”ملکاؤں کی ملکہ“

”ملکاؤں کی ملکہ“

اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اور طویل خبر ملکہ الزبتھ دوم کی رحلت کی خبر ہے، جس نے برطانیہ جیسے شہر کی زندگی کو روک دیا ہے، یوں تو ملکہ کی آخری رسومات 19ستمبر کو ہوں گی مگر اْس سے پہلے اْن کے تابوت کو کئی روایتی مراحل سے گزرنا ہوگا، کئی جگہوں پر عوام اْنہیں جلوس کی شکل میں خراج عقیدت پیش کریں گے تو کہیں سربراہان مملکت اْن کا آخری دیدار کریں گے۔ لیکن انہوں نے جس شاندار انداز میں زندگی گزاری وہ اپنی مثال آپ ہے، وہ 96سال کی عمر تک زندہ رہیں جس میں برطانیہ کی قیادت کے 70سال بھی شامل ہیں۔ ملکہ الزبتھ دوم کا طویل دور حکمرانی اپنے فرض کی ادائیگی کے مضبوط احساس اور اپنی زندگی کو اپنے تخت اور اپنے لوگوں کے لیے وقف کرنے کے عزم سے یاد کیا جاتا ہے۔بہت سے لوگوں کے لیے وہ تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا میں استحکام کی نشانی تھیں کیونکہ دنیا میں برطانوی اثر و رسوخ میں کمی آئی، معاشرے میں تیزی سے تبدیلی آئی اور بادشاہت کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔مشکل وقتوں میں بادشاہت کو برقرار رکھنے میں ان کی کامیابی اس لیے بھی قابل تعریف رہی کیونکہ ان کی پیدائش کے موقع پر کسی نے نہیں سوچا تھا کہ یہ تخت ان کا مقدر بنے گا۔
الزبتھ الیگزینڈرا میری ونڈزر 21 اپریل 1926 کو لندن کے علاقے مے فیئر میں بیرکیلی سکوئر میں واقع ایک گھر میں پیدا ہوئیں۔ وہ جارج پنجم کے دوسرے بیٹے ڈیوک آف یورک البرٹ اور سابق لیڈی الزبتھ بوئس لیون کی پہلی اولاد تھیں۔الزبتھ اور ان کی بہن مارگریٹ روز، جو 1930 میں پیدا ہوئی تھیں، نے گھر پر ہی تعلیم حاصل کی اور بہت پیار بھرے خاندانی ماحول میں پرورش پائی۔ الزبتھ اپنے والد اور دادا دونوں سے انتہائی قریب تھیں۔چھ برس کی عمر میں الزبتھ نے گھڑ سواری سکھانے والے اپنے استاد کو بتایا کہ وہ دیہی زندگی گزارنا چاہتی ہیں جہاں ان کے اردگرد بہت سے گھوڑے اور کتے ہوں۔ باوجود اس کے کہ وہ کبھی سکول نہیں گئیں، ان کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا اور انھوں نے آئینی تاریخ کا بھی تفصیلی مطالعہ کیا۔ 1936 میں جارج پنجم کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے ڈیوڈ، ایڈورڈ ہشتم کے نام سے تخت نشین ہوئے۔ تاہم شادی کے لیے انھوں نے دو بار طلاق یافتہ امریکی والس سمپسن کا انتخاب کیا جو سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر ناقابل قبول تھا۔ سال کے اختتام پر وہ تخت سے دست بردار ہو گئے۔ تذبذب کا شکار ڈیوک آف یورک بادشاہ جارج ششم بن گئے۔ یورپ میں بڑھتی کشیدگی کے پس منظر میں نئے بادشاہ نے اپنی اہلیہ ملکہ الزبتھ کے ساتھ مل کر بادشاہت پر عوامی اعتماد بحال کرنے کا بیڑا اٹھایا، اور 
پھر اس خدمت سے کبھی دستبردار نہ ہوئیں۔
بے شک حیرت انگیز طور پر ملکہ الزبتھ دوم نے برطانوی عوام کے دلوں پر حکمرانی کی۔اس نے زندگی میں وہی کچھ کیا جو برطانوی عوام نے چاہا۔ حتیٰ کہ ان کے محلات پرٹکٹ لگانے کا فیصلہ کیا گیا تو وہ بھی ملکہ نے خوش دلی سے قبول کرلیا۔ایک بار 1964 میں ملکہ پر اٹھنے والے سرکاری خرچ میں اضافے پر عوامی طور پر تنقید ہوئی تو ملکہ نے فوری طور پروہ اخراجات خود برداشت کرنے کا اعلان کردیا۔ملکہ کے دورِ اقتدار میں برطانیہ میں پندرہ وزیر اعظم بنے  مگر ملکہ کا کسی ایک سے بھی کوئی اختلاف نہیں ہوا۔مارگریٹ تھیچر کے ساتھ دولتِ مشترکہ کے معاملے میں ایک بار تھوڑا سا اختلاف ہوا تھا مگر ملکہ نے صرف اتنا کہہ کر خاموشی اختیار کرلی تھی کہ مجھے تھیچر کا رویہ اور جارحانہ انداز ’الجھن میں مبتلا کرنے والا‘ لگا ہے۔ ملکہ کی زندگی میں سب سے مشکل وقت وہ تھا جب ڈیانا کی ناگہانی وفات ہوئی تھی اور برطانوی عوام نے ڈیانا کی موت پرلندن پھولوں سے بھر دیا تھا یعنی ڈیانا کے ساتھ بہت زیادہ محبت کا اظہار کیا تھا مگر ڈیانا بھی بنیادی طور پرشہزادی ہی تھی۔ اس کے ساتھ محبت بھی دراصل برطانوی عوام کی شاہی خاندان کے ساتھ وابستگی کا اظہار تھا۔یہ شاہی خاندان سے محبت کرنے والے برطانوی لوگ کوئی جاہل ان پڑھ نہیں ہیں۔برطانیہ میں شرح ِ خواندگی سو فیصد ہے۔ برطانیہ میں اگرچہ جمہوریت ہے مگر ملکہ کا کنٹرول کس قدر تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہاؤس آف لارڈ کے تمام لارڈز ملکہ کے متعین کردہ ہوتے۔ان میں زیادہ تر موروثی طور پر چل رہے ہوتے تھے۔سیاسی پارٹیوں کو ہاؤس آف لارڈز میں بہت کم نشستیں دی گئی تھیں۔جب کوئی نشست خالی ہوتی تو وزیر اعظم کی درخواست پر ملکہ لارڈ بناتی اور یہ نشست صرف لارڈ کی موت سے ہی خالی ہو سکتی ہے کیونکہ لارڈ تا حیات ہوتا ہے۔اسی طر ح سر کا خطاب بھی ملکہ دیتی رہیں۔یہ اعزاز بھی اصل میں نائٹ ہڈ کااعزاز ہے۔ یہ سلسلہ صلیبی جنگوں میں جاری ہوا تھا۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب یورپ تاریک عہد میں تھا اور چرچ اقتدار میں بادشاہوں کا مکمل طور پر شریک ہوا کرتا تھا۔
خیر ملکہ الزبتھ بہت سادہ زندگی گزارتی تھیں، وہ برطانیہ سے باہر چھٹیاں منانے بہت کم گئی ہیں۔ غیر ملکی دوروں کا مطلب عموماً کام تھا۔ ان کے غیر ملکی دوروں کے بعد برطانیہ کے ان جگہوں کے ساتھ تعلقات میں تبدیلیاں رونما ہوتی تھیں: جیسے 1965 میں جنگ کے بعد کا جرمنی، 1986 میں چینی معاشی اصلاحات، 1994 میں روس، یعنی اس دور کا خاتمہ جس نے ان کے رشتہ داروں کو قتل کیا۔جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کی پالیسی کے خاتمے کے بعد 1995 میں وہاں کے ایک دورے کو انھوں نے ’میری زندگی کے بہترین تجربوں میں سے ایک‘ قرار دیا۔ صدر نیلسن منڈیلا نے جواباً کہا ’یہ ہماری تاریخ کے سب سے ناقابل فراموش لمحات میں سے ایک ہے۔ ان کے کسی دورے نے تعلقات میں اس قدر تبدیلی کو نمایاں نہیں کیا جتنا 2011 میں آئرلینڈ کے دورے پر ہوا۔ ایک صدی تک کوئی برطانوی حکمراں جنوب کی جانب نہیں گیا تھا۔
ان کا خیال تھا کہ قومی سطح پر زندگی کا ایک بڑا مقصد ہونا چاہیے۔ ایک قدامت پسند قوم جو نہ رکنے والی تبدیلی سے گزر رہی ہے اسے ایک فرد اور دفتر کی شکل میں استحکام کی ضرورت ہے جس کی بہت زیادہ قدر ہو گی۔انھوں نے کئی برسوں کے تجربے سے خدمت کے نام پر اپنی زندگی آنے والی دہائیوں کے لیے وقف کی۔ اس سے قوم کی نظروں میں شاہی نظام حکمرانی کے لیے محبت پیدا ہوئی۔ان کے کردار میں ایسی کئی چیزیں تھیں جو برطانوی شہری اپنے اندر دیکھتے ہیں جیسے عاجزی، شکایت نہ کرنا، کفایت شعاری، دانائی، احساس، کم میں خوش، طنز و مزاح کے خشک مزاج کے ساتھ بڑی ہنسی، غصہ نہ آنا اور بہت زیادہ سلیقہ مندی۔انھوں نے ایک بار کہا تھا کہ ’میں معیارات کا آخری ادارہ ہوں۔‘ وہ بہتر اخلاق یا آداب پر فخر نہیں کر رہی تھیں۔ بلکہ وہ اپنی زندگی اور کردار کی وضاحت کر رہی تھیں۔اور ایسے لوگ شاید دنیا میں خار خار ہی ملتے ہیں!

مصنف کے بارے میں