ڈھول،ڈھولچی اور بھنگڑا

ڈھول،ڈھولچی اور بھنگڑا

ایک سردار کی والدہ بیمار ہو گئی۔اس نے مقامی معالج سے کافی علاج معالجہ کرایا مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔کسی نے سردار کو مشورہ دیا کہ ساتھ والے گاؤں میں ایک حکیم صاحب(حکیم پٹیالے والے) رہتے ہیں۔کافی سیانے ہیں۔آپ بے بے کو اسے چیک کرائیں۔سردار نے بے بے سے بات کی۔بے بے کافی کمزور اور نحیف تھی اس لیے جانے کے لیے بڑی مشکل سے رضا مند ہوئی۔سردار نے اپنی بے بے کو سائیکل پر بٹھایا اور ساتھ والے گاؤں کی راہ لی۔ابھی آدھا سفر ہی طے ہوا تھا کہ سردار نے راستے میں ڈھول کی آواز سنی۔ڈھول کی آواز سنتے ہی سردار کے اندر کا ’’سردار ‘‘جاگ اٹھا۔سردار نے مونچھوں کو تاؤ دیا،پگڑی سیدھی کی اور ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا ڈالتے ہوئے کہنے لگا بہہ جا بے بے ،بہہ جا ، بہہ جا بے بے بہہ جا۔۔۔(ماں ذرا بیٹھ جاؤ۔۔۔ماں ذرا بیٹھ جاؤ۔۔۔بھنگڑا ڈال لوں پھر آگے چلتے ہیں)ہم بیمار قوم ہیں۔ہم بے عقل اور جاہل ہیں۔ہم دماغ سے فارغ ہیں۔ہم بریانی کی ایک پلیٹ کے لیے سارا سارا دن دھمال ڈالتے ہیں۔نعرے لگاتے ہیں۔ میں اس قوم کا بھنگڑا 1985ء سے دیکھ رہا ہوں۔میرے شعور اور فکر نے میری وسعت کو آج کرارا سا جواب دے دیا اور میں اس وقت سے لیکر آج تک کے حالات لکھنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ میرا تعلق ایکس جنریشن سے ہے اور میرے اندر ابھی تک روایات اور اقدار باقی ہیں۔جن کا رونا میں اکثر روتا رہتا ہوں اور میں اپنے آپ کو روایات کا امین سمجھتا ہوں(صادق تو میں پہلے ہی ہوں )1988ء میں جنرل ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں چل بسے۔پی پی پی سمیت کئی لوگوں نے آمریت سے چھٹکا را پانے پر بھنگڑے ڈالے۔1988ء میں ہی بے نظیر بھٹو ملک 
کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔اس عوام نے جی بھر کر بھنگڑے ڈالے۔ 1990ء میں اسی بینظیر بھٹو کی حکومت گری اس قوم نے بھنگڑے ڈالے۔اس کے بعد مسلم لیگ کے قائد نواز شریف وزیر اعظم بنے تو اس قوم نے ڈھول کی تھاپ پر رقص فرمایا۔1993ء میں اسی نوازشریف کی حکومت گری تو اس قوم نے بھنگڑے ڈالے اور شکرانے کے نوافل ادا کیے۔بے نظیر بھٹو پھر وزیر اعظم بنی تو اس قوم نے بغیر بریانی کی پلیٹ کے بھنگڑے ڈالے۔ 1996ء میں بی بی بینظیر کی حکومت گری تو اس قوم نے پھر  بھنگڑے ڈالے،اس کے بعد لیڈر جو لندن میں ابھی علاج کرا رہے ہیں ایک بار پھر ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ وزیراعظم بنے تو اس قوم نے جی بھر بھنگڑے ڈالے۔1999ء میں نوازشریف کی حکومت ’’منھ پرنے‘‘ گری تو اس قوم نے بھنگڑے ڈالے اور کلمہ تشکر ادا کیا۔1999ء میں ایک آمر پرویز مشرف کی حکومت آئی تو لوگوں نے بھنگڑے ڈالے۔ 2008ء میں جنرل مشرف صدارت سے گرے اور ’’ق لیگ‘‘ کا مکمل صفایا ہو گیاتو اس قوم نے بھنگڑے ڈالے، 2013ء میں پیپلزپارٹی الیکشن میں گری تو اس قوم نے بھنگڑے ڈالے، 2017ء میں جے آئی ٹی بنی تو اس قوم نے بھنگڑے ڈالے،2017 میں نوازشریف کو گھر بھیج دیا گیاتو قوم نے بھنگڑے ڈالے،وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بنے تو قوم نے بھنگڑے ڈالے۔ جب بین الاقوامی فوک گلوکار عطاء اللہ خان عیسٰی خیلوی نے(پرائیڈ آف پرفارمنس ،لائف ٹائم اچیو منٹ ایوارڈ،ستارہ امتیاز )  جب آئے گا عمران،بنے گا نیا پاکستان والا ترانہ گایا تو ملک کے مرد و زن تو ایک طرف بچوں اور چوپائیوں نے بھی بھنگڑے تک ڈالے۔ آدھے عوام نے عمران خان کے لیے اور باقی عوام نے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے لیے بھنگڑے ڈالے۔پھر جب عمران خان وزیراعظم بنے تو اس قوم نے  صرف وزیر اعظم کے لیے بھنگڑے ڈالے اور عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کو صرف ہار مونیم تک محدود کر دیا گیا۔اب جب وزیر اعلیٰ پنجاب جناب سردار عثمان خاں بزار کے خلاف عدم اعتماد کی مہم چلی تو قوم نے بھنگڑا ڈالنے کے لیے ڈھول اور ڈھولچیوں کو وسیع پیمانے پر بک کر لیا۔یہ صورت حال اس قدر گمبھیر ہو گئی کہ ڈھول ناپید ہوگئے۔مگر خوشی کی بات یہ تھی کہ ڈھولچی کافی مقدار میں حکومت میں ہی موجود تھے۔یہاں تک کہ مولانا فضل الرحمان نے خود ’’ڈھول بجانے‘‘ کی ذمہ داری تک قبول کر لی تھی حالانکہ ڈھول پیٹنے کا تجربہ تو وہ کافی  عرصہ سے رکھتے ہیں۔اب جب اسلام آباد کے جلسے میں بلاول بھٹو زرداری کی ’’کانپیں ٹانگ رہیں تھیں ‘‘تب بھی اس عوام نے بھنگڑا ڈالا۔اب جب کبھی عمران خان کی حکومت اپنے پانچ سال پوری کرے گی یا اس سے پہلے گر جائے گی تو بھی یہ قوم بھنگڑے ڈالے گی اور بہت زیادہ ڈالے گی۔یاد رکھیے گا اس وقت یہ قوم باجماعت شکرانے کے نوافل بھی ادا کرے گی۔(نمار استسقاء تو یہ قوم کئی دفعہ ادا کر چکی ہے)یہ قوم ہر آنے جانے والے کی خوشی میں بھنگڑے ڈالنے کو اپنا فرض عین سمجھتی ہے۔ یہ قوم ان کو اپنا لیڈر مان رہی ہے جن کا اپنا نہ کوئی نظریہ ہے اور نہ کوئی منشور ہے۔یہ قوم بھی دھمالی ہے اور اس قوم کے حکمران بھی بہت بڑے ڈھولچی اور لٹیرے ہیں اور سب سے بڑی حیران کن بات یہ ہے ہر لیڈر نے یہی کہا ہے کہ ہمارے ساتھ پوری قوم کھڑی ہے اور عوام بھنگڑا ڈالنا شروع کر دیتے ہیں لیکن یہ حکمران یاد رکھیں یہ قوم اگلا بھنگڑا ڈالنے کے لئے بھی بہت بے قرار ہوتی ہے۔لہٰذا آپ پریشان نہ ہوں یہ ڈھول،ڈھولچی اور بھنگڑے کا کھیل ہماری آنے والی نسلوں تک بڑی کامیابی تک کھیلا جائے گا۔

مصنف کے بارے میں