اعداد و شمار کے مثبت پہلو

Jonathan Power, Pakistan, Naibaat newspaper,e-paper, Lahore

شماریات کی ہیرا پھیری سے حقائق توڑ موڑ کر پیش کئے جا سکتے ہیں۔ ان میں سچائی بھی ہو سکتی ہے، کچھ اعداد و شمار حیران کن انکشافات کے لئے ضروری بھی ہیں۔ بعض لوگوں سے امریکا میں غربت کی سطح کا پوچھا جائے، وہ کہیں گے کہ گزشتہ 2صدیاں گزرنے کے باوجود خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ ان کی بات درست ہے کیونکہ ایک بڑی تعداد آج بھی کچی بستیوں میں رہتی ہے جہاں کئی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں، ان کی اتنی آمدنی بھی نہیں کہ زندگی کی جدید سہولتوں سے مستفید ہو سکیں۔ یورپ، کینیڈا اور جاپان میں بھی ایسی بستیاں عام ہیں، البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ترقی یافتہ دنیا میں غربت کی جڑیں بہت گہری نہیں۔ لاطینی امریکی ملکوں میں معاشی ترقی کے باوجود آج بھی وہاں کی 20 فیصد آبادی انتہائی غربت کی زندگی بسر کر رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں مجموعی طور پر بہتر معاشی حالات کے باوجود غربت ختم نہیں ہو پائی۔ چین، پاکستان، بھارت، سری لنکا، جنوب مشرقی ایشیا اور شمالی افریقہ کے معاشی حالات میں گزشتہ کچھ عشروں کے دوران بہتری دیکھنے میں آئی۔ بعض افریقی ممالک جن میں نائیجیریا، آئیوری کوسٹ، سینیگال، گھانا، روانڈا، گبون، ایتھوپیا، تنزانیہ، یوگنڈا اور کینیا شامل ہیں، میں بھی واضح پیش رفت دیکھی گئی۔
”بورژوا مساوات“ کی مصنفہ ڈیرڈی میک کلوسکی اس صورتحال کو ”عظیم بہتری“ قرار دیتی ہیں۔ انتہائی غریب جن کی روزانہ کی آمدنی 2 ڈالر سے کم ہے، ان کی ایک بڑی تعداد نے اس بہتری کو محسوس کیا ہے جبکہ ان کی مجموعی تعداد تیزی سے کم ہوئی۔ 1993ء کے بعد جہاں انتہائی غریب افراد کی تعداد میں کمی آئی، وہاں 1990ء سے 2010ء کے دوران کم عمری میں اموات کی شرح تقریباً نصف ہو گئی۔ انتہائی غربت میں سب سے زیادہ کمی بھارت میں وزیراعظم منموہن سنگھ، چین میں صدر ہوجنتاؤ کے ادوار میں دیکھنے میں آئی۔ اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق انتہائی غریب افراد کی روزانہ اوسط آمدنی 1.33ڈالر ہے، جس کے خاتمے کیلئے فی کس روزانہ آمدنی میں صرف 0.57 ڈالر اضافہ کرنا ہو گا، جس کے لئے سالانہ 78ارب ڈالر خرچ کرنا ہوں گے جو عالمی جی ڈی پی کے 0.1 فیصد سے بھی کم ہے۔
بعض ماہرین انتہائی غربت کے خاتمے کو گلوبل وارمنگ پر ترجیح دینے کے حق میں ہیں۔ ان کی نظر میں غربت کے خاتمے کا ہدف بہت کم خرچ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے، جبکہ ایک اندازے کے مطابق گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لئے صرف توانائی کے شعبہ پر سالانہ 25 کھرب ڈالر خرچ کرنا ہوں گے، کیونکہ اس کے لئے دنیا کو قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف جانا ہو گا۔ غربت کا معاملہ اس لئے بھی فوری توجہ کا مستحق ہے کہ گلوبل وارمنگ کے سنگین اثرات اگلے دس سے 20 سال کے بعد ظاہر ہوں گے۔ بلاشبہ ہمیں دونوں مسائل سے نمٹنا ہے، وسائل بھی ہیں، مگر وہ دفاع میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمیں اپنے کرہ ارض اور غربت کے خلاف دفاع کو بھی ترجیح بنانے کی ضرورت ہے۔
عمومی تاثر کے برعکس دیکھا جائے تو گیارہ سال قبل شروع ہونیوالا عالمی مالیاتی بحران عالمی معاشی مساوات میں اضافے کا باعث بنا ہے۔ برازیل، چین اور بھارت کی بلند شرح نمو اس عالمی معاشی ناہمواری میں کمی کی بڑی وجہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے عالمی سطح پر تشدد کی لہر میں بھی کمی آئی، سرد جنگ کے خاتمے کے بعد محض چند جنگیں ہی دیکھنے میں آئی ہیں۔ سٹیفن پنکر کی 2011ء کی ”فطرت کے بہتر فرشتے“ کے عنوان سے سٹڈی کے مطابق جنگ عظیم دوم کے بعد جنگوں سے اموات کی شرح میں خاطر خواہ واقع ہوئی ہے، جو 1940ء کی دہائی میں 300 افراد فی لاکھ تھی، 1970ء اور 1980ء کی دہائی میں محض چند افراد تک محدود ہو گئی۔ اس وقت دنیا کے 60فیصد ممالک جمہوری ہیں، 1940ء سے قبل جمہوری ملکوں کی انگلیوں پر گنتی کی جا سکتی تھی۔ جمہوری ممالک بہت کم جنگ کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے کئی کامیاب امن آپریشنز کئے، اِدھر اوباما کے بعد ٹرمپ کی پالیسی بھی جنگ سے گریز پر مبنی رہی۔
عالمی سطح پر سنگین جرائم میں بھی کافی کمی آئی ہے۔ جرائم سب سے زیادہ غریب کو متاثر کرتے ہیں۔ یورپ میں قتل کے واقعات کی شرح قرون وسطیٰ کے مقابلے آج 35گنا کم ہے۔ مجموعی طور پر ترقی یافتہ دنیا میں پُرتشدد جرائم کی شرح تیزی سے کم ہوئی ہے، اس کی بڑی وجہ پولیس کی کارکردگی اور جدید خطوط پر تفتیش ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ نے مجرموں کا سراغ لگانا پہلے سے زیادہ آسان بنا دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق پٹرول سے سیسے کا خاتمہ بھی پُرتشدد جرائم میں کمی کی ایک وجہ ہے کیونکہ سیسہ دماغ کو متاثر کرتا ہے جس کے نتیجے میں انسان جارح ہو جاتا ہے۔ 20ویں صدی کے وسط میں جرائم میں اس وقت تیزی سے اضافہ ہوا تھا جب دنیا بھر میں بسوں اور گاڑیوں کا استعمال بڑھا۔
اس سب کے باوجود غربت، ماحولیاتی بگاڑ، ناانصافی، جنگوں کی باتوں اور جرائم کے خوف نے آج بھی ہمیں گھیر رکھا ہے، کیونکہ ہم بدترین کا ہی سوچتے اور اس پر یقین کرتے ہیں۔ میڈیا بھی ایسی باتوں پر فوکس کرتا ہے، البتہ اعداد و شمار اور حقائق ایک الگ کہانی بیان کرتے ہیں۔ ہمیں اعداد و شمار اور حقائق پر فوکس کر کے ایک امید اور عزم کے ساتھ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری اگلی نسلیں بہتر ماحول میں زندگی بسر کر سکیں۔
(بشکریہ: انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون)