ ان کی لوٹی ہوئی دولت واپس آجائے گی اور یوں ان کے مالی حالات جو اس لوٹ مار کی وجہ سے دگرگوں ہو چکے تھے، بہتر ہوجائیں گے لیکن یہ امید بر نہ آئی کیونکہ پانامہ سکینڈل میں ملوث کچھ افراد کے از خود سرنڈر کیا، کچھ کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی جبکہ باقیوں کو عوام، حکومتوں اور ادارے بھول بھال گئے۔ تاہم اس نئے سکینڈل کے سامنے آنے سے وہ سارے سوال ایک بار پھر لوگوں کے ذہنوں میں کلبلانے لگے ہیں جو تاحال جواب طلب ہیں۔لیکن افسوسنا ک صورتِ حال کچھ یو ں ہے کہ ایک منظم طر یقے سے میڈ یا کے ذ ریعے پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ آ ف شور کمپنیو ں کا حصو ل کو ئی بر ی بات نہیں۔ اگر یہی با ت ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ یہ متمو ل لو گ آ ف شور کمپنیا ں بنا تے وقت کیو ں اسے انتہا ئی پو شید ہ رکھتے ہیں؟لیکن اس دفعہ ہو ا کچھ یو ں ہے کہ دیگر دنیا کی اہم شخصیتوں کے نا م بھی اس زمرے میں آچکے ہیں۔مثا ل کے طور پر بر طا نیہ کے سا بق وزیرِ اعظم ٹو نی بلیئر، اردن کے با دشا ہ جنا ب عبد اــــﷲ، اور روس کے سربراہ مسٹر پوتن وغیر شا مل ہیں۔لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ چو نکہ اہم مما لک کے اہم ترین لو گ اس دھند ے میں ملو ث ہیں تو ہمارے ملک کی اشرا فیہ بھی اگر غر یب عو ام کا لہو چوس کر اپنی دو لت کو یو ں قا نو نی تحفظ فرا ہم کر سکتے ہیں۔ اس معا ملے میں اگر ہما رے سیا ستدان اپنی آ وازوں کو نیچا رکھے ہو ئے ہیں تو اس کی وجہ نہایت سا دہ ہے۔ وہ یہ کہ سب ہی بڑی پا رٹیو ں کے اعلیٰ عہد ید ار اس میں ملوث ہیں۔
 یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی دولت کو چھپانے اور اس ناجائز پیسے کو ٹیکس نیٹ میں آنے سے بچانے کے لیے ہی آف شور خفیہ کمپنیوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہ عمل حب الوطنی کے تقاضوں کے منافی تو ہے ہی، یہ متعلقہ ملک اور اس کے عوام کے حقوق پامال کرنے اور ان کے منہ سے نوالہ چھین لینے کے بھی مترادف ہے۔ ایسے کئی سکینڈلز اب تک سامنے آچکے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غریب ملکوں میں ناجائز طریقے سے اکٹھی کی گئی دولت امیر ملکوں کی محفوظ جنتوں میں رکھی جاتی ہے جس سے غریب قوموں کی حق تلفی ہوتی ہے اور وہ غریب سے غریب تر ہوجاتی ہیں۔ لیکن اب تک دولت 
کے اس نیچے سے اوپر کی جانب مصنوعی بہائو کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر کوئی قانون نہیں بنا، کوئی اقدام نہیں ہوا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایسے سکینڈل اب معمول بنتے جارہے ہیں۔ دولت کی اس ناجائز ترسیل کا ایک منطقی نتیجہ عالمی سطح پر امارت اور غربت میں تفاوت کا بڑھنا ہے۔ دولت کی یہ ناجائز ترسیل اور آف شور سیف ہیونز دنیا میں ایک بڑے خلفشار کو جنم دے سکتی ہے جس کے آثار نظر آنا شروع ہوچکے ہیں کہ غریب ممالک کے لوگ اپنے ہاں مناسب مواقع نہ پاکر بہتر روزگار اور روشن مستقبل کے لیے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کرتے ہیں جہاں اب انہیں ’مقامی آبادی کی حق تلفی‘ کے نام پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ چنانچہ یہ معاملہ بین الاقوامی سطح پر گہری سوچ بچار اور ایک سنجیدہ ڈائیلاگ کا متقاضی ہے۔ ٹیکس ہیونز کس طرح ترقی پذیر ممالک کی معیشت کے لیے جونک کا کام کرتی ہیں اس حوالے سے اقوام متحدہ کے ٹاسک فورس کی گزشتہ برس کی رپورٹ بڑی واضح ہے۔ اس میں مسائل کے ازالے کے لیے سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں بھی اس معاملے کو اٹھایا کہ پاکستان یا دیگر ترقی پذیر ممالک سے لوٹ مار کی جو دولت ٹیکس ہیونز میں یا مغربی ممالک میں دیگر طریقوں سے چھپائی جاتی ہے وہ لوٹانے میں ان ممالک کی مدد کی جائے۔ ترقی پذیر ممالک سے اس لوٹ مار نے عالمی سطح پر جو عدم توازن اور عدم استحکام پیدا کیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اور اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے کی سفارشات کو مانتے ہوئے ایسے اقدامات ناگزیر ہیں۔وطنِ عزیز کی بات کی جائے تو تحریکِ انصاف جناب عمران خان کی سربراہی میں برسراقتدار ہی اس نعرے کے ساتھ آئی تھی کہ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ کیا جائے گا، قومی وسائل کی لوٹ مار روکی جائے گی اور جو دولت لوٹ مار کرکے دوسرے ممالک کی محفوظ جنتوں میں منتقل کی جا چکی ہے وہ واپس لا کر پاکستان کی اقتصادیات کو استحکام دیا جائے۔ اب اسے کیا کہا جائے کہ تین سال گزرنے کے باوجود اس سلسلے میں کوئی بڑی پیش رفت سامنے نہیں آئی، حتیٰ کہ ’پانامہ لیکس کے کرداروں سے کوئی خا طر خوا ہ بازپرس بھی نہیں ہوئی۔‘ اس سلسلے میں کبھی کوئی خبر بھی سننے میں نہیں آئی۔ حکمران اس حقیقت سے یقینا آگاہ ہوں گے کہ ایسے اہم اور فوری توجہ کے متقاضی معاملات سے پہلوتہی کا نتیجہ بدعنوان عناصر کے حوصلے بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔ بہرحال تازہ خبر یہ ہے کہ پنڈورا پیپرز کا معاملہ سامنے آنے کے بعد وزیراعظم نے ایک تین رکنی سیل قائم کردیاہے جو ان پیپرز کی تحقیقات کرے گا۔ سیل جائزہ لے گا کہ ان افراد نے ٹیکس دیا یا ٹیکس چوری کی اور یہ کہ آمدنی جائز ذرائع سے تھی؟ اس بات کی بھی تحقیقات کی جائے گی کہ مذکورہ افراد نے اثاثے ڈکلیئر کیے تھے یا نہیں اور منی لانڈرنگ ہوئی یا نہیں۔ توقع کی جاتی ہے کہ تحقیقات ہر ممکنہ حد تک جلد از جلد مکمل کی جائے گی اور اس کی تفصیلات عوام کے سامنے لائی جائیں گی تاکہ وہ جان سکیں کہ کون محب وطن ہے اور کون ان کے سامنے جواب دہ۔ توقع کی جاتی ہے کہ حکومت پہلی فرصت میں ان لوگوں سے بھی بازپرس کرے گی جن کے نام پانامہ پیپرز میں تھے۔ ان دو سکینڈلز کی جامع تحقیقات ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنے کے حکومتی خواب کو تعبیر بخشنے کی راہ ہموار کرے گی۔