ایک زرداری سب پہ بھاری۔۔۔

ایک زرداری سب پہ بھاری۔۔۔

اس ملک کی سیاسی تاریخ میں کچھ ایسے بھی سیاستدان آئے ہیں جن کا کردار امر بیل کی طرح کا ہے۔ یاد رہے کہ امر بیل جس درخت یا پودے پر اُگتی ہے تو رفتہ رفتہ اُسے زندگی سے محروم کر دیتی ہے۔ ایسے سیاستدان بلا کے شاطر چرب زبان اور بے رحم ہوتے ہیں۔ ایسے سیاستدانوں کا سیاست میں اپنا کردار کچھ نہیں ہوتا لیکن حادثاتی یا وراثتی طریقے سے اقتدار یا پارٹی کی اعلیٰ پوزیشن پر آ جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ حاصل کرنے کے لیے ان کے اردگرد کچھ نورتن بھی ہوتے ہیں جو ہر وقت ان کے نام کی ڈھولکی بجاتے رہتے ہیں اور میڈیا و دیگر پلیٹ فارمز پر ان کو پارٹی قیادت اور وزیر اعظم سے بھی افضل قرار دینے میں جت جاتے ہیں۔
امر بیل وصف کے حامل کچھ سیاستدان بھی ہیں جو جس پارٹی کے ساتھ جڑ جاتے ہیں یا ان سے کوئی استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ان کا انجام بھی ناکامی اور بربادی ہوتا ہے۔ اس وصف کے حامل سیاستدانوں میں سب سے آگے آصف علی زرداری ہیں وہ جس جماعت کے ساتھ بھی جڑے اسے لے کر بیٹھ گئے۔ دوسرے نمبر پر مریم نواز ہیں ان پر پھر کبھی قلم اٹھاؤں گا۔ گو کہ ایسے لیڈران کی چالوں کا وقتی فائدہ ضرور ہوا لیکن بقول شخصے آخر میں ان کی ’’آتما رل گئی‘‘۔ آصف زرداری نے بی بی بے نظیر شہید کے بعد پارٹی کی باگیں اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ کیونکہ زرداری صاحب ایک شاطر انسان ہیں اس لیے انہوں نے بی بی کی شہادت کے بعد ایک وصیت کے ذریعے پارٹی اپنے بیٹے بلاول زرداری کو منتقل کی اور خود اس کے نگران مقرر ہو گئے۔ بلاول چیئرمین اور آصف زرداری شریک چیئرمین بن گئے اور عوامی پذیرائی کے لیے انکے نام کے آگے بھٹو کا اضافہ بھی کر دیا گیا۔ لیکن عملاً سب اختیارات اور فیصلہ کرنے کی طاقت آصف زرداری کے پاس ہی رہی۔ بلاول اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور بی بی شہید کے بیٹے ہونے کے ناتے اور کی گئی تربیت کے مطابق صاف ستھری سیاست کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے والد آصف علی زرداری کا سیاست کرنے کا رنگ ہی نرالا تھا جس میں سازش کرنا پیش پیش تھا۔ پہلے تو بلاول نے مزاحمت کی اور احتجاجاً ملک سے باہر بھی چلے گئے۔ لیکن جب پارٹی کی سی ای سی نے آصف زرداری کے طریقہ سیاست کی حمایت کی اور خاندان کے بڑوں نے بھی ان کو سمجھایا کہ پاکستانی سیاست داؤ پیچ، سازشوں اور مخالفین کو نیچا دکھائے بغیر نہیں پنپ سکتی تو بلاول بھی رفتہ رفتہ اسے رو میں بہہ گئے۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کو حکومت بھی ملی لیکن زرداری اس کو سنبھال نہ سکے نتیجتاً وہ جماعت جو چاروں صوبوں کی زنجیر تھی زرداری سٹائل سیاست کی بدولت سندھ کے چند اضلاع تک محدود ہو گئی۔ آصف زرداری نے اپنی سیاسی شطرنج کا دائرہ پھیلایا اور سیاست میں ان کی ازلی دشمن مسلم لیگ بھی ان کے ساتھ آن کھڑی 
ہوئی اور پی ڈی ایم بن گئی گو کہ بعد میں انکی کچھ ’’حرکات‘‘ کی وجہ سے انہیں پی ڈی ایم سے چلتا کر دیا گیا۔ شاطرانہ طبیعت کے باعث آصف زرداری اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بن گئے اور حسب ضرورت اپنی خدمات پیش کرتے رہے جن میں بلوچستان کی حکومت کا تختہ الٹنا، چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد، یوسف رضا گیلانی کا اسلام آباد سے اقلیت کے باوجود سینیٹر منتخب ہونا۔ لیکن جب آصف زرداری نے چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کو آنکھیں دکھاتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کو اسٹیبلشمنٹ کے امیدوار صادق سنجرانی کے مقابلے میں بطور چیئرمین نامزد کیا تو اکثریت کے باوجود وہ اس میچ میں پریزائڈنگ آفیسر کے فیصلے کا شکار ہو کر باہر ہو گئے۔ گو کہ انہوں نے ریویو کی اپیل کی ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے ہونے کے باوجود ابھی تک اس پر فیصلہ نہیں ہو سکا۔
پھر ایسا ہو کہ اسٹیبلشمنٹ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان سے ناراض ہو گئی اور ہمیشہ کی طرح عمران خان کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کرنے کے لیے آصف زرداری کو چنا۔ اطلاعات کے مطابق نوٹوں اور ڈالروں کے بورے کھول دیے گئے۔ آصف زرداری کے انسانوں کے ضمیر کی خرید و فروخت کا ہنر کام آیا اور پہلی واردات انہوں نے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر منتخب ہونے والوں 20 اراکین قومی اسمبلی پر ڈالی اور بقول میڈیا کے ایک ایک رکن کو ضمیر بیچنے کے 25 کروڑ روپے دیے گئے۔ اس کے بعد زرداری نے نواز شریف، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان کو یقین دلایا کہ پی ٹی آئی کے تمام اتحادی عمران خان کی مرکزی حکومت کا ساتھ چھوڑنے کو تیار ہیں۔ یہ سب کچھ ان کے لیے حیران کن ہونے کے علاوہ پریشان کن بھی تھا۔ اطلاعات کے مطابق زرداری کے مشورے پر اسٹیبلشمنٹ کے چند سینئر اراکین نے لندن میں نواز شریف سے ملاقات بھی کی اور زرداری فارمولے کی یقین دہانی کرائی جس سے نواز شریف کی تسلی ہو گئی۔ نواز شریف کو بتایا گیا کہ قانون سازی کے ذریعے ان کی سزائیں ختم اور واپسی یقینی بنائی جائے گی اس لیے وہ بھی انکار نہ کر سکے اور زرداری اسٹیبلمنٹ کی چال کا شکار بن گئے۔ آصف زرداری نے شاطرانہ چال چلتے ہوئے شہباز شرہف کو باور کرا دیا کہ اگلے وزیراعظم وہی ہوں گے جس پر وہ بھی تن من دھن سے اسٹیبلشمنٹ کی ویگن کے جنگلے سے لٹک گئے۔ جس کے بعد اتحادی ایک ایک کر کے مرکزی حکومت سے علیحدہ ہو گئے اور بالآخر عدم اعتماد کامیاب ہو گئی اور شہباز شریف کی وزیر اعظم بننے کی دیرینہ خواہش بھی پوری ہو گئی جو بڑے بھائی کی سسٹم میں موجودگی میں نا ممکن تھی۔ اسٹیبلشمنٹ اور ’’اداروں‘‘ نے بھی زرداری فارمولے کی بھرپور حمایت کی اور بالآخر عمران خان حکومت کوچلتا کیا گیا اور شہباز شریف حکومت وجود میں آئی۔ اسٹیبلشمنٹ نے نئی حکومت کو ملک میں اقتصادی حالات درست کرنے، مہنگائی کنٹرول کرنے، دوست ممالک سے رعایتوں اور آئی ایم ایف سے بروقت قرض کے حصول جیسے ٹارگٹس دیے۔ لیکن شہباز حکومت یہ اہداف تو حاصل کیا کرتی اس کی ترجیحات نے ملک کو دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا دیا۔ دوست ممالک سے امداد کیا ملتی آئی ایم ایف نے بھی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے طے شدہ قرض دینے سے لیت و لعل سے کام لینا شروع کر دیا۔ جبکہ حکومت نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط مان کر ملک کو مہنگائی کی دلدل میں پھینک دیا گیا۔ ڈالر 250 کا ہو گیا پٹرولیم مصنوعات میں شرمناک اضافے اور تاریخی مہنگائی کی وجہ سے عوام بھی نئی حکومت سے مایوس ہوتے چلے گئے۔ اور تو نواز شریف کی واپسی کے لیے قانون سازی بھی نہ ہو سکی جس پر مریم نواز بھی برہم ہو گئیں۔ اسی دوران وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب آ گیا اور زرداری فارمولے کے تحت پی ٹی آئی کے 25 اراکین پنجاب اسمبلی کو خریدا گیا اور ان لوٹوں کی مدد سے حمزہ شہباز وقتی طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے۔ ان 25 ووٹوں کو چیلنج کیا گیا اور الیکشن کمیشن نے ان کی پنجاب اسمبلی کی رکنیت فارغ کر دی۔ ضمنی انتخابات میں عوام نے شہباز کی متحدہ حکومت کو مسترد کیا اور تخت لاہور بھی گنوایا۔ ان 25 میں سے 20 عام نشستوں کے انتخاب میں 16 پی ٹی آئی کے حصے میں آئیں اور حمزہ شہباز ایک بار پھر اسمبلی میں اکثریت کھو بیٹھے۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا میدان ایک بار پھر سجا۔شاطر زرداری یہاں بھی باز نہ آئے اور چودھری شجاعت کو نجانے کیا گھول کر پلایا کہ انہوں نے اپنے خاندان اور چچا زاد بھائی کو چھوڑ کر ق لیگ کے دس ممبران حمزہ شہباز کی گود میں ڈال دیا۔ اس حرکت کو بھی سپریم کورٹ نے غلط قرار دے کر پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ قرار دے دیا۔ زرداری کی کرامات سے چودھری خاندان تقسیم ہو گیا۔ اور چودھری شجاعت کو پارٹی صدارت سے ہی فارغ کر دیا گیا۔ دوسری طرف شہباز شریف اور نواز شریف کے تعلقات میں بھی دراڑ آ گئی اور پہلی بار بڑے بھائی کو احساس ہوا کہ آصف زرداری نے محض شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ اور حمزہ کی وزارت اعلیٰ کے لیے پارٹی کی ساکھ کو داؤ پر لگایا گیا۔ اب اگر ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر واپس جاتے ہیں تو کون یقین کرے گا۔ یہی حال مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز کا ہے کیونکہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ بظاہر آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کے لیے اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ اور اس منصوبے کا ماسٹر مائنڈ نیرو، آصف زرداری کی شکل میں دبئی میں بیٹھا بانسری بجا رہا ہے اور پی ڈی ایم کا روم جل رہا ہے۔ بے شک ایک زرداری سب پہ بھاری۔
کالم کے بارے میں اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ بھیجیں۔

مصنف کے بارے میں