مجھے ہے حکمِ اذاں لا الہ الا اللہ

مجھے ہے حکمِ اذاں لا الہ الا اللہ

قرآن پاک کی دی گئی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دنیا کسی غرض و مقصد کے تحت ہے، سورہ بقرہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ۔ اے انسانوں اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور تم سے پہلوں کو بھی خلق کیا ہے شاید کہ تم اسی طرح متقی اور پرہیزگار ہو جاو¿۔ اس دنیا میں انسان کا قیام اس قدر مختصر ہے کہ اسے ادراک ہی نہیں ہو پاتا اور یہ سفر اپنے اختتام کو جا پہنچتا ہے، پھر ساری عمر گزارنے کے بعد جب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ تمام عمر جن چیزوں کے پیچھے بھاگتے گزار دی ان کی تو کوئی اہمیت ہی نا تھی۔ اس اٹل حقیقت کو کسی صورت بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ نا تو انسان اس فانی دنیا میں اپنی مرضی سے آتے ہیں اور نا ہی اس جہان سے دوسرے جہان جانے کا فیصلہ انسان کی منشا پر ہوتا ہے۔ اس تمام حقیقت سے با خبر ہونے کے باوجود ہم ہر وقت اس فانی دنیا میں اپنی نا ختم ہونے والی خواہشات کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ ایک خواب اگر اپنی تکمیل کو پہنچتا ہے تو اگلی منزل کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ دنیا کی زندگانی تو محض کھیل تماشا ہے، البتہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے۔ اس دنیا میں ایک غیر معمولی کشش موجود ہے اس لیے اولادِ آدم اس میں پوری طرح غرق اور مدہوش ہے۔ کرونا، لمپی پاکس اور سیلاب کے بعد رونما ہونے والی تبدیلیاں کیا اس بات کا ثبوت نہیں کہ جس دنیا کی محبت میں ہم مبتلا ہیں یہ دنیا فانیاور آخرت کو بقائے دوام حاصل ہے۔ ہمیں یاد ہی نہیں ہے کہ اولادِ آدم کو کس مقصد کے حصول کے لیے روئے زمیں پر اتارا گیا تھا، یہ دنیا انسان کا حال ہے اور آخرت اس کا مستقبل ہے۔ حالیہ سیلاب میںشہر کے شہر اور دیہات کے دیہات ڈوب گئے لیکن قوم ہے کہ اب بھی غفلت کی نیند سو رہی 
ہے اور منافع خور جاگ رہے ہیں۔ جبکہ چند لوگ خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار پورے پاکستان کے ڈوبے لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ تقریباً دس لاکھ سے زائد جانور ڈوب گئے، لاکھوں ایکڑ زمین پر لگی فصلیں تباہ ہو گئیں، کئی بلند و بالا عمارتیں اور کچی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں، ایک ہزار سے زائد انسانی جانیں چلی گئیں اور جو بچ گئے وہ زندہ لاشیں بنے بیٹھے ہیں لیکن جو شہر اس آفت سے محفوظ رہے وہاں کاروبار اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چل رہے ہیں، زندگی رواں دواں ہے نا کیمپ لگے نا کسی کےلئے کوئی امداد اکٹھی کی گئی نا ہی کوئی صاحبِ حیثیت لوگ کسی کی مدد کو آگے بڑھے اور یہ قدرتی آفت ایک کے بعد ایک شہر کو اپنی لپیٹ میں لیتی تباہ کرتی رہی۔ اس جدید دور میں بھی بنی آدم یہ سوچنا گوارا نہیں کرتا کہ یہ زلزلے کیوں آتے ہیں، سیلاب اور شدید ترین بارشوں کے پیچھے کون سی پوشیدہ وجوہات ہیں۔ ہم بحیثیت مسلمان اس قدر غافل ہیں کہ یہ سب سوچ کر عذابِ الٰہی سے پناہ نہیں مانگ رہے، جبکہ جو شہر آباد ہیں وہ اپنی ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں اور جو متاثر ہیں ان کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ بے شک اس دنیائے فانی میں ہر چیز کو زوال حاصل ہے۔ یہ جوانی، طاقت، مال، اثر و رسوخ، اختیارات و مراعات ہر چیز اپنی مدت پوری کرنے کے بعد زوال پذیر ہونے والی ہے۔ بقول اقبالؒ
عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: تو دنیا میں اس طرح زندگی گزارو جس طرح کوئی اجنبی ہو یا مسافرہو۔۔ بلاشبہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ یہاں بامراد اور خوش بخت انسان وہی ہے جو اپنے رب کی اطاعت اور رسول اللہﷺ کے احکامات کی پیروی کرتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اور یہ دنیا کی زندگی تو سوائے فریب کے کچھ بھی نہیں۔ جب زندگی اس قدر غیر یقینی ہو تو ہم کیسے یہاں اتنا مال و دولت اکٹھا کر سکتے ہیں۔ اس فانی دنیا کی محبت میں شرعی قواعد و ضوابط کے بغیر مبتلا ہو جانا دین کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک دنیاوی ڈگری ہولڈر کا بیان پڑھنے کو ملا کہ یہ حالیہ آفتیں کوئی عذابِ خداوندی نہیں بلکہ صرف اور صرف مس مینجمنٹ ہے۔ ڈیمز نا بنانے کی کوتاہی تو ہو سکتی ہے کہ ڈیم کم بنائے گئے، لیکن ایسی تعلیم اور شعور کا کیا فائدہ جس کے بعد بھی انسان دین اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کو سمجھ نا سکے۔ چین، امریکہ، یورپ کے لوگ تو دنیا کی محبت میں مس مینجمنٹ نہیں کرتے تو وہاں سیلاب کیوں آتے ہیں؟؟ انکے ڈیمز کیوں ٹوٹتے ہیں؟؟ وہاں آتشزدگی کیوں ہوتی ہے؟؟ دنیا کے ان مہذب ممالک میں پھر زلزلے کیوں آتے ہیں؟؟ ایسی فتنہ پھیلانے والی تعلیم اور تعلیم یافتہ لوگوں کی سوچ ہی ہمیں تباہی اور نوجوان نسل کو گمراہی کی راہ پر لے جانے میں بنیادی کردار ادا کر رہی ہے۔
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ¿ تکبیر بھی فتنہ
یہ وقت بھی یقینا گزر جائےگا، سیلاب کی تباہ کاریاں اپنی نشانیاں چھوڑ جائیں گی۔ صوبوں کی لڑائی اور سیاسی تقسیم نئے الیکشن کے ساتھ چلی جائے گی لیکن نوجوان نسل کو ہم کیا یادیں دےکر جائیں گے، یہاں سوال یہ ہے کہ کیا صوبائی تعصب کو بڑھاوا دینے والے محب وطن کہلائیں گے یا غدارِ وطن۔ تمام تر وسیلوں پر قابض لوگ غریبوں کو بتاتے پھر رہے ہیں کہ بھوک، بدحالی اور سیلاب خدا کی طرف سے آزمائش ہے۔ پورا ملک ڈوبا ہوا ہے کچھ سیلاب میں جبکہ کچھ تکبر، انا اور بے حسی میں غرض نفسا نفسی کا اِک عالم برپا ہے۔

مصنف کے بارے میں