کولوسیم

کولوسیم

میں اور حذیفہ روم کے کولوسیم کو گھوم پھرکردیکھنے، اس کی تصویریں بنانے اور عبارتیں پڑھنے میں اس قدر مگن رہے کہ اس میں داخلے کا وقت ختم ہوگیا۔ اگرچہ خستہ دیواریں، شکستہ زینے ،ٹوٹی پھوٹی محرابیں اورتباہ حال نشستیں باہرسے بھی دکھائی دے رہی تھیں ۔داخل میں پھرتے اور تصویریں بناتے زائرین بھی نظر آرہے تھے،کولوسیم کا دوحصوں میں بٹاہواصحن بھی دکھائی دے رہاتھا لیکن پھربھی ہم اندر جاکر بھی اسے دیکھنے کے خواہش مندتھے جہاں ناظرین کی معاشرتی حیثیتوں کے مطابق ان کے بیٹھنے کا انتظام تھا۔ اندرجاکر ان سفاکانہ مقابلوں کوچشم تخیل سے دیکھاجاسکتاہے، محمودنظامی نے جن کاعجیب و غریب نقشہ کھینچاہے ۔جس میں سیکڑوں گلیڈی ایٹر بھڑکیلی رنگیلی رتھوں پرسوارمنہ زورگھوڑوں کی لگامیںمضبوطی سے ہاتھوں میں تھامے اسلحے سے لیس اپنی سواری کے پہیوں اورگھوڑوں کے سموں سے خاک کا طوفان اڑاتے وہاں پہنچ کر یک لخت رک جایاکرتے تھے۔ دوسری جانب سے بڑے بڑے آہنی پنجرے لائے گئے جن میں وہ مرداور عورتیں بندتھے جومختلف جرائم میں ماخوذہیں یاجن پر عیسائیت قبول کرلینے کا الزام ہے،سامنے کے دروازے سے ایک جلوس برآمدہوتاہے جس میں بھالے،تیر، خنجر ،تلواریں، کلہاڑیاں،ڈھالیں اورگرزہاتھوں میں لیے لوگ اکھاڑے کا چکرکاٹ کر بادشاہ کے سامنے آکر رکتے ہیں اور بہ یک زبان بہ آوازبلندیہ کہتے ہیں کہ قیصر تجھے وہ لوگ سلام کرتے ہیں جو تھوڑی دیر میں تیرے سامنے موت سے ہم آغوش ہونے والے ہیں ۔بادشاہ اشارہ کرتاہے جس کے بعد یہ جلوس اسی راستے پر لوٹ جاتاہے جس سے یہ آیاتھا،عمارت پر سناٹا چھاجاتاہے، پھر پے بہ پے درندوں کو درندوں سے ،انسانوں کو انسانوںسے اور انسانوں کو درندوں سے بھڑایا جاتا ہے۔ انسانی مقابلے میں جب ایک حریف دوسرے کوشکست دے دیتاہے، انعام کے لیے بادشاہ کی جانب بڑھتاہے اور کولوسیم کے کارکن، ہارجانے والے کے تڑپتے ہوئے وجودکو بڑی بے رحمی کے ساتھ 
ایک گرزسے کچل کر اس کی زندگی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیتے ہیں پھرغلام آگے بڑھ کر کچلی ہوئی لاش اور انسانی خون سے آلود ہ جگہ کو صاف کردیتے ہیں اور اب نئے حریف سامنے آتے ہیں۔ ایک حریف دوسرے پر غالب آجاتاہے، مغلوب ہوجانے والارحم کی اپیل کرنے پر مجبورہوجاتاہے اور رحم طلب نگاہوں سے بادشاہ کی جانب دیکھتاہے۔ غالب آنے والا حریف، بادشاہ سے کی گئی اس التجاپررک جاتاہے اور سارامجمع بادشاہ کے فیصلے کا انتظارکرنے لگتاہے ،بے چینی اور بے صبری کے ساتھ۔ بادشاہ، مجمعے کا مزاج دیکھتاہے، مجمع خون ریزی چاہتاہے، یہی اس کی تفریح ہے۔ اگر یہاںمعافی اور ہمدردی کو کام میںلایاجانے لگے تو ہزاروں تماشائیوںکی ’’دل شکنی ‘‘کا اندیشہ ہے۔ بادشاہ کو توبہ ہر حال عوامی مقبولیت کا خیال رکھناہے چنانچہ بادشاہ اپناانگوٹھا زمین کی طرف جھکادیتاہے ۔یہ اشارہ پاتے ہی غالب حریف، کمزورپر جھپٹتاہے اور پے بہ پے وارکرکے اس کی زندگی کا چراغ گل کردیتاہے ۔ کولوسیم خوشی کے نعروں سے گونج اٹھتاہے ،ہر طرف ایک غل برپاہوجاتاہے، کانوں پڑی آوازسنائی نہیں دیتی ،اتنے میں ایک اور مقابلہ ایک اور لاش پھرایک اورمقابلہ اورایک اورلاش، چھ انسانی لاشیں اٹھانے کے بعد جب میدان صاٖ ف کیاجاتاہے توایک بڑاآہنی پنجرہ میدان میں لایا جاتاہے جس میں سے قیدیوں کو کھینچ کر باہر نکالا جاتاہے اور دوسری جانب سے مہیب آہنی دروازے کھلتے ہیں جن میں سے بھوکے شیر برآمد ہو کر قیدیوں پر جھپٹتے ہیں ،قیدیوں کی فلک شگاف چیخیں اوردل ہلادینے والی پکاریں تماشائیوں کے قہقہوں میں دب رہی ہیں۔ درندے، قیدیوں کے انسانی وجودکے پرخچے اڑادیتے ہیں جس کے ہر ہر مرحلے پر تماشائی اپنے نعروں، قہقہوں اورفلک شگاف شورسے درندوں کو داد دیتے ہیں۔
چشم تخیل سے یہ سب کچھ دیکھ کر میرادل ڈوبنے لگتاہے۔ یہ سفاکی ،یہ سنگ دلی کیایہ تفریح تھی یا محض درندگی …انسان کتنا پست ہوسکتاہے، کتنا بے حس ہوسکتاہے، وہ اپنے ہی بنی نوع کواپنی لمحاتی’’ مسرت ‘‘کے لیے یوں درندوں کا نوالہ بنتے دیکھنے کی خواہش رکھتاہے۔ ان کی بے بسی پر تالیاں پیٹ سکتاہے، نعرے لگاسکتاہے، خوشی سے دیوانہ ہوسکتاہے اور پھر یہ لمحاتی’ مسرت‘‘… کیا اسے’’ مسرت‘‘ کہاجاسکتاہے ؟نہیں یہ مسرت نہیں کچھ اور ہے ۔ایسی بے حسی، جس کے سامنے بے حسی کا لفظ شرمندہ ہے …اُف میرا دماغ پھٹنے لگتاہے، سوچتاہوںمیںیہاں کیوں آیاہوں؟ میںنے اس جگہ کو دیکھنے کا فیصلہ کیوں کیا ؟میرا سیروسفرکا شوق، میری ہی تنقیدکا شکار ہو جاتا ہے، میں حذیفہ سے کہتاہوں اچھاہوا داخلے کا وقت ختم ہوگیاورنہ ہم شاید روم میں کچھ اور دیکھنے کے قابل ہی نہ رہتے ۔مجھے ہمیشہ اپنے ساتھ محسوس ہونے والے اقبال کی یاد آتی ہے۔اقبال نے جب یہ کولوسیم دیکھا توانھوںنے اسے دونو تہذیبوں کے موازنے کا ذریعہ بنالیاتھا،چلیے یہ ایک جوازہوسکتاہے، میں خودکو سنبھالنے لگتاہوں۔اقبال نے کولوسیم دیکھنے کے بعد کہاتھا ’’دیکھوایک طرف رومائے قدیم کے سلاطین تھے جنھوں نے ایک عظیم الشان عمارت اس لیے بنائی کہ پچاس ہزار انسان اس میں بیٹھ کر درندوں اور انسانوں کی لڑائی کا تماشا دیکھیں دوسری طرف مثلاً ہمارے لاہور کی بادشاہی مسجدہے جو اس غرض سے تعمیرکی گئی تھی کہ وہاں ایک لاکھ بندگان خدا جمع ہو کر مساوات،اخوت اورمحبت کے سچے اور مخلصانہ جذبات کا مظاہرہ کریں…
میرے اندر ایک خیال جنم لیتاہے کہ میں دنیاکو اس فرق سے آگاہ کروں اور لوگوں سے پوچھوں کہ مجبوربنی نوع کو بے دردی ،سنگ دلی اورسفاکی سے موت کے کنویں میں دھکیلنا تہذیب ہے یاان کے اندربرابری کا احساس پیداکرکے معاشرے کو مساوات آشنا کرنا تہذیب ہے …؟ پروپیگنڈاسیاہ کو سفید کردکھائے تو الگ بات ہے ورنہ اس موازنے میں فیصلہ کرنا اتنا دشوار تو نہیں …
بنی آدم اعضائے یکدیگراند
کہ درآفرینش زیک گوہراند
چوعضوی بدرد آورد روزگار
دگر عضو ہارا نماند قرار
توکز محنت دیگران بی غمی 
نشاید کہ نامت نہند آدمی