کیا دائروں کا سفر جاری رہے گا

کیا دائروں کا سفر جاری رہے گا

سیانے کہتے ہیں انسان کتا پال لے لیکن خوش فہمی نہ پالے کہ یہ انسان کو ایسی جگہ مارتی ہے کہ اس کا مارا پانی نہیں مانگتا ۔سیانوں کی یہ بات عمران خان پر فٹ بیٹھتی ہے کہ لانگ مارچ میں خیبر پختون خوا سے پانچ لاکھ ، پنجاب اور سندھ سے چھ لاکھ اور گلگت بلتستان سے ایک لاکھ افراد کا ٹاسک پارٹی عہدیداروں کو دیا تھا ۔ شہرت اور مقبولیت کا اس قدر زعم کہ نہ کسی سے مشاورت اور نہ کسی کو تیاری کے لئے وقت ۔ بس کہہ دیا کہ دو دن بعد لانگ مارچ کرنا ہے ۔ویسے خان صاحب جب تقریر کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ ایک ہی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتالیکن حیرت ہے کہ ربع صدی سے زیادہ جس دیار کی خاک چھانتے رہے ہیں انھیں اس کے تقاضوں کا ہی علم نہیں کہ جب لانگ مارچ ایسے بڑے ایونٹ کئے جاتے ہیںتو اس کے لئے تو مہینہ نہ سہی لیکن ہفتوں پہلے تیاری ضرور کی جاتی ہے جس میں کارکنان کو متحرک کرنا اور ٹرانسپورٹ کا انتظام اور پھر اس سارے کھڑاک کے لئے پیسوں کا بندوبست اور پھر سب سے زیادہ ضروری کہ انتظامیہ سے کس طرح معاملات طے کرنے ہیں لیکن نہیں چونکہ خان صاحب تو عقل کل ہیں اور انھیں عوام میں اپنی بے پناہ مقبولیت کا علم تھا لہٰذا جب مقبولیت اور عوام میں ہر دلعزیزی کا سورج سوا نیزے پر ہو اور اس کی زبردست حرارت سے تمام مخالفین کے وجود بھاپ بن کر عدم کے راستے پر گامزن ہوںتو ایسے میں عمران خان ایسے عظیم رہنما بھلا دوسروں سے مشاورت ایسے حقیر کام کیسے کر سکتے ہیں لیکن کیا کریں کہ قدرت کے قوانین اٹل ہیں اور ان کی نظر میں کوئی لاڈلا نہیں ہے لہٰذا یہ عالم اسباب ہے۔ خان صاحب کو اتنا اندازہ ضرور ہونا چاہئے تھا کہ جب سہارے چھوٹ جاتے ہیں تو پھر انسان کو خود ہاتھ پاؤں ہلانے پڑتے ہیں اور عقل و فہم فراست کے برعکس جو کام کئے جائیں گے ان کا نتیجہ اس طرح لانگ مارچ کی ناکامی کی صورت میں ہی نکلتا ہے ۔ اب آپ لاکھ حکومت کو کوسنے دیتے رہے کہ ان کی بے جا سختیوں اور تشدد کے سبب لانگ مارچ کامیاب نہیں ہو سکا لیکن یہاں اندر کی خبریں باہر آنے میں دیر نہیں لگتی اور پشاورمیں تحریک انصاف کی کور کمیٹی میں خان صاحب نے حکومت کو کچھ نہیں کہا بلکہ اپنی جماعت کے لوگوں کی کلاس لی ہے کہ جو گھروں سے باہر ہی نہیں نکلے ۔
خان صاحب کے لئے اب بھی وقت ہے وہ سوچیں کہ دوسروں کو تو گھروں سے نہ نکلنے پر کوس رہے ہیں لیکن خود ان کا اپنا کیا کردار رہا ہے۔ کیا انھیں لانگ مارچ لاہور سے شروع نہیں کرنا چاہئے تھا ۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں ان کی مقبولیت زیادہ ہے تو پھر تو اور زیادہ ضروری تھا کہ لانگ مارچ کی قیادت لاہور سے کرتے کہ جہاں پر ان کی مقبولیت کم تھی تاکہ ان کی شرکت سے تحریک انصاف کے زیادہ سے زیادہ کارکن شریک ہوتے لیکن پورے پنجاب اور سندھ سے اگر چند درجن سے زیادہ کارکن نہیں نکلے تو عرض ہے کہ خان صاحب کب اپنے گھر سے باہر نکلے ہیں ۔ آپ بھی تو خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت کے انتہائی محفوظ گھر میں ہیں اور گھر سے باہر اٹک کے پل کے پار تو آپ نے اس وقت تک قدم رکھے ہی نہیں جب تک کہ آپ کو سپریم کورٹ کی جانب سے اجازت یا یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ تحفظ کی ضمانت نہیں ملی تو جناب انقلاب ایسے نہیں آتا کہ آپ خود تو اپنا گھر بار چھوڑ کر اہل خانہ کے ساتھ محفوظ پناہ گاہ میں منتقل ہو جائیں اور جب لانگ مارچ میں شرکت کا وقت آئے تو کارکن تو شدید گرمی کے موسم میں تپتی دھوپ میں زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگائیں لیکن قائد انقلاب صوابی تک ہیلی کاپٹرمیں آئیں اور پھر چند لمحے کنٹینر پر کھڑے ہو کر دوبارہ ائر کنڈیشنر کے ٹھنڈے ٹھار ماحول میں چلے جائیں ۔تاریخ میں اس طرح کبھی انقلاب نہیں آتے بلکہ اس طرح کی مشق وقت کا زیاں اور ملک میں انتشار کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی ۔
عمران خان اور ان کو مشورہ دینے والے شاید سبھی عقل سے پیدل ہیں ۔ دوبارہ لانگ مارچ کرنے کے لئے جس طرح حکومت اور اداروں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ پہلے ہم تیاری سے نہیں آئے تھے لیکن اب ہم پوری تیاری سے آئیں گے اور پھر کس طرح کی تیاری سے آنا ہے اس کی کچھ جھلکیاں تو خان صاحب نے یہ بتا کر دے دیں کہ لانگ مارچ میں ان کے لوگ بھی مسلح تھے اور باقی کی فلم خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے چلا دی کہ اب وہ صوبے کی فورسز کے ساتھ پوری تیاری کر کے آئیں گے ۔ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ کیا تحریک انصاف کی پوری قیادت ہوش و حواس کھو بیٹھی ہے ۔ چلیں ایک لمحہ کے لے مان لیتے ہیں کہ آپ کی ان دھمکیوں سے حکومت بھی ڈر گئی اور ادارے بھی مرعوب ہو گئے لیکن کیا آپ اس بات سے بے خبر ہیں کہ جب آپ لانگ مارچ سے پہلے ہی ماردھاڑ کی فلمیں چلانی شروع کر دیں گے تو آپ تقریروں کی صورت جب اس طرح بڑھکیں ماریں گے اس وقت تو یقینا سامنے بیٹھے حاظرین تالیوں کی صورت میں آپ کو زبردست داد دیں گے لیکن کیا اس جنگی ماحول والے لانگ مارچ میں کسی فیملی یا بچوں کی شرکت کا ایک فیصد امکان بھی باقی رہ جاتا ہے ۔اسے بھی چھوڑ دیں پر امن لانگ مارچ میں اگرہزاروں افراد شریک ہوتے ہیں تو احمق سے احمق انسان بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ جب آپ لانگ مارچ سے پہلے ہی لڑائی مار کٹائی والا ماحول بنا دیں گے تو ہزاروں کی جگہ درجنوں افراد بھی شریک ہو جائیں تو غنیمت ہے ۔ اس لئے ہمارا خیال ہے کہ تحریک انصاف موجودہ نظام کو قبول کر چکی ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے مستعفی ارکان کو سپیکر کے سامنے جانے سے منع کیا ہے کہ نہ تصدیق ہو گی اور نہ اسپیکر استعفے قبول کریں گے ۔ اس لئے اب اسے لانگ مارچ یا اسلام آباد میں دھرنے سے کوئی بہت زیادہ دلچسپی نہیں رہی بلکہ اس طرح تحریک انصاف ملک میں بے یقینی کی فضا کو قائم رکھنا چاہتی ہے تاکہ اس سے زیادہ سے ز یادہ معاشی ابتری پھیلے اور موجودہ حکومت ناکامی سے دوچار ہوتی رہے ۔

مصنف کے بارے میں