تجارتی خسارہ مثبت بنانے کیلئے پائیداراصلاحات ضروری!

تجارتی خسارہ مثبت بنانے کیلئے پائیداراصلاحات ضروری!

تحریک انصاف حکومت نے ملکی درآمدات میں کمی لانے کا اعلان کیا تھا تاکہ اس کے ذریعے تجارتی اورجاری کھاتوں کے خسارے کو کم کیا جا سکے۔ اگرچہ گذشتہ مالی سال میں تحریک انصاف کی حکومت اس خسارے میں تھوڑی بہت کمی لانے میں کامیاب ہوئی تاہم موجودہ مالی سال کے آغاز سے درآمدات میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس سے تجارتی خسارہ بڑھنا شروع ہو گیا ہے۔ گزشتہ حکومت کے آخری مالی سال میں ملک کا تجارتی خسارہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا جب یہ 37 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گیا تھا۔تحریک انصاف حکومت کے پہلے مالی سال میں یہ خسارہ 31 ارب ڈالر، دوسرے مالی سال میں 23 ارب ڈالر رہا تھا۔ تاہم خسارے میں کمی کا یہ رجحان برقرار نہیں رہ سکااور30جون 2021ء کو ختم ہونے والے موجودہ حکومت کے تیسرے مالی سال میں یہ خسارہ ایک بار پھر 30 ارب ڈالر تک پہنچ گیا، جس میں اضافے کا رجحان تسلسل سے جاری ہے۔
 تجارتی خسارے میں اضافہ ملکی معیشت کیلئے ایک خطرناک علامت ہے کیونکہ یہ خسارے جاری کھاتوں کے خسارے کو بڑھا کر شرح مبادلہ پر منفی اثر ڈالتا ہے جس کا براہ راست منفی اثر روپے کی ڈالر کے مقابلے میں کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔ ملکی درآمدات میں زیادہ اضافہ پاکستانی روپے پر بھی دباؤ ڈال رہا ہے جو امریکی کرنسی کے مقابلے میں اس مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں 155 روپے سے 178 روپے تک جا پہنچا ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک درآمدی بل میں اضافہ ہے۔ پاکستان کے درآمدی شعبے میں ملک میں آنے والی مصنوعات کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کھانے پینے کی چیزوں، تیل کی مصنوعات، گاڑیاں اورمشینری کی درآمدات میں بے تحاشا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ فوڈ سیکٹر کی درآمد میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے جس کی وجہ گندم اور چینی کی بڑی مقدار میں درآمد ہے، پاکستان کبھی ان چیزوں کو دنیا میں برآمد کرتا تھا۔ یہ ملک کے بیرونی تجارت کے شعبے اور جاری کھاتوں کے خسارے کو عدم توازن سے دوچار کر دیتا ہے۔ موجودہ مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں ملکی برآمدات 25 فیصد کی شرح سے بڑھتے ہوئے 15 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں جو گزشتہ سال 12 ارب ڈالر تھیں۔ ایک جانب برآمدات میں اضافے کو بیرونی تجارت کے شعبے میں خوش آئند پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے مگر دوسری جانب رواں مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں ملک کا تجارتی خسارہ 100 فیصد بڑھ کرتقریباً 25 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو یہ سال کے اختتام پر 48 سے 50 ارب ڈالر ہو سکتا ہے۔ تاہم اگر درآمدات میں کمی کا رجحان آیا ہے تو اس حساب سے بھی تجارتی خسارہ 40 ارب ڈالر تک جا سکتا ہے جو پاکستان کے بیرونی تجارت کے شعبے کے لیے بہت الارمنگ ہے۔ 
پاکستان کے تجارتی خسارے میں 100 فیصد اضافہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک بیرونی ادائیگیوں کے توازن میں بگاڑ کی وجہ سے بے پناہ مشکلات کا شکار ہے اور اس کے باعث رقم کے حصول کے لیے اسے بیرونی ذرائع اورآئی ایم ایف جیسے پروگرامز پرانحصار ہے، جو اپنی سخت شرائط کی وجہ سے پہلے ہی ملک میں مہنگائی کی لہر کو جنم دے چکا ہے، جوحکومتی پالیسیوں اور مرکزی بینک کی جانب سے لیے جانے والے اقدامات کے باوجود مسلسل بڑھ رہا ہے اور پاکستان کیلئے مزید مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ حکومت کے پاس عملی طور پر کوئی مربوط اور جامع حکمت عملی نہیں۔
مثبت توازن ادائیگی کیلئے پائیداراصلاحات ضروری ہیں۔اگر تجارتی خسارہ جی ڈی پی کے مقابلے میں چار فیصد سے زائد ہونا شروع ہو جائے تو یہ ملکی معیشت کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں سخت اصلاحات تو متعارف نہیں کرائی جا سکیں کہ وہ معیشت کو بہتر بنا سکیں اور مقامی پیداوار کو بڑھا سکیں، اسلئے تجارتی خسارہ درآمدات کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔اس سال پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں کیلئے 23 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط کے اجراء کیلئے سخت شرائط پر رضامندی اختیار کی جس کے بعد دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں جیسے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے قرضے کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہو گا۔ضروری ہے کہ ملک کے اندر تیار ہونے والی مصنوعات سرپلس ہوں اورانھیں بیرونی ملک بھی برآمد کیا جا سکے، تاکہ سرمایہ ڈالرز کی صورت میں ملک میں لایا جاسکے،جس سے پیداواری شعبہ زیادہ متحرک ہوگااورترقی کی رفتار بڑھنے سے ملکی معیشت کی شرح نمو بڑھے گی اورلوگوں کیلئے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہونگے۔ یوں برآمدات میں اضافہ درآمدات سے زیادہ ہو نے کی صورت میں نہ صرف تجارتی توازن سرپلس ہوگا بلکہ ڈالر کے مقابلہ میں پاکستانی روپے پر بھی دباؤ کم ہوگا اور بہتر کرنسی تبادلہ ریٹ سے ناصرف مہنگائی پر قابو پایا جاسکے گا بلکہ بیرونی ملک ادائیگیوں کا توازن بھی بہتر ہوگا۔اس مقصد کیلئے برآمدی شعبے کے بنیادی مسائل ترجیح بنیادوں پر حل کئے جائیں، جس کی وجہ سے یہ شعبہ اس رفتار سے اپنی کارکردگی نہیں دکھا سکا۔ اسی طرح گیس اور بجلی کی قیمتوں پر قابو پانا انتہائی اہم ہے، جس نے اس شعبے کی لاگت میں اضافہ کیا اور اس کی بین الاقوامی مارکیٹ میں مسابقت کوکم کیا۔گورننس کے مسائل نے بھی برآمدات کی گروتھ میں زیادہ اضافہ نہیں کرنے دیا۔ ایکسپوڑز کیلئے فنانسنگ کی سہولت کا مسئلہ حل کرنا ضروری ہے، تاہم حکومت کی جانب سے ٹیمپریری اکنامک ری فائنانسنگ فیسیلیٹی کے اجراء سے اس شعبے کو سہولت حاصل ہوئی، جس کے دائرہ کار کو مزید توسیع دے کر برآمدات کی نئی مارکیٹس میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ مشینری کی درآمد پیداواری شعبے میں توسیع کے لئے منگوائی جا رہی ہے لیکن یہ عمل پائیدار نہیں ہے۔ ٹیکسٹائل کے شعبے کو مراعات دے کر زیادہ درآمد کی جانے والی مشینریز کوسائنس و ٹیکنالوجی کا بجٹ بڑھا کرملکی سطح پربہتر ٹیکنالوجی اوروسائل سے مشینریز تیار کی جائیں،اس سے ناصرف مقامی صنعت سازی پروان ہوگی بلکہ خطیر زرمبادلہ بچا کے معیشت کو استحکام ملے گا۔
اگرچہ اس وقت ترسیلات زر کی وجہ سے پاکستان کو فائدہ ہو رہا ہے وگرنہ جس رفتار سے تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے وہ پاکستان کے جاری کھاتوں کے خسارے کو بے پناہ بگاڑ سکتا ہے۔ اگرچہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بہت ساری درآمدی مصنوعات پر 100 فیصد کیش مارجن لگا دیا ہے تاہم اسکے باوجود کھانے پینے کی اشیاء کی غیر ضروری درآمد رک پائیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء کی غیر ضروری درآمد پر مکمل پابندی عائد کرکے ملکی سطح پر ان اشیاء کی پیداوار میں اضافہ کیلئے ترغیب، مراعات اور ماحول دیا جائے، جس سے ناصرف تجارتی خسارہ کم اور توازن ادائیگی بہتر ہوگا بلکہ برآمدات کی نئی مارکیٹس میں بھی اضافہ ہوگا۔

مصنف کے بارے میں