امریکہ جارہا ہے شب غم گزارکر

Sofia Bedar, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

زمینی ثقافت کی کروٹ کو زمانے درکارہوتے ہیں یہ دوستی تسلط، امریکی قبضے اور ماڈرن ازم کی بظاہر لہرسے اپنی موت ورفتار متاثر نہیں ہونے دیتی اسی لیے تبدیلی کا نعرہ بھی متنازع ہے تبدیلی آتی ضرور ہے مگر اس کے دست مبارک سے جو خود تبدیلی سے بڑا ہو…… وقت کروٹ لیتا ہے اپنی مرضی سے مگر جڑیں اپنی جگہ مضبوطی سے جمی رہتی ہے…… انہیں برسوں بعد امریکہ کی افغان سرزمینوں سے واپس اُس ہارے ہوئے جواری کی طرح ہے جو گھر کا ہے نہ گھاٹ کا۔ اسلحہ، پیسہ انسانی جانیں ذوق فتوحات میں گنوا کر ……
وہ جارہا ہے کوئی شب غم گزار کر ……
زمین کسی کی نہ ہوئی ویسے تو محاورہ ”جوئے“ کے بارے میں ہے جوا کسی کا نہ ہوا…… دریائے کابل کی روانی و خشکی اس کے اپنے ہی فیصلوں کے ماتحت ہے، دریا جب چاہیں رواں ہو جاتے ہیں وہ راستہ نہیں بھولتے …… 
مگر برطانوی وامریکی مزاج کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ زمینی تسلط کی محض ایک مدت ہوتی ہے مگر علاقائی مزاج کبھی مفتوح نہیں ہوا سولہویں، سترہویں اور اٹھارویں صدی کے زمینی قبضوں نے انیسویں صدی میں دم توڑا تو تب تک یہ کھل چکا تھا کہ قوم،خصلت اور مزاج پر کبھی فتح نہیں پائی جاسکتی ……
وقتی طورپر کابل کو ماڈرن کیا گیا خواتین کی آزادی وبے پردگی جو اہل مغرب کا سب سے بڑا خواب ہے پورا ہوکر بھی پورا ہوا کہ آپ نہ دودھ کی خوشبو کو ختم کرپائے نہ رگوں میں دوڑتے افغان خون کو برصغیر کے تسلط کے وقت انگریز سرپیٹ لیتے تھے کہ پورے برصغیر میں بغیر سمعی بصری معاملات کے خبرکیسے پھیل جاتی ہے افواہ بازی کا بازار کیسے گرم ہو جاتا ہے وہ اپنے جاسوسوں کے ذریعے جو افواہ پھیلانا چاہتے ہیں اس کے الٹ افواہ کیسے پھیل جاتی ہے زبان وبیان، حرم سازی، بیگمائی کلچر اور علاقائی رہن سہن مکمل طورپر اختیار کرنے کے باوجود وہ کیسے مقامی رمز وکنایہ سے دھوکہ کھاجاتے ہیں۔ 
کھیلنے والوں نے ہمیشہ افغانستان کی سرزمین سے کھیلا اسے میدان جنگ بنائے رکھا آرمٹیج کی پتھر کے زمانے میں ہمیں دھکیلنے کی دھمکی نے ہم سے وہ کچھ کرایا کہ ہم پتھر سے بُرے دور میں پہنچ گئے……افغانستان پر کارپٹ بمبنگ ہوئی وہاں پہنچنے والے صحافی جانتے ہیں کہ افغان سرزمین کے لیے یہ لوہے کے بم بارود کے گولے کیا حیثیت رکھتے ہیں خالی میزائلوں کے خول کوآٹے کا ڈرم بنانے والوں کو کیسے ڈرایا جاسکتا ہے، پورا افغانستان مسلسل جنگ میں رہنے کے باعث تمام عمارتیں، مقامات اور ادارے ملیا میٹ کراچکا ہے …… ڈرے گا تو وہ جوبھرا پڑا ہوگا لٹے لٹائے ہوؤں کے پاس تولے دے کے ان کا کلچر ہی رہ جاتا ہے جسے وہ ہرگز نہ گنوائیں گے …… لوگوں نے کیسے ”رہتل“ کے تقاضے نبھائے ہیں یہ فاتحین کے دماغ میں نہیں آتا بلکہ فاتحین کو اس نفرت کا علم بھی نہیں ہوتا جو اُن کا مقدر ہی ہو جاتی ہے؟؟بدھا“ نے کہا تھا کہ فتح نفرت کی مآخذ ہے کہ فاتح کے قدموں تلے ہزاروں زخمی وجودوں کی کراہیں نفرت وبددعا بن کر قوموں سے چمٹ جاتی ہیں فتح محض نفرت کو جنم دیتی ہے دل جیتنے کو محض ایک ”میتھ“ Mithسمجھا جاتا ہے وہ راستہ جو ولیوں، رشیوں، صوفیوں نے اختیار کیا تمام پیغمبران محبت کا پیغام لے کر آئے اور نبی آخرالزمان حضرت محمدؐ تو مکمل محبت کی شکل میں تمام عالم کے لیے رحمت کی صورت ہوئے اسلام بزور شمشیر نہیں بہ اسم محبت نرم خوئی وفلاح کے بموجب پھیلا ……
امریکیوں کا ایک پرانے اصول پرست قدیم تہذیبی خطے کے بارے دھوکہ کھا جانا اور کٹھ پتلی حکومت بٹھائے رہنا ایک غنی کی پرواز سے ہوا میں اُڑگیا…… کہتے ہیں وہاں بڑے تھنک ٹینک ہیں مجھے ہنسی آتی ہے وہ آج تک تو برصغیر کی کسی پالیسی میں مجھے کامیاب نظر نہیں آئے سوچ کی گہرائی اس قدر بھی نہیں کہ کسی خطے کی زبان لباس اور رہن سہن اپنا کر بھی پوری تہذیب اور رجعت پسند ذہن نہیں اپنایا جاسکتا۔ 
مجھ پر جب اپنی ذات کے اسرار کھلتے ہیں تو حیران ہوتی ہوں پورا پنجاب میرے اندر ہے میرے عزت بے عزتی کے وہی معیار ہیں جو کسی بھی سوسال پرانے دیہاتی کے ہوسکتے ہیں میری اولاد بارے وہی خواہشات وخدشات ہیں جو میری نانی دادی یا اُس سے بھی پرانی خواتین کے تھے ……
چار چھ صدیوں سے کچھ بھی نہیں بدلتا معمولی سے تبدیلی کے ساتھ سب ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے آپ دیکھ لیں لباس کی (صفحہ 3پر بقیہ نمبر1)
ساری قطع برید محض قمیض وپائنچے کی لمبائی چھوٹائی پر ہے بڑے بڑے ڈیزائنرآگئے مگرآج تک تمام مغلائی درزیوں کے تراشے ہوئے ”کٹ“ ہی میں ردوبدل کررہے ہیں پشوازشلوار کرتا کلیاں غرارہ شرارہ سب وہی ہے لاکھوں روپے کے ڈریسرتیارکرنے والوں نے ایک بھی نیا ”کٹ“ متعارف نہیں کرایا یہی حال خیر سے ”شیف“ کا ہے کوکنگ شوزپر لاکھوں خرچ کیے جاتے ہیں کمائے جاتے ہیں لیکن ایک بھی نیا ذائقہ نئی ڈش متعارف نہیں کرائی جاسکی وہی قورمہ پلاؤ نئی بدذائقی کے ساتھ یا پھر دیسی یا بدیسی ڈشوں کا مکس چربہ ……
امریکہ کی ذلت کا سفرتو شاید ویت نام سے پہلے کا ہے مگر افغانی پڑاؤ کھربوں کا نقصان اور شرمندگی سمیت پاکستان کا بھی بہت نقصان کر گیا خطے کے سچ نے بتادیا کہ بادمخالف کو سوچنا ہو گا ہرطرح کی مخالفت مول لے لے لیکن کبھی کسی خطے کی تہذیب /ثقافت کو چیلنج نہ کرے۔
صوفیہ بیدار