"اب میں آپ کی عدالت میں پیش نہیں ہوں گا، جو مرضی فیصلہ کرلینا": لطیف کھوسہ کا چیف جسٹس عامر فاروق سے مکالمہ

اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کی سزا معطلی اور ضمانت کی اپیلوں پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری ان درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالت نے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس پر کارروائی پیر تک ملتوی کر دی۔

عمران خان کی جانب سے لطیف کھوسہ، سلمان اکرم راجہ، بابر اعوان، بیرسٹر گوہر علی خان، شعیب شاہین اور دیگر وکلا عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔ عمران خان کی بہین علیمہ خان اور عظمیٰ خان بھی کمرہ عدالت میں موجود تھیں۔

جمعے کو سماعت ساڑھے گیارہ بجے شروع ہونا تھی مگر اس وقت تک کوئی بھی جج کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھا اور پھر پونے بارہ بجے سماعت شروع ہو گئی۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکلا کو روسٹرم پر آنے کی ہدایت کی۔ الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز آج عدالت میں پیش نہیں ہوئے تو ان کے معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ امجد پرویز کی طبیعت اچھی نہیں تھی۔ مقدمے کی کارروائی ملتوی کر دی جائے۔ عدالت کے اعتراض پر معاون وکیل نے کہا کہ یہ قدرتی امر ہے جو انسان کے بس میں نہیں ہے۔

لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ ان فیئر ہے، یہ ایک جیل میں پڑے شخص کی زندگی کی تیں دن مانگ رہے ہیں، زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عام طور پر جمعے کو دو رکنی بینچ تشکیل نہیں دیے جاتے مگر آج اس کیس کے لیے ڈویژن بینچ بنایا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ٹرائل کورٹ نے جو کیا غلط کیا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ سزا معطلی کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ اس کیس میں سقم موجود ہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ چلیں پھر پیر کو اس پر سماعت کر لیتے ہیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ خدارا اس ادارے کو ایسا نہ بنائیں کہ آپ کا ماتحت آپ کی بات نہ مانے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’اب میں آپ کی عدالت میں نہیں پیش نہیں ہوں گا، آپ جو مرضی فیصلہ کر لینا۔‘

لطیف کھوسہ جب روسٹرم سے آ رہے تھے تو کمرہ عدالت میں موجود پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وکلا فکس بینچ نامنظور اور شیم شیم کے نعرے لگانا شروع ہو گئے۔ سکیورٹی اہلکاروں نے وکلا سے کہا کہ وہ جو بھی کرنا چاہتے ہیں باہر جا کر کریں، یہاں کمرہ عدالت میں وہ ایسا کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔

مصنف کے بارے میں