پاکستانی سیاست کا سیاہ پول…

پاکستانی سیاست کا سیاہ پول…

آج کل پاکستان کی سیاست کے عجیب رنگ ڈھنگ ہیں لانگ مارچ، دھرنے اور عدم اعتماد کا چرچا ہے۔ اس تماشے میں ’’ان‘‘ کے نیوٹرل ہونے کی بھی بات کی جا رہی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ زیادہ ہی ہنگامہ سا برپا ہے۔ اپوزیشن کا اتحاد تو نہیں ہے لیکن حکومت کے خلاف ایک ’’پول‘‘ بن گیا ہے جس کا مقصد حکومت کو گرانا ہے۔ اس پول میں وہ سب شامل ہیں جو کبھی ایک دوسرے کے خلاف سیاسی سے زیادہ ذاتی دشمنی، ایک دوسرے کے پیٹ پھاڑنے اور غداری کے فتووں تک چلے جاتے تھے۔ آج حالات نے انہیں یکجا تو کر دیا ہے لیکن ان کے درمیان بداعتمادی بدرجہ اتم اپنی جگہ موجود ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اپوزیشن اجلاس پر اجلاس بلا رہی ہے لیکن عدم اعتماد کا ہدف اور تاریخ ابھی تک طے نہیں کر سکی۔ سابق صدر آصف زرداری کو یہ کریڈٹ تو جاتا ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ ن کے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے مقبول بیانیے کو تار تار کر دیا ہے اور نواز شریف کو بھی اقتدار کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے۔ اب یہ بہت بڑا سوال ہے کہ اس ٹرک کی سواری کر سکیں گے یا نہیں۔ لیکن اگر ناکامی ہوئی تو مسلم لیگ ن کے پلے بھی کچھ نہ بچے گا جبکہ پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمان تو ہیں ہی خالی برتن۔
عدم اعتماد پارلیمانی جمہوری سیاست کا حصہ ہے اور اس پر کسی کو معترض نہیں ہونا چاہیے لیکن ماضی میں دیکھا گیا کہ ایسی تحاریک کو کامیاب بنانے کے لیے ممبران کی خرید و فروخت بھی عروج پر تھی۔ بلکہ بے نظیر شہید کے خلاف عدم اعتماد میں تو عالمی دہشت گرد اسامہ بن لادن کا پیسہ بھی استعمال ہونے کی خبریں میڈیا کی زینت بنی تھیں۔ اسی ہارس ٹریڈنگ کے پیش نظر مسلم لیگ نواز کے دور میں ’’چھانگا مانگا‘‘ کی اصطلاح بھی وجود میں آئی جسے کامیاب بنانے کے لیے سرکاری وسائل سے پیسے سمیت ہر ’’آسائش و عیاشی‘‘ کا سامان مہیا کیا گیا۔ یہاں تک کہ ممبران کو لبھانے اور ایک جگہ اکٹھا رکھنے کے لیے بدنام زمانہ چھانگا مانگا کیمپ بھی لگا۔ میں اس طلسم ہوشربا کیمپ کا چشم دید گواہ رہا ہوں جس میں ممبران کے لیے ’’Cash and Kind‘‘ سمیت ہر قسم کی آسائشیں مہیا تھیں۔ اسی طرح پیپلز پارٹی نے بھی عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے اپنے ممبران کو نوازنے کے لیے قومی خزانے کے دوازے کھول دیے تھے۔ وقت بدل گیا ہے اور آج الزام یہ ہے کہ پیپلز پارٹی آج یہی کچھ سندھ کے خزانے کا استعمال کر کے اپنے لانگ مارچ اور عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب کرنے میں لگی ہیں۔ بدقسمتی سے مسلم لیگ ن کے پاس اس وقت کوئی حکومت نہیں ہے اور اس پر حکومت مخالف احتجاج پر سرکاری خزانے سے پیسہ لگانے کا الزام 
نہیں لگایا جا سکتا۔ لیکن مخالفین الزام لگا رہے ہیں کہ ن لیگ کے پاس بڑے بڑے انوسٹرز کی کمی نہیں جو اس مہم میں اپنا پیسہ جھونک رہے ہیں۔ لیکن عدم اعتماد کے اس کھیل میں نواز شریف فرنٹ فٹ پر نظر نہیں آ رہے اور مریم نواز بھی قدرے خاموش ہیں۔ کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ ناکامی کی صورت میں ان کے اصولی موقف اور بیانیے کو شدید جھٹکا لگے گا۔
مسلم لیگ ق تو ہمیشہ سے دا ماری کی سیاست کی قائل رہی ہے۔ ضیاالحق سے مشرف تک اس کی تاریخ جمہوری سے زیادہ ’’خاکی‘‘ رہی ہے اور یہ اپنے مفاد کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ یہی پرویز الٰہی تھے جو کہ مسلم لیگ ن کے دشمن اول اور ڈکٹیٹر سابق جنرل مشرف کو دس بار وردی میں منتخب کرانے کے دعویدار تھے۔ آج وہی ن لیگ مسلم لیگ ق کے در پر اقتدار کے لیے کاسہ لیے پھر رہی ہے۔ ایم کیو ایم بھی اتحادی جماعت ہے لیکن اس کے فیصلے بھی کہیں اور سے ہوتے ہیں۔ اس جماعت کا ماضی دیکھا جائے تو جتنی بار اس نے حکومت سے علیحدہ ہونے کی دھمکی دی ہے اس کی مثال نہیں ملتی لیکن یہی ادا اچھی ہے مرے ہرجائی کی کہ کچھ ’’چمک‘‘ کے بعد ان کی واپسی جلد ہو جاتی ہے۔ سچ ہے اقتدار کی کوئی اخلاقیات یا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا۔
اس سارے کھیل میں کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کون کس کے ساتھ کھڑا ہے، کل کے دوست آج کے دشمن اور دونوں اطراف کے کئی آستین کے سانپ بھی سرگرم ہیں۔ ہر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ اس کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑا اس کے ساتھ ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ کوئی پتہ نہیں کس ساتھی اور اتحادی کے بغل میں چھری اور کون رام رام جپ رہا ہے۔ ایسے میں ہمیشہ سے دا ماری کی سیاست کرنے والی جماعتوں بشمول ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق اور جی ڈی اے کی چاندی ہے وہ کچھ مزید وزارتوں اور رعاتیوں کے متمنی ہیں اور حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے اس کے مخالفین سے ’’سیاہ۔۔ست‘‘ کی آڑ میں ملاقاتوں کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ اسی طرح اپوزیشن کے کچھ منتخب نمائندے بھی در پردہ حکومت سے رابطے میں ہیں اور کچھ ’’عوضانے‘‘ کے عوض اپنی خدمات پیش کرنے کو تیار ہیں۔ اپوزیشن کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ اس کے ساتھ بھی حکومت کے کچھ آستین کے سانپ ہیں۔ سنا ہے مسلم لیگ ن نے عدم اعتماد سے پہلے ان مبینہ لوٹوں کو مستعفی ہونے کو کہا ہے تا کہ حکومت کی پارلیمنٹ میں قوت کم کی جا سکے لیکن سوال یہ ہے کہ جو جماعت اپنے ممبران کو مستعفی ہونے پر مجبور نہ کر سکی ہو وہ دوسری جماعتوں کو کیسے اس پر مائل کر سکتی ہے۔
اپوزیشن کی جماعتیں جو ماضی میں ایک دوسرے سے دست و گریبان تھیں آج بظاہر تو ساتھ ہیں لیکن ماضی کے تلخ تجربات کے پیش نظر مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جمعیت علما اسلام ماضی کے کچھ تجربات کی روشنی میں ایک دوسرے پر اعتماد کو تیار نہیں۔ سب سے بڑی بد اعتمادی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہے جس کا گاہے بگاہے ذکر ہوتا رہتا ہے۔ عدالتیں ہمیشہ فیصلے میرٹ پر کرتی ہیں لیکن کل احتساب عدالت کے دو فیصلے جن میں راجہ پرویز اشرف ایک مقدمے میں بریت اور احسن اقبال کی بریت کی درخواست مسترد کرنے کو بھی مسلم لیگ ن اور فضل الرحمان شکوک و شبہات سے دیکھ رہے ہیں۔
ہارس ٹریڈنگ کا بازار گرم ہونے کی خبریں بھی گرم ہیں وفاقی وزیر اطلاعات نے تو اپنے تین ممبران سے اپوزیشن کے رابطوں کی بات بھی کر دی ہے۔ لیکن ابھی تک اپوزیشن نے حکومت پر ان کے ممبران خریدنے کی کوئی بات نہیں کی۔ البتہ جواب آں غزل کے طور ایسا کوئی الزام سامنے آ جائے تو حیرت نہ ہو گی۔ آخر سیاست دھندہ ہے پر گندہ ہے۔
قارئین اپنی رائے کا اظہار (03004741474) پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں