موجودہ آفت اور ہمارے ہیروز

 موجودہ آفت اور ہمارے ہیروز

حالیہ بارشوں سے سیلاب اورآنیوالی اندوہناک تباہی پاکستانی قوم کا پہلا امتحان نہیں، یہ قوم ہمیشہ ایسے امتحانوں میں سرخرو ہوئی،ہماری عوام اور ہیروز نے مل جل کر ہمیںآزمائشوں سے نہ صرف نکالا بلکہ دوبارہ اپنے پاوں پر کھڑا کیا ، 75سالہ تاریخ میں ہمیں کئی بار ایسی مشکلات آئیں جن میں سے نکلنا بظاہر ناممکن لگتا تھا ،مگر قوم کے ہر طبقہ فکر سے صاحبان خیر نے بہادری،سخاوت،دریا دلی اور درد مندی سے دکھی انسانیت اور اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے ریسکیو،ریلیف اور ریکوری کیلئے دن رات محنت کی اور ایک بار پھر ملک کو ترقی و خوشحالی کے راستے پر چلانے میں اپنا کردار ادا کیا،ملک ان دنوں بارشوں اور سیلاب سے دوچار ہے جسے ملکی تاریخ کی بد ترین آفت قرار دیا جا رہا ہے۔اس سے قبل ،1950میں زلزلہ نے لاہور کو ہلا کر رکھ دیا تھا جس کے نتیجے میں دریائے راوی بپھر گیاایک لاکھ گھروں کو بہا لے گیادو ہزار نو سو افراد کی بھینٹ لے کر ٹلا۔ 1970 میں مشرقی پاکستان میں سمندری طوفان پانچ لاکھ افراد کی زندگیوں کو نگل گیا،جس کے بعد بد امنی پھیلی اور خانہ جنگی شروع ہو گئی جس کے نتیجے میں نفرت کی آگ بھڑکی اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا،یہ بھی دراصل ایک قدرتی آفت تھی جو سیاسی کوتاہیوں کے باعث آئی اور لاکھوں انسانوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے،یہاں ہمارے حکمرانوں کیلئے بھی ایک سبق ہے،مشرقی پاکستان ہر سال سمندری طوفان کا سامنا کرتا جس میں لاکھوں بے گھر اور ہزاروں جان سے جاتے مگر بنگلہ دیشی حکمرانوں نے منصوبہ بندی سے اس طوفان بلا خیز کے راستے مسدود کر کے اپنے شہریوں اور شہروں کو اس سے بچا لیا ،مگر ہم آج تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور ہر سال سیلاب کی تباہ کاری کا انتظار کرتے ہیں،حالانکہ سیلاب کو تو نہیں روکا جا سکتا مگر اس کی تباہ کاری کو کم کرنا بہت ہی آسان ہے،صرف قدرتی آبی راستوں کو بہتر بنا دیا جائے رکاوٹیں دور کر دی جائیں اورآبی ذخائر بنا دئیے جائیں تو سیلاب کی تباہی کم اور پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔
1974میں ہنزہ میں زلزلہ سے پانچ ہزار افراد لقمہ اجل بنے،2000کی قحط سالی کی وجہ لاکھوں مویشی ہلاک ہوئے،2005کے زلزلہ نے تو تاریخ بدل ڈالی جس کے آثارآج بھی دکھائی پڑتے ہیں،اس زلزلہ میں 73ہزار انسان خاک و خون ہوئے،پل سڑکیں بہہ گئیں بستیوں کی بستیاں اجڑ گئیں،2007میں سمندری طوفان نے بلوچستان سندھ کے ساحلی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لیا،انسان اور مویشی سب بہہ گئے،لاکھوں بے گھر ہو گئے،اسی سال عطاآباد جھیل میں تودے گرنے سے جھیل ٹوٹ گئی اور20ہزار انسانوں کو بہا لے گئی،حالیہ بارشوں میں اب تک سینکڑوں افراد رزق آب ہو چکے ہیں،دس لاکھ مکانات منہدم،70لاکھ گھروں کو جزوی نقصان،مال مویشی بھی لاکھوں کی تعداد میں پانی کی نذر ہوئے،لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں چت ہو گئیں،لاکھوں لوگ پانی کے اندر،سڑکوں ٹیلوں اور اپنے زمین بوس مکانات کے ملبہ پر پڑے ہیں،مگر بہت اچھی بات یہ کہ ماضی و حال کی آفتوں میں پاکستانی قوم نے زندہ اور درد دل رکھنے والی قوم کا ثبوت دیا اور اپنے متاثرہ ہم وطنوں کو فراموش نہیں کیا بلکہ ان کی فوری امداد کیساتھ ان کی مستقل بحالی کیلئے بھی اجتماعی طور پر اقدامات بروئے کار لانے میں درد مندی سے مصروف کار ہے۔اس قدرتی آفت کا مقابلہ تنہا حکومت کے بس میں نہیں تھا،ریاستی اداروں،فلاحی تنظیموں صاحب ثروت حضرات نے بھی حصہ بقدر جثہ ڈالا اور مصیبت زدہ بھائیوں کے مصائب کو کم سے کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مسلح افواج کا اس حوالے سے کردار سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا،تینوں مسلح افواج کے افسر اور جوان مصیبت زدہ بھائیوں کی امداد انہیں دوسرے مقام پر منتقل کرنے میں پیش پیش ہیں،پاک فوج کے افسروں نے اپنی ایک ایک ماہ کی تنخواہ سیلاب متاثرین کے فنڈ میں دی،پاک فوج کے زیر اہتمام سیلاب زدہ علاقوں میں میڈیکل کیمپ اور ریلیف کیمپ لگائے گئے،جہاں کھانے پینے کی اشیا،ٹینٹ،اور ادویہ فراہم کی جا رہی ہیں،شہروں میں امدادی کیمپوں میں سامان اور عطیات اکٹھے کئے جا رہے ہیں،یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت اور بیرونی خطرات سے بچانا ہے مگر اندرونی خطرات کی روک تھام کیلئے بھی فوج نے ہمیشہ درد مندی سے خود کو پیش کیا،نیوی اور فضائیہ کے افسر اور جوان بھی اس سلسلہ میں مشکل مقامات پر جا کر امدادی سرگرمیوں میں مصروف کار ہیں۔
 تحریک انصاف اور عمران خان اس مشکل میں امداد اکٹھی کرنے میں سب سے آگے ہیں ،اس سلسلے میں ہماری قوم خصوصی طور پر بیرون ملک مقیم پاکستانی ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں،ان کی ٹیلی تھون مہم میں صرف ایک روز میں پانچ ارب کے عطیات جمع ہوئے جو ریکارڈ ہے،کسی سیاسی رہنما جو حکومت میں بھی نہ ہو اس پر عطیات کی بارش قوم کے ان پر اعتماد کا ثبوت ہے،یہ امداد ٹائیگر ز کے ذریعے اگر دور دراز مقامات پر بھیجی جائے تو مصیبت زدہ بھائیوں کی بڑی حد تک اشک شوئی ممکن ہے۔
 جماعت اسلامی کی الخدمت فاونڈیشن بھی امدادی سرگرمیوں میںآگے آگے ہے اس کے کارکن دور دراز پسماندہ علاقوں میں دشوار ترین راستوں کو طے کرتے امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں،جماعت اسلامی کی تنظیمی ساخت اس حوالے سے قابل تعریف ہے،مرکز کو مقامی جماعت ضروریات سے آگاہ کرتی ہے جو انہیں فراہم کی جاتی ہیں تو مقامی قیادت جو ہر ایک سے واقف ہوتی ہے وہ اشیا متاثرین میں تقسیم کرتے ہیں ،45کروڑ کے ابتدائی فنڈ سے شروع یہ امدادی مہم اب بھی جاری ہے،اس ضمن میں امیر جماعت اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے،جماعت اسلامی کا اس حوالے سے منفرد ریکارڈ ہے ہر قدرتی آفت کے بعد اس کے کارکن گلی محلوں اور مصیبت زدہ علاقوں میں پھیل جاتے ہیں اور مصیبت زدہ افراد کی مدد فرض جان کر کرتے ہیں۔
ہمارے دوست میجر رشید وڑائچ مرحوم کی بیٹی صوفیہ وڑائچ بھی اپنی تنظیم المرا فاو¿نڈیشن کو لے کر مصیبت زدہ بہن بھائیوں کی امداد کیلئے میدان عمل میں ہیں،انہوں نے راجن پور اورڈی جی خان کے علاقوں میں اس دوران یتیم اور بے آسرا ہو جانے والے بچوں کے لئے دو شیلٹر ہومز بنانے کا اعلان کیا ہے وہ کروڑوں روپے کی امدادی اشیا لے کر متاثرین کو فراہم کرنے کے لئے لاہور سے اپنے شوہر ڈی آئی جی پولیس محبوب للہ کے ہمراہ راجن پور جا رہی ہیں ، جہاں پہلے ہی ہمارے قومی ہیرو خالد عباس ڈار، سندس فاونڈیشن اور لاہورآوٹ ڈور ایڈورٹائزنگ ایسوسی ایشن اس مقصد کے لئے صبح شام ایک کئے ہوئے ہیں۔
اس صورتحال میں نو شہرہ کی خاتون ایڈیشنل کمشنر قراة العین وزیر کی محنت اور خدمات کو بھی سلام پیش کرنا چاہتا ہوں یہ ہماری سول سروس کا اصل چہرہ ہیں ،انہوں نے جس بہادری اور دردمندی کےساتھ کام کیا اس سے نوشہرہ جانی نقصان سے بچ گیا ،خدا کرے کہ یہ درد مندی ایثار،اخوت محبت،جذبہ خدمت برقرار رہے اور ہم ایک قوم بن کر اپنا وجود ثابت کریں۔

مصنف کے بارے میں