تحریک عدم اعتماد کا تعفن!

 تحریک عدم اعتماد کا تعفن!

ہمارا خیال یہ تھا موجودہ حکمرانوں بلکہ نااہل حکمرانوں کا سواسال کا عرصہ باقی رہ گیا ہے تو ہماری مصلحت پسنداپوزیشن، ہمارے حکمرانوں کو یہ مختصر عرصہ بڑے آرام سے مکمل کرنے دے گی ، جیسے بڑے آرام سے گزشتہ پونے چاربرسوں کا عرصہ اُس نے حکمرانوں کو مکمل کرنے دیا، اپوزیشن اگر یہ کرتی زیادہ چانسسز یہی تھے موجودہ حکمرانوں کا کارکردگی کی بنیاد پر اگلے الیکشن میں مکمل صفایا ہوجاتا، مگر اپوزیشن کی جو’’ کاہلیاں‘‘ یعنی جو جلدیاں ہیں، موجودہ حکمرانوں کو گھر بھجوانے کی اُن کی جو خواہش یا حسرت ہے کم ازکم مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے موجودہ حکمرانوں سے اپوزیشن کا کوئی ’’مُک مُکا‘‘ ہوگیا ہے کہ آپ ہمیں قبل ازوقت گھر بھجوانے کی کوئی تحریک چلائیں جس کے نتیجے میں لوگ ہماری پچھلے چار برسوں کی نااہلیاں بھول کر ایک بار پھر ہمارے ساتھ کھڑے ہوجائیں، جس کے نتیجے میں ہماری تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ ایک بار پھر بحال ہو جائے، بلکہ واپس آجائے اگلاالیکشن جیتنے کے لیے ہمیں اُس ’’سہارے‘‘ کا محتاج نہ ہونا پڑے جس سہارے کا محتاج ہمیں پچھلے الیکشن میں ہوناپڑا تھا، اور اِس ’’محتاجی‘‘ میں ہم ڈھنگ کا ایک کام بھی نہیں کرسکے،…اپوزیشن کی عقل پر باقاعدہ ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے، جو دیوار اپنے ہی وزن سے گرنی تھی مولانا فضل الرحمان کے وزن سے وہ مزید مضبوط ہوگئی ہے، چنانچہ زیادہ امکانات یہی روشن ہیں حکومت کا ’’پہاڑ‘‘ اپوزیشن یا تحریک عدم اعتماد کی ’’ہتھوڑی ‘‘ سے ٹوٹنے والا ہرگز نہیں ہے، البتہ ہتھوڑی کا پتہ ہی نہیں چلنا تحریک عدم اعتماد کی ممکنہ ناکامی کے بعد کہاں جاکر اوندھے منہ گری ہے ،…اپوزیشن کے تقریباًتمام سیاستدانوں کے مقابلے میں وزیراعظم عمران خان کم ازکم مالی طورپر کرپٹ نہیں ہیں، اب جبکہ پوری دنیا کا صرف ایک ہی مذہب ہے اور وہ ’’پیسہ‘‘ ہے تو اس ماحول میں کسی ملک کے حکمران کا مالی اعتبار سے دیانت دار ہونا ایک معجزہ ہے، اسی بڑے معجزے کی وجہ سے گزشتہ کتنے ہی برسوں سے چھوٹے چھوٹے کئی ایسے معجزے ہوتے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں وزیراعظم عمران خان ہرآزمائش ہرمصیبت سے مکھن سے بال کی طرح نکل آتے ہیں، اور ایسے نکل آتے ہیں اُن کے مخالفین منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ ہماری ساری پلاننگ ساری سازش یا شرارت ناکام کیسے ہوگئی ؟ ہمارے ماضی کے سارے تجربے ماند کیسے پڑ گئے؟… اپوزیشن والے تحریک عدم اعتماد کا جو ’’پہاڑ‘‘ کھودنے جارہے ہیں زیادہ اُمیدیہی ہے نکلنا اُس میں سے ’’چوہا‘‘ ہی ہے، اگر اُنہوں نے چوہاہی نکالنا ہے تو بہتر ہے یہ چوہا وہ اپنے اپنے اُس ناک سے نکال لیں جو تحریک عدم اعتماد سے اُٹھنے والے تعفن کی بوسُونگھنے سے محروم ہے، تحریک عدم اعتماد کے تعفن سے اپوزیشن کو کیا حاصل ہونا ہے یا کیا حاصل نہیں ہونا ؟ اِس کے نتائج ظاہر ہے اگلے چند دنوں میں سامنے آجائیں گے، مگر اِس کے نتیجے میں جو افراتفری جوبدامنی مسلسل پیدا ہوتی جارہی ہے، اور اِس میں مزید کئی گنا اضافے کا امکان ہے، اُس کے نتیجے میں ملک کا کتنا نقصان ہوگا ؟ کیا وہ عمران خان کے وزیراعظم رہنے کے نقصان سے چھوٹا ہوگا؟ ،…موجودہ حکومت کی نااہلیوں پر لوگ یقیناً غم و غصے میں ہیں، خصوصاً وزیراعظم عمران خان نے جو ’’خواب‘‘ دکھائے تھے اُن کے ٹوٹنے پر تو بہت ہی غصے میں ہیں، … تیس چالیس  برسوں کا یہ گند ظاہر ہے پانچ برسوں میں صاف نہیں ہوسکتا تھا، مگر لوگوں کو غصہ اِس بات پر ہے چار برسوں میں ہر شعبے میں مزید گند پڑ گیا ہے … وزیراعظم سے غلطی یہ ہوئی وہ بار بار یہ بات زوردے کرکہتے رہے، ’’ہم سودِنوں میں اِس ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہادیں گے‘‘، یہ ممکن ہی نہیں تھا، میں یہ لکھتا بھی رہا اور ذاتی طورپر اُن سے مِل کر یہ گزارش بھی کرتا رہا وہ یہ کہنے کے بجائے کہ ’’سودِنوں میں ہم کچھ ٹھیک کردیں گے، وہ یہ فرمایا کریں ’’ہم اپنے عرصہ اقتدار میں پوری کوشش کریں گے کم سے کم مدت میں سسٹم میں بنیادی نوعیت کی کچھ بہتریاں لے کر آئیں‘‘…وہ مگر اپنے اِس تُکے اور بے جان نعرے پر اڑے رہے کہ ’’سودنوں یا نوے دِنوں میں ہر شعبہ ٹھیک کردیں گے‘‘۔اب سواچار برسوں میں بجائے اِس کے وہ اِس غلیظ وطاقتور سسٹم کو ٹھیک کرتے اُلٹا اِس طاقتور و غلیظ سسٹم نے اُنہیں خراب کردیا ہے،…سب سے بڑی خرابی یہ ہوئی اُن کی بے شمار ’’ بدبولیوں‘‘ کی وجہ سے معاشرہ مکمل طورپر عدم برداشت کا شکار ہوگیا، اب ہرطرف گالیوں ودھمکیوں کا راج ہے، معمولی معمولی باتوں پر لوگ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہیں، حسد، سازش اور اِس نوعیت کی کمینگیاں اپنے عروج پر ہیں، بدلحاظی معاشرے کی فطرت میں ایسی رچ بس گئی ہے اِس سے جان چھڑوانا اب ناممکن ہے، ہر شخص ’’منہ کی بواسیر‘‘ میں اور بداخلاقیوں کی ’’پیچش‘‘ کا شکار ہے، لوگ بغیر تصدیق کے ایک دوسرے پر ایسے ایسے گھٹیا الزامات عائد کررہے ہیں، اوربے وقوف لوگ آنکھیں بند کرکے جس طرح اُن پر یقین کررہے ہیں، یہ ایک ایسا المیہ ہے معاشرے کو جس نے تباہی کے آخری مقام پر لاکھڑے کیا ہے، …تحریک عدم اعتماد نے اِس سارے ماحول پر جلتی پر تیل کا کام کیا ہے، اپوزیشن اب اِس کی زیادہ ذمہ دار ہے، پہلے اِس کا ذمہ دار ہم وزیراعظم کو سمجھتے تھے، …تحریک عدم اعتماد کی ناکامی یا کامیابی دونوں صورتوں میں فائدہ وزیراعظم عمران خان کو ہی ہوگا، البتہ اِس کی ناکامی کی صورت میں اپوزیشن کا ایک فائدہ یہ ہو سکتا ہے وزیراعظم کی انتقام پسندی میں زیادہ شدت آجائے گی اور بجائے اِس کے وہ اپنے اقتدار کے بقیہ سواسال کے عرصے میں صرف اور صرف عوام اور ملک کی فلاح پر توجہ دیں اپنی فطرت کے مطابق یہ عرصہ بھی اُنہوں نے اپنے سیاسی مخالفوں کو چورڈاکو چورڈاکو کہنے پر لگادینا ہے، وہ فرماتے ہیں ’’تحریک عدم اعتماد‘‘ کی ناکامی کی صورت میں وہ اپوزیشن کے ساتھ جو کریں گے دنیا دیکھے گی… کاش وہ حقیقی وزیراعظم اگر ہوتے، یہ فرماتے ’’تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کی صورت میں ہم پوری توجہ لوگوں کے مسائل کے حل پر دیں گے، …تحریک عدم اعتماد کی ممکنہ ناکامی کے بعد اُن کے انتقام کی آگ میں اپوزیشن جل کر راکھ تو پتہ نہیں ہوتی ہے یا نہیں؟ کہ یہ کام اگر وہ پونے چار برسوں میں نہیں کرسکے مزید سواسال میں کیسے کرسکیں گے؟۔البتہ آئندہ بھی  اُنہوں نے اپنی توجہ صرف اور صرف بدلے اور انتقام پر رکھی اگلے الیکشن میں وہ پتہ نہیں اپنی سیٹ بھی جیت پائیں گے یا نہیں ؟؟؟ 

مصنف کے بارے میں