خان کے کھوٹے سکوں سے وزیراعظم شہبازشریف تک

 خان کے کھوٹے سکوں سے وزیراعظم شہبازشریف تک

 پاکستان کی سیاست میںدن بدن تلخی بڑھتی جارہی ہے،تاہم حکومتی مئوقف میںصبح ٹھنڈا اورشام کے وقت جب سخت ہوجاتاہے کیونکہ بال ٹوبال بدلتی صورتحال نے وزیراعظم عمران خان سمیت حکومتی Top Ten وزراء کی واقعی نیندیں حرام کردی ہیںیعنی حکومت کے اب اصل میںخود گھبرانے کاوقت شروع ہوچکاہے ،وزراء کی آواز میںوہ گھن گرج نہیںدکھ رہی ،پائن مولاجٹ یعنی شیخ رشید کے لہجے میںسفارتی آداب آچکے ہیں،ہمارے پیارے نوری نت یعنی فوادچوہدری کی باڈی لینگوئج بہت ماٹھی دکھائی دے رہی ہے،، کرسی پربیٹھے بیٹھے پیالی میںطوفان مچانے والے شریف آدمی شبلی فرازکاغم وغصہ ختم ہوچکاہے ،دلائل پردلائل جمانے والے ہمارے دوست فرخ حبیب بھی کوئی رنگ نہیں جما پارہے ،محسن بیگ کے دشمن اول مراد سعید ایک پروگرام اورایف آئی اے کے episode کے بعد نہ جانے کیوںخاموش خاموش ہیں؟؟ غلام سروربولے ہیںتوخودکش بمبارکے روپ میں بولے،،جویقیناان کی گھبراہٹ کامنہ بولتا ثبوت ہے،بچوں کے پسندیدہ انکل شفقت محمود بھی پریشان ہیں وہ بھی ادھرادھرمارے مارے پھررہے ہیںمگران سے بھی کچھ نہیںہوپارہا،علی حیدرزیدی اورعلی امین گنڈا پورکی جوڑی بھی کچھ خاص نہیںبول پارہی جس سے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کپتان کوٹھنڈی ہواکا جھونکا میسر ہو،دوسری جانب مشیربھی پریشان ہیں،،پائن شہبازگل کی آوازمیں وہ دم خم نہیںرہا،،،شریف خاندان کی مبینہ کرپشن کے کاغذات باربارہلانے والے جناب شہزاد اکبرمرزا پہلے ہی بولڈ ہوچکے ہیں،پائن شہبازگل کی آوازمیں بھی وہ دم خم نہیںرہا،،،،بنیادی طورپر کابینہ کے یہ و ہ چند کھوٹے سکے تھے جنہوںنے کپتان کوسیاسی بھنورمیںپھنسانے اور پھرڈبونے میںان کی مدد کی اوراب ہاتھ پرہاتھ بندھے بیٹھے ہیں۔
عمران خان کوقدرت نے ایک اچھاموقع دیاتھاکہ وہ وطن کیلئے کچھ ایساکرتے کہ انہیںعوام رہتی دنیا تک سنہری الفاظوںسے یاد رکھتے مگران کی طرز سیاست اورٹیم کی سلیکشن اس قدرکمزورتھی کہ وہ نہ صرف حکومت بلکہ سیاست میںکمزورہوئے،صرف حکومت حاصل کرنے کیلئے انہوںنے قاتل ایم کیوایم کے لوگ اپنے ساتھ ملالئے، ’’ڈاکو ‘‘ چوہدری پرویزالٰہی کواپنے ساتھ ملالیا ، (بقول2000کی دہائی کے عمران خان )اورپھرشیخ رشید کواپنے ساتھ ملالیا،اورٹکرلے لی سیاست کے بڑے کھلاڑیو ں سابق وزیراعظم محمدنوازشریف،سابق صدرآصف علی زرداری اورمولانا فضل الرحمان سے ،،حکومت میںاگر عمران خان کے کوئی سجن بیلی ہیںتووہ انہیںمشورہ دیں اورازحکومت سے مستعفی ہوکر حکومت اپوزیشن کے حوالے کرکے اپنی رہی سہی سیاسی ساکھ کو بچائیں ،اوراگلے الیکشن کی تیاری کریں کیونکہ اگروہ تحریک عدم اعتمادکے نتیجے میںحکومت سے گئے توپھرسیاست سے بھی جائیںگے جس سے نہ صرف وہ بلکہ ان کی پارٹی بھی تتربترہوجائے گی۔
سیاست کے تینوںکھلاڑیوں وزیراعظم محمد نواز شریف،آصف علی زرداری اورمولانا فضل الرحمان نے بلاشبہ ایک بڑاشکار کیاہے اوراس شکارمیں شہبازشریف کی پلاننگ نے بڑا کام کیا،کیونکہ پیپلزپارٹی کی پی ڈی ایم سے جس طرح راہیں جدا ہوئیں اس سے غالب امکان یہی تھاکہ اپوزیشن کے اتحاد کا شیرازہ بکھر گیا ہے مگر جیل سے واپسی پر انہوں نے بطور اپوزیشن لیڈرایک قومی سیاسی رہنما کے طورپراپنا کردار نبھایا اور سب کوون پوائنٹ ایجنڈا پراکٹھا کرنے میںکامیاب ہوئے، شہباز شریف جیل میںتھے جب پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم کوخیرباد کہا،ان کی عدالت پیشیوں کے موقعہ پران سے ہم ہمیشہ پوچھتے کہ اس صورتحال پروہ کیاکہیں گے ؟؟؟مگروہ اکثرخاموش ہوجاتے ،،یا پھرصرف ایک جملہ کہتے کہ’’میں توجیل میں ہوں ،مجھے کچھ معلو م نہیںکیاہورہاہے ،مجھے توصرف اخبارات سے معلومات ملتی ہیں،میںجیل رہ کرکیا کرسکتاہوں‘‘ اپوزیشن اتحاد میں دراڑ یقینا بطورپارٹی صدر اور قائد حزب اختلاف ان کے لئے پریشان کن تھی مگرجیسے ہی وہ ضمانت پررہاہوئے تووہ دن رات کوششوں سے اپوزیشن کواکٹھاکرنے میںکامیاب ہوئے اورکامیاب Statesman ہونے کاثبوت دیااورآج ان کی کوششوںکے بعد ہی اپوزیشن ایک بڑی وکٹ لینے کے در پرہے۔
اگراپوزیشن حکومت کوگرانے میںکامیاب ہوگئی تومیری اطلاعات ہیںکہ فوری انتخابات تک نوبت نہیںآئے گی،حالات مختلف ہوجائیں گے، شہبازشریف وزیراعظم بن جائیںگے ،شہباز شریف کوایک بڑا صوبہ چلانے کاوسیع تجربہ ہے ،اگرچہ مختصرمدت ہوگی مگروہ ایک کامیاب وزیر اعظم ہونگے ،ان کے پاس اپوزیشن کی بہترین ٹیم ہوگی، اطلاعات ہیںکہ ان کی معاشی ٹیم مستقبل کی صورتحال کے پیش نظرعوام کوفوری ریلیف دینے کیلئے معاشی پلان ترتیب دے رہی ہے،پیپلزپارٹی میںبھی وسیع تجربہ کے بہترین چہرے ہیں،شہبازشریف کے ساتھ صوبے میںچوہدری پرویزالٰہی ہوئے تویہ ایک اچھاکمبی نیشن ہوگا اورمختصرمدت کی حکومت میںعوام کوکئی خوشخبریاں ملیںگی۔

مصنف کے بارے میں