جمہوریت…

جمہوریت…

دوستو،باباجی نے پیشگوئی کی ہے کہ ملک میں رواں سال بھی جمہوریت ہی رہنی ہے۔۔ساتھ ہی انہوں نے جمہوریت کو منہ بھربھر کر سنابھی دی۔۔ ہم نے بھی جب ان کی باتیں سنیں تو اتفاق کئے بغیر نہ رہ سکے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ ساری باتیں جمہوریت کے خلاف سازش ہیں۔۔باباجی دانت بھینچ کر فرمارہے تھے۔۔پہلے لوگ کنویں کا میلاکچیلا پانی پی کر بھی سوسال سے زیادہ جیا کرتے تھے، اب یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں ’’آر او‘‘ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا خالص و شفاف پانی پی کر بھی چالیس سال کی عمر میں بوڑھے ہورہے ہیں۔۔ پہلے کے تیل میں کھاکربڑھاپے میں محنت ہوجاتی تھی اب ڈبل ، ٹرپل فلٹر تیل، اولیوآئل، کولیسٹرول فری اور پتہ نہیں کیاکیاقسم کے تیل کھاکر بھی جوانی میں ہانپ رہے ہوتے ہیں، یہ کیسی جمہوریت ہے؟؟؟ پہلے کوئی ڈلی والا نمک کھا کر بھی بیمار نہیں ہوتا تھا،اب جب کہ جمہوریت ہے تو آیوڈین والا نمک کھاکربھی لوبلڈپریشر اور ہائی بلڈپریشر کے ہزاروں مریض گھوم رہے ہیں۔۔پہلے نیم،ببول،کوئلے،نمک سے دانت چمکاتے تھے اور بڑھاپے تک اصلی دانتوں کے ساتھ خوراکیں کھاتے تھے، اب جمہوریت ہے تو ہر فلیور،ہرنسل،ہرطرح کا ٹوتھ پیسٹ جس پر دنیا کے سارے دندان سازوں کا اتفاق بھی ہوتا ہے، لیکن دانت ٹوتھ پیسٹ سے اتفاق نہیں کرتے،اور ان کا آپس کا اتفاق ایک ایک کرکے ختم ہوجاتا ہے۔۔پہلے نبض پکڑتے ہی کسی بھی بیماری کو پکڑ لیا جاتا تھا، اب جمہوریت ہے تو ہرطرح کی جدید مشینری کے باوجود مرض پکڑائی نہیں دیتا۔۔پہلے آٹھ، دس بچے پیدا کرنے والی مائیں بھی اسی نوے سال کی عمرتک اپنے کھیتوں میں کام کرتی تھیں، اب جمہوریت ہے تو پہلے مہینے سے ڈاکٹرز کی آبزرویشن میں ہونے، گھر کے کسی کام کو ہاتھ نہ لگانے والی نازک خواتین کے بچے پھر آپریشن سے ہورہے ہیں، کیا اسی دن کے لئے جمہوریت کو برداشت کیا تھا؟؟؟
تاریخ سے ہم نے یہی سبق سیکھا ہے کہ تاریخ سے ہم نے کچھ نہیں سیکھا،یہی وجہ ہے کہ ہمیں تاریخ بننے میں وقت نہیں لگتا۔۔تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ دل چسپ انکشاف سامنے آتا ہے کہ جب سلطنتیں اور کلچر ارتقا کی منازل طے کرتے ہیں تو ان کے جلو میں خوبصورت عورتوں کا رول ضرور ہوتاہے۔۔ہمارے معاشرے کی معاشرت کچھ ایسی ہے کہ یہاں عورت کو’’ کھلنے‘‘ ہی نہیں دیا جاتا۔ یہاں لفظ ’’کْھلنا‘‘ہر اْس معنی میں استعمال کیا گیا ہے جوپڑھنے والے کے ذہن میں آسکتا ہے۔ ہمارے ہاںکے حضرات ،عورت کے کھلنے سے قبل لفظ ’’عورت‘‘ کو ہی ایسا ’’کْھول ‘‘ کے رکھ دیتے ہیں کہ تمام مائیں اپنے بیٹوں ، خاوندوں یا کسی دیگر مرد کی دخل اندازی کے بغیر ہی بچی کی ابتدائی تربیت میں ہزار ہا قدغنیں لگا دیتی ہیں۔۔۔ ’’تم نے زیادہ کھلکھلا کر ہنسنا نہیں، اپنے ستواں بدن کو یوں چھپا کر رکھنا ہے ۔۔ زیادہ فری نہیں ہونا۔مردوں سے پرے رہنا ہے۔۔تمہیں اْٹھنا کیسے ہے اور بیٹھنا کیسے ہے۔۔تم نے مرد کی عزت کرنی ہے۔۔عورت کمزور ہوتی ہے۔۔۔ مرد عورت پر حکمرانی کیلئے ہوتا ہے۔۔ وغیرہ،وغیرہ‘‘ ۔۔ہمارے معاشرے میں عورت یعنی ’’مستور‘‘ جس کا صیغہ جمع ’’مستورات‘‘ ہے ،اپنے تمام معنی اور مفہوم میں ’’ڈھکی چھپی‘‘ چیز ہے اس لئے خبردار اس کو کْھولنے اورکْھلا چھوڑنے کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اس دنیا میں عورت کے ’’کھْلنے‘‘ ، ’’کْھولنے ‘‘ یا ’’کھیلنے‘‘ یا ’’کْھلاچھوڑے جانے‘‘ سے انہیں شدید چِڑہے۔ نچلے طبقے کی اکثر عورتیں نہ صرف ’’کھلی ‘‘ ہوتی ہیں بلکہ ’’کھلی ڈھلی ‘‘ ہوتی ہیں۔ وہ واقعی مردوں کے شانہ بشانہ محنت مزدوری بھی کرتی ہیں اور اپنے عورت پن کو کیش بھی نہیں کراتیں۔۔
ایک دفعہ ایک دیہاتی نے لاٹری میں ایک فلم کا ٹکٹ جیتا۔ فلم دیکھنے کے بعد اس نے اپنے دوست کو وہ فلم دکھانے کی دعوت دی۔ فلم کے دوران ایک سین میں جب ویلن ہیرو کے گھر کی طرف جا رہا تھا تو دیہاتی نے اپنے دوست سے کہا کہ میں تم سے ہزار روپے کی شرط لگاتا ہوں کہ ویلن ہیرو کے گھر کے دروازے سے واپس چلا جائے گا۔ اس کے دوست نے کہا کہ تم یہ فلم پہلے دیکھ چکے ہو، یقینا ایسا ہی ہو گا۔ لیکن دیہاتی کے بار بار ضد کرنے پر اس کے دوست نے اس سے شرط لگا لی۔ سین میں آگے چل کر ویلن ہیرو کے گھر میں دروازہ توڑ کر داخل ہوتا ہے اور اسے ہیرو سے خوب مار بھی پڑتی ہے۔ اس پر وہ دیہاتی مایوس ہو کر اپنے دوست سے کہتا ہے کہ میں نے تو سوچا تھا کہ ایک دفعہ پٹنے کے بعد ویلن دوبارہ ایسی حرکت نہیں کرے گا۔۔اسی طرح ہم نے بھی سوچا تھا، اچھے دن آئے ہیں کے بعد کوئی نیا ’’منجن‘‘ سامنے نہیں آئے گا، ای تاں فیر مراثی آر ای چھڈن لگ جیا جے۔۔شوہرنے جب دیکھا کہ زوجہ محترمہ اس کا موبائل چیک کررہی ہے تو آگ بگولا ہوکربولا۔۔تمہیں پتہ ہے شوہر کا چوری چھپے موبائل دیکھنا ، آرٹیکل 62 اور 63 کے زمرے میں آتا ہے، بادی النظر تم صادق اور امین نہیں رہیں۔۔اس پر بیگم تلملا کر بولی۔۔ جی جی بجا فرمایا،اور بیوی کے ہوتے ہوئے کسی شگفتہ نامی چڑیل کو میسیج کر کے، جان جان، کہنا،اس کی تعریف کرنا بھی تو بیوی سے غداری کے زمرے میں آتا ھے جس پر آرٹیکل 6 لگتا ہے۔۔قانونی جواب ملنے پر شوہر ابھی تک بیگم سے این آر او  لینے کے لیے ترلے منتیں کر رہا ہے۔۔
ہمارے ٹیچرکہاکرتے تھے کہ انگریزی اور پنجابی کا ’’دا‘‘ جہاں موقع ملے لگادیا کرو۔۔ سیانے کہتے ہیں کہ اس معاشرے میں اب تک شریف صرف وہی ہے جسے کرپشن کا ’’موقع‘‘ نہیں ملا۔۔ لیکن ہمیں اس سے اختلاف ہے ، ہم ایسے درجنوں لوگوں کو جانتے ہیں جنہیں ہر طرح کے مواقع دستیاب تھے لیکن انہیں ’’خوف خدا‘‘ تھا اس لئے سچائی، ایمانداری اور دیانت داری کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔۔ ورنہ اکثریت کا تو اس مولوی صاحب والا حال ہے کہ جن کا پورا دن بہت روکھا سوکھا گزرا تھا۔۔ مغرب کے بعد گھر آئے تو بیوی نے کھانا لا کر رکھا، مرغی کا سالن۔ پوچھا یہ کہاں سے آئی؟جواب ملا، کہیں سے چگتی چگتی ہمارے گھر آ گئی تھی۔ کمبخت نے میرے بہت سے پودے خراب کر دیے۔ میں نے بھی غصے میں چھری پھیر دی۔۔۔مولوی بولے، نیک بخت یہ تو حرام ہے۔ پھینکو اسے۔۔بیوی بولی، اے ہئے مصالحہ اور گھی تو ہمارا ہے۔ ایسے کیسے پھینک دوں۔۔مولوی صاحب فرمانے لگے۔۔اچھا شوربہ شوربہ دے دو۔۔شوربہ نکالنے میں ایک ٹانگ پھسل کر مولوی صاحب کی پلیٹ میں آ گئی۔ بیوی نے واپس نکالنی چاہی تو مولوی صاحب بولے اوہو اب ایسی بھی کیا بات ہے۔ جو بوٹی خود آتی ہے اسے آنے دو۔ نکالو مت۔۔بیوی بولی، مرغی بھی تو خود آئی تھی۔۔مولوی صاحب کچھ دیر سوچ میں ڈوبے رہے،آخر کارفتویٰ جاری کرتے ہوئے کہا۔۔ خود آئی تھی تو ٹھیک ہے۔ چوری تو نہیں کی نا۔ آؤ تم بھی کھاؤ۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔پتہ ہے ماچس آج بھی سستی کیوں ہے؟ اس لئے کہ آگ لگانے والوں کی قیمت کبھی نہیں بڑھتی۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

مصنف کے بارے میں