ڈی سی کی گرفتاری اور سفارشی کلچر

ڈی سی کی گرفتاری اور سفارشی کلچر

انتظامی حوالے سے ڈی سی ایک اہم اور بااختیار عہدہ ہے اِس عہدے پر تعینات آفیسر اگر چاہے تو اختیارات کی بدولت عوامی مسائل حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے اچھے آفیسروں کو حکومتی اور عوامی حلقوںمیں عزت وتکریم ملتی ہے سارے آفیسراگر اچھے نہیں ہوتے تو سارے بُرے بھی نہیں ہوتے لیکن قابلیت و اہلیت اور تجربے کی بنیادپر آگے آنے والے نامساعد حالات میں  ایسے فیصلے کرتے ہیں جن سے نہ صرف اُن کی صلاحیتوں کا پتہ چلتا ہے تجربہ کار آفیسر ہنگامی حالات میں ناخوشگوار صورتحال پیدا نہیں ہونے دیتے منڈی بہائوالدین کے ڈی سی طارق علی بسراکی گرفتاری کیوں ہوئی یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب بہت آسان ہے جب اہلیت کے بجائے سفارشی کلچر پر انحصار کیا جائے تو ایسا ہونا حیران کن نہیں آجکل افسر شاہی انحطاط کا شکار ہے اور زوال کی بڑی وجہ سفارشی کلچر ہے گزشتہ کچھ عرصہ سے اہلیت وصلاحیت کے بجائے کچھ دے دلا کر سفارشی تعیناتیوں کارجحان بڑھ گیا ہے جس سے ایک توتجربہ کار لوگوں کی حق تلفی اور حوصلہ شکنی ہورہی ہے دوسرا یہ کہ اہم عہدوں پر نااہل اور ناتجربہ کار آگے آتے جارہے ہیں ڈی سی کی اپنے ہی ضلع میں گرفتاری اور سزا پنجاب کی تاریخ کا شایدپہلا ایسانوکھا واقعہ ہے کہ ایک ڈی سی کو اپنے ہی ضلع میں نہ صرف سزا سنائی گئی بلکہ گرفتارکرکے جیل بھیجنے کا حکم بھی سنایا گیا پنجاب کی تارخ میں پہلے ایسی کوئی نظیرموجود نہیں ۔
صارف عدالت کے جج کی ذمہ داری صارفین کے حقوق کی نگہبانی ہے لیکن ہر ضلع میں ایک کنزیومر پروٹیکشن کونسل بھی ہوتی ہے جس کا چیئرمین ڈی سی ہوتا ہے پھر کیوں کنزیومر کورٹ کے جج نے کنزیومر پر وٹیکشن کونسل کے چیئرمین کو توہینِ عدالت کی سزا سنائی؟آیاسرکاری رہائش خالی کرانے کا کیس سُننے اور ایسی سزا سنانے کا کنزیومرکورٹ کے جج کو اختیار ہے یا نہیں؟ عدالتی اختیارات پر بات کرنے کے بجائے توہینِ عدالت کا باعث بننے والے واقعہ کا پس منظر جاننا زیادہ اہم ہے محکمہ آبپاشی کے کلرک سے زبردستی رہائش خالی کراناظاہر ہے سفارشی ڈی سی کی کوئی سیاسی مجبوری ہو گی کیونکہ جو تعیناتی کراتے ہیں وہ پھر کام بھی خوب لیتے ہیںمگر کام کرنے والا تجربے اور قابلیت کے بجائے صرف سفارش پر ہی تکیہ کرنے لگے تو کام سنورتے نہیں بگڑتے ہیں ایسا ہی کچھ منڈی بہائوالدین میں ہوا  جج کی طرف سے جاری ہونے والے طلبی کے نوٹسوں کوابتدامیں تو اہمیت ہی نہ دی گئی جب سلسلہ بڑھنے لگا توعدالت کی توقیر کے بجائے تحقیر کرتے ہوئے محبوب نامی کلرک کو ڈی سی کا نمائندہ بنا کر بھیج دیا یہ سراسرطیش دلانے والی حماقت تھی اسی وجہ سے ڈی سی اور اے سی کو توہینِ عدالت میں تین تین ماہ کی سزا سنا کر جیل بھجوانے کا حکم سنایاگیا کلرک اور اے سی امتیاز بیگ تو جیل چلے گئے جبکہ ریسٹ ہائوس کو سب جیل کا درجہ دلواکرڈی سی نے چنددن آرام کر لیا یہ واقعہ سراسر مِس ہینڈلنگ ہے کیونکہ عدالت میں پیش ہونے 
سے قبل ڈپٹی کمشنر نے ایک اور حماقت یہ کی کہ کنزیومر کورٹ کے جج رائو عبدالجبار سے بذریعہ فون کیس سے الگ ہونے کا حاکمانہ لہجے میںمطالبہ کیااب ڈی سی نے عدالتی فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع کر لیاہے ابتدائی سماعت میں ہائیکورٹ نے توہینِ عدالت کی سزا معطل کر دی ہے لیکن توہینِ عدالت کی ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سزا ختم نہیں کرتیں تو اے سی امتیا زبیگ اور ڈی سی طارق علی بسرا دونوں ملازمتوں سے بھی محروم ہو سکتے ہیں یو سف رضا گیلانی کو توہینِ عدالت کے کیس میں ہی ایک دن کی سنائی گئی جس پروہ وزیرِ اعظم کے منصب سے محروم ہوئے سزا کے برقرار رہنے سے دونوں آفیسروں کے بطور بیوروکریٹ مستقبل کا خاتمہ ہو سکتا ہے ۔
طارق علی بسرا کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اُن کے والد مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر کونسلر منتخب ہوتے رہے ہیں طارق علی بسرا وزیراعلیٰ کے دفتر 8  کلب میں بطور ڈپٹی سیکرٹری ،ڈیرہ غازی خاں میں قبائلی علاقوں کے پولیٹیکل اسسٹنٹ اور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پی ایچ اے لاہور کے عہدوں پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں نہ جانے اُن میں ایسی کیا خاص خوبی ہے کہ حکومت نے خصوصی نوازش کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل پی ایچ اے کا چارج بھی تھما دیا ظاہر ہے ایسے اہم اور کلیدی عہدوں پر ایک جونیئر آفیسرکی تعیناتی کسی اہلیت و صلاحیت کے بجائے سفارشی کلچر کی بدولت ہی ممکن ہوئی ایک جونیئر بیوروکریٹ کیونکر سنیئر عہدوں پر تعینات ہوتا رہا اِس میں ٹی کے کا عمل دخل بھی ہو سکتا ہے خیر وہ اب چیف منسٹر کے پرنسپل سیکرٹری نہیں بلکہ نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں مگر ابھی تک تقرریوں و تبادلوں میں اُن کی اہمیت برقرار ہے رائو پرویز اخترجیسے جونیئر شخص کی بطور ڈپٹی کمشنر جہلم تعیناتی بھی طاہر خورشید کی نظرِ عنایت تھی جس نے حماقت کرتے ہوئے چیف آفیسر کنٹونمنٹ بورڈ جہلم کو میٹنگ کے لیے طلب کیا نہ آنے پر سرزنش کرتے ہوئے کارروائی کاتحریری عندیہ دیا جس کے تفصیلی جو اب میں چیف آفیسر نے لکھا کہ میں آپ کے ماتحت نہیں اور آئندہ ایسے حکم نامے جاری کر نے سے قبل کسی سے اپنے اختیارات کا پتہ کر لیا کریں ڈی سی جہلم کی طرح ڈی سی منڈی بہائوالدین کو بھی اختیارات کی خماری ہی لے ڈوبی اگر سفارش کے بجائے اہلیت و صلاحیت اور تجربے کی بنا پر آگے آئے ہوتے تو گرفتاری کی نوبت سے قبل ہی فہم و فراست سے معاملہ حل کر لیتے۔
 سفارش کے ساتھ کچھ عرصہ سے پیسے دیکر بیوروکریٹ اہم تعیناتیاں حاصل کرنے لگے ہیں جس سے نہ صرف بیوروکریسی کے زوال میں تیزی آگئی  ہے بلکہ سیاستدانوں پر بھی اُنگلیاں اُٹھنے لگی ہیں ایک اچھا بیوروکریٹ مصلحت پسندی کی باریکیاں سمجھتا اور غیر ضروری مزاحمت سے گریز کرتا ہے لیکن نااہل اورسفارشی تجربہ نہ ہونے کی بنا پر خود شرمندگی اُٹھانے کے ساتھ ساری بیوروکریسی کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں چیف منسٹر کے آفس 8 کلب میںطارق علی بسرا جب ڈپٹی سیکرٹری تعینات تھے تو اکثر بارسوخ ملنے والوں کو اچھی تعیناتی کے بدلے خوش کرنے کا وعدہ کرتے رہتے تھے  ۔
موجودہ صوبائی حکومت تجربہ کار اوربا صلاحیت کے بجائے ایسے جونیئر آفیسروں کو اہم عہدوں پرلگارہی ہے جو کام کے بجائے خوشامد کے کلچر میں طاق ہوں ممکن ہے اِس کی وجہ یہ ہو کہ جو نیئرکام کرتے ہوئے قواعد وضوابط کو ترجیح دینے کے بجائے تعلق کو اہم سمجھتے ہیں اسی لیے تابعداری میں حدود وقیود سے تجاوز پر آمادہ ہونے کی وجہ سے ہی اعلیٰ انتظامی عہدوں پر 39  ویں اور40ویں کامن کے کئی بدنام آفیسر تعینات ہیں جو اے ڈی سی آر یا اے ڈی سی جی کے عہدوں پر کام کرنے کاکوئی خاص تجربہ نہیں رکھتے دور کیوں جائیں لاہور جیسے صوبائی دارالحکومت میں 39 ویں کامن کے عمر شیر چٹھہ کے پاس ڈپٹی کمشنر کا منصب ہے حالانکہ وہ گریڈ اٹھارہ کے آفیسر ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صوبائی دارالحکومت میں چھان پھٹک سے کوئی تجربہ کار بیوروکریٹ لگایا جاتاجوگریڈ بیس نہیں تو کم از کم اُنیس کا توہوتالیکن ایسا کرنے کے بجائے بچگانہ حرکتوں سے بدنامیاں مول لی جارہی ہیں جب تک تعیناتیوں میں سفارشی کلچر کی حوصلہ شکنی نہیں ہوگی تب تک رائو پرویز اختر اور طارق علی بسرا جیسے لوگ  بیوروکریسی کے لیے شرمندگی کا باعث بنتے رہیں گے ۔