یہاں بھیک مانگنا منع ہے

یہاں بھیک مانگنا منع ہے

پاکستان کے عوام کو دو شعبوں نے سب سے زیادہ مایوس کیا ہے ایک گداگری اور دوسرا سیاست۔ ان دونوں کی حدود آپس میں ملی ہوئی ہیں جس طرح ہمارے پیشہ ور گداگر اچھے خاصے سیاسی ہو چکے ہیں اسی طرح ہمارے سیاستدان بیرون ملک جا کر دوست ممالک کے سربراہان مملکت کے پاس جا کر وہی کام آن ریکارڈ کرتے ہیں جو ہمارے گداگر ہر ٹریفک سگنل پر یہاں کر رہے ہیں سابق وزیر اعظم شہباز شریف کا بیان آن ریکارڈ ہے کہ جب ہم دوست ممالک میں جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ پھر مانگنے آگئے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں ایک رپورٹ پر بحث ہو رہی تھی کہ بیرونی ممالک میں بھیک مانگتے ہوئے پکڑے جانے والے افراد میں 90 فیصد تعداد پاکستانیوں کی ہے جو وہاں جیلوں میں قید کر دیے جاتے ہیں۔ سعودی عرب متحدہ عرب امارات اور عراق وغیرہ کے سرکاری احتجاج کے بعد پاکستان ایئر پورٹوں پر کچھ سختی کی گئی ہے کہ عمرہ اور حج یا مقدس مقامات کی زیارت کے لبادے میں سفر کرنے والے بھکاریوں کو روکا جائے۔

پاکستان میں بھیک لینے اور دینے کا رجحان کافی زیادہ ہے جس کی وجہ سے بھکاریوں کے متعلق حیران کن انکشافات سامنے آتے رہتے ہیں۔ چند سال پہلے ایک غیر سرکاری تنظیم  نے روزگار کے فراہمی کے لیے تجرباتی طور پر دو بیروزگاروں کا انتخاب کیا۔ ایک کو کھانے پینے کی چھوٹی موٹی چیزیں لے کر دیں کہ اس کو بازار میں فروخت کر کے اس پیسے سے منافع نکال کر باقی رقم سے مزید سامان خریدو اور بیچو۔ دوسرے بے روزگار کو بھیک مانگنے کا ٹاسک دیا گیا۔ دن کے اختتام پر خوانچہ فروش کی سیل 200 روپے تھی جبکہ بھیک مانگنے والے کی دیہاڑی 800 روپے وصولی کی شکل میں سامنے آئی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ بھیک کو بطور پیشہ اپنانے میں دقت محسوس نہیں کرتے۔

بھکاری بڑے سیاسی ہو چکے ہیں یہ ٹریفک سگنل پر آپ کی گاڑی کا شیشہ صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں کچھ ایسے ہیں جو بیلچہ یا کام کے اوزار دکھا کر کہتے ہیں کہ ہماری دہاڑی نہیں لگی ہم بھکاری نہیں ہیں حالانکہ وہ روزانہ یہی کر رہے ہوتے ہیں کچھ نے پنسلیں یا کوئی بیچنے والی چھوٹی موٹی چیز اٹھائی ہوتی ہے تا کہ ظاہر کریں کہ ہم بھکاری نہیں ہیں۔ ایک دفعہ ہمارے ایک دوست نے چوک پر گاڑی روکی تو بھکاری سامنے آگیا اس نے اسے پیسے دیتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے بھکاری نے جواب دیا کہ آپ فیس بک پر میرے ساتھ ایڈ ہیں۔ ایک دفعہ ہم نے ایک نوجوان صحت مند بھکاری کو کہا کہ کوئی کام کیا کرو اس نے کہا بھیک مانگنا بھی تو ایک کام ہی ہے۔ یہی میرا کام ہے۔ ایک دفعہ ایک 14 سال کے بچے کو بھیک مانگتے دیکھا اسے میں نے کہا کہ میرے ساتھ آؤ آپ کو کسی کے ساتھ کام پر رکھوا دیتا ہوں مگر اس نے انکار کر دیا۔

پاکستان میں گداگری کے فروغ میں ہماری بیگم کا کافی کردار ہے۔ وہ مذہبی فریضہ سمجھ کر بھکاریوں کو پورا پروٹوکول دیتی ہے۔ اسے پتہ نہیں یہ حدیث کہاں سے ملی ہے کہ سوال کرنے والے اگر گھوڑے پر سوار ہو کر بھی آئے تو اس کی مدد کرو۔ مگر میرے سامنے وہ جب بھی کسی نو عمر لڑکے یا لڑکی کو پیسے دیتی ہے تو میں پیسے لینے والے کے سامنے ہی کہہ دیتا ہوں کہ آپ نے اس کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ یہ بقیہ عمر کوئی کام نہ کرے مگر وہ میری بات نہیں مانتی بہت سے بھکاری اس کے ریگولر پے رول پر ہیں۔ وہ مجھے کہتی ہے کہ اللہ ہمیں ان بھکاریوں کے طفیل ہی رزق دے رہا ہے جس پر میں خاموش ہو جاتا ہوں۔

ایک نوجوان چیریٹی دینے کا بہت شوقین تھا وہ ایک فقیر کو ہر ماہ 1000 روپے دیتا تھا پھر اچانک اس نے فقیر کا معاوضہ 1000سے 500 کر دیا فقیر کو غصہ آگیا مگر وہ خاموش رہا۔ ایک سال اور گزرا تو نوجوان نے 500 ماہانہ سے کم کر کے فقیر کا حصہ 100 روپے کر دیا تو فقیر خاموش نہ رہ سکا اور وجہ پوچھی نوجوان نے کہا کہ پہلے میں کنوارہ تھا جب شادی ہو گئی تو میرے خرچے بڑھ گئے اب ہمارا ایک بچہ ہو گیا ہے مزید خرچہ بڑھ گیا ہے فقیر نے بہت غصے سے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم میرے پیسے سے ”ٹبر“ پال رہے ہو۔

بھکاری دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو نوٹ مانگتے ہیں دوسرے وہ جو ووٹ مانگتے ہیں۔ پہلے والے دعا دیتے ہیں دوسرے والے دغا دیتے ہیں مگر ہمیں ان دونوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ان کا اعتبار کریں گے تو آپ اپنے نفع نقصان کے خود ذمہ دار ہوں گے۔