نیپلز سے بریشیا

نیپلز سے بریشیا

نیپلز یونی ورسٹی سے نکلے تو ہمیں بریشیا کے لیے روانگی کا مرحلہ درپیش تھا۔یونی ورسٹی سے باہر نکل کر ہم نے یونی ورسٹی کے دروازے پر اورینٹل انسٹی ٹیوٹ کی اطالوی زبان میں لگائی گئی تختی کی تصویربنائی ۔اس کے سامنے ایک ٹاوراور اس کے سامنے ایک گلی تھی جس میں دونوجانب بلند وبالاعمارتیں دورتک چلی گئی ہیں۔ یہ گلی شہرکو دوحصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ میں ٹاورکو دیکھ کر رکا، ایسے لگاجیسے اس ٹاورکا یہاں ہونا معنی سے خالی نہیں۔ میںنے اپنے ساتھ آئے ہوئے پروفیسرصاحب سے اس مینارکی بابت دریافت کیاکہ یونی ورسٹی کے سامنے اس مینارکی معنویت اور اس کا پس منظرکیا ہے اور یہ کب تعمیرکیاگیا؟اس پرانھوںنے فرمایاکہ یہ ایک Monoment ہے اور بس۔ اس مختصر جواب پر مجھے سکندریہ میں اپنا گائیڈ یادآیا۔میںنے جب اس سے سکندریہ کے مشہور سٹینلے برج کی وجہ تسمیہ ،مسٹر سٹینلے کی بابت سوال کیا کہ سٹینلے کون تھا؟توا س پر اس کا جواب تھاکہ ’’ کان رجل‘‘ یعنی وہ ایک آدمی تھا۔ پروفیسر صاحب کے اس گائیڈ جیسے ’’جامع‘‘ جواب سے میرااطمینان کیاہوتا،میںنے بعد میں خود اس کی تحقیق کی تو معلوم ہواکہ یہ مینار سولھویں صدی کی تعمیرہے جسے اس زمانے میں پھیلنے والی طاعون کی وباسے نجات کی یادگارکے طورپر تعمیر کیاگیا۔
یہ مینارجہاں واقع ہے وہ جگہ نیپلزکی قدیم تاریخی گلی کامبداء ہے۔یہ گلی شہرکو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ میںنے اپنے ساتھ کھڑے پروفیسر صاحب سے اس تقسیم کی نسبت سوال کیاتووہ اس کا بھی کوئی سبب نہ بتاسکے ان کا خیال تھاکہ یہ گلی ہے اور بس تاہم یہ تقسیم قدیم و جدید شہرکے درمیان ہے۔ گلی کا منظر پرانے دمشق کی گلیوں جیساتھا۔ میں جن میں گھوم چکاتھااور جہاں قدم قدم پر تاریخ اپنا دامن کھولے کھڑی تھی۔ افسوس کہ اب نہ وہ شام رہا نہ وہ دمشق۔ ظلم کے سفاک ہاتھوں نے سب کچھ اجاڑ کررکھ دیا۔نیپلز میں مجسموں اور یادگاروں کی کمی نہیں ہر مجسمہ کسی نہ کسی تاریخی واقعے سے جڑاہواہے۔ہم کچھ دیرتو اسی کوچہء فارق میں قدم زن رہے۔ یہاں سے روانہ ہوئے توراستے کے ہرمنظر میں قدامت جھلکتی دیکھی۔ قدآدم بلکہ دیوقامت مجسمے، ایسی ایسی عمارتیں جن کا بوجھ انسانی سروںنے اٹھا رکھاہے۔ میںنے ایسے مجسمے اور ایسی عمارتیں روم میں بھی دیکھی تھیں جن میں پوری عمارت کو انسانی سروں پر کھڑا کیاگیاتھا۔ یونان میں بھی قدیم تاریخی یادگارایکروپولس میں ایک ایسی عمارت ہے ،جس پر میں اپنے سفرنامہ یونان میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔ اب نیپلزمیں ایسی عمارتیں دیکھ رہا تھا۔ نیپلزمیں ایک بات خاص طورپر نوٹ کررہاتھا کہ قدامت کے باوصف ہرجانب صفائی کا اہتمام تھا جس نے قدیم وجدید ہر منظرکو خوبصورت بنا دیا تھا۔ صفائی اور پاکیزگی معمولی منظرکو بھی جمیل تربنادیتی ہے ۔کاش’’ الطہورشطرالایمان‘‘ پر ایمان رکھنے والے معاشرے بھی یہ بات سمجھ لیں۔وہ معاشرے ،جن کے دین میں ’’لایقبل اللہ صلوۃ بغیرطہور ‘‘ کی روسے صفائی کے بغیر عبادت بھی قبول نہیں ہوتی ۔
واپسی کے لیے ہم نے جوٹیکسی لی اس کے ڈرائیور کا طلب کردہ کرایہ صبح والے ٹیکسی ڈرائیور سے بہت کم تھا اور اترتے ہوئے اس نے ٹیکس کے نام پر طے شدہ کرائے میں مزیداضافہ بھی نہیں کیاجس سے صبح والے ڈرائیور کی ہوشیاری واضح ہوگئی۔ہمارے میزبانوںنے ہمارے سامان کو کسی درمیانی مقام پر پہنچانے کا پہلے ہی انتظام کردیاتھا اس لیے ہم اپنی قیام گاہ کی پے درپے سیڑھیاں چڑھنے سے بچ گئے اور اس درمیانی مقام سے اپناسامان لے سکے ۔
ریلوے سٹیشن جانے سے پہلے ہم چاہتے تھے کہ نمازظہراداکرلی جائے، مباداریلوے سٹیشن پر ایسی عجلت درپیش ہوکہ فریضے کی ادائیگی ممکن نہ رہے یااس کی ادائیگی میں تاخیر ہو جائے ۔اس مقصد کے لیے ہمارے میزبان ہمیں ایک ایسے ہوٹل پر لے گئے جسے پاکستانی لڑکے چلارہے تھے۔ ان محنت کش لڑکوں سے خوش گوارملاقات ہوئی۔ انھوںنے نہایت ادب و احترام کے ساتھ اپنے ہوٹل کی زیریں منزل میں جائے نماز بچھا دیے اور یوں پسروپدر اپنا فریضہ اداکرسکے۔ جب ہم نے ہوٹل والے لڑکوں سے اجازت چاہی تو انھوں نے محض اجازت دینے کے بجائے اپنی جانب سے اظہار یگانگت کی خاطر ہمارے لیے کھانے کے دوپیکٹ تیارکررکھے تھے۔ہم نے ان سے ایسی کسی ضرورت کا اظہارتک نہیں کیاتھا لیکن وہ کہنے لگے کہ آپ کا سفر لمباہے اس لیے کھانے کی بہ ہر حال ضرورت پیش آئے گی۔ اگر آپ کو دوران ِسفر اپنی منشاکے 
مطابق کھانانہ مل سکاتو مشکل ہوگی ۔اس لیے آپ یہ کھانا ساتھ رکھ لیجیے۔ اگرآپ کے پاس وقت ہوتا تو ہم آپ کو اپنے پاس بٹھا کر کھانا کھلاتے… نیپلز کے استنبول ریسٹورنٹ کے پاکستانی نوجوانوں کا یہ انداز آج بھی یاد ہے۔چونکہ ہماراسفر لمباتھا اس لیے ہم چاہتے تھے کہ جلد سٹیشن پہنچ کر سفرشروع کریں تاکہ بروقت اپنی منزل تک پہنچ سکیں۔ سٹیشن پہنچنے پررومی تہذیب کے جگمگاتے رنگوں کو ویکھتے ہوئے ہم کائونٹرتک جا پہنچے۔ خرم نے بتایاتھا کہ جو ٹرین ساڑھے تین بجے چلتی ہے وہ تین گھنٹے میں بریشیا پہنچادیتی ہے اس کے بعد پھرساڑھے چھ بجے شام تیزرفتارٹرین ملتی ہے۔ اس لیے آپ نیپلز سے بریشیا آنے کے لیے ان دو ٹرینوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کیجیے ۔
کائونٹرپر بیٹھی خاتون نے ہمیں ایک دم ایمرجنسی کا احساس دلایااور کہاکہ گاڑی کچھ ہی دیر میں روانہ ہونے والی ہے، اس کے بعد آپ کو کئی گھنٹے انتظارکرنا پڑے گا۔ اس لیے فوراً بتائیں کہ آپ کا ٹکٹ بنادوں؟ …یہ گفتگوتو بلاشبہ سمجھ میں آنے والی تھی لیکن حقیقت میں جو گاڑی روانہ ہونے والی تھی وہ سب سے مہنگی گاڑی تھی اور اس کے بعد جس گاڑی کا دیرتک انتظارکرنے کا اندیشہ ہمیں بتایاگیاتھا وہ کم کرائے والی گاڑی تھی ۔ ہم اس اطالوی خاتون کی پیداکردہ ہنگامی صورت حال سے متاثرہوگئے ۔ایک ٹکٹ ایک سو چار یورو کاتھا۔ہم دومسافرتھے اس لیے دوٹکٹ دوسو آٹھ یوروکے بن رہے تھے ۔خاتون، فیصلہ کے لیے ہماری جانب فیصلہ کن اندازمیں دیکھ رہی تھی ۔اس کے پیداکردہ دبائو کے باعث ہم نے ہاں کردی اور یوں دوسوآٹھ یوروکے دوٹکٹ لے کر ٹرین پر سوارہوگئے ۔ بریشیا پہنچ کر وہاں کے میزبانوں سے معلوم ہواکہ نیپلزسے بریشیا آنے کے لیے اس سے بہت کم کرائے میں بھی تیز رفتار گاڑیاں آتی ہیں لیکن اس وقت تک ہم کائونٹروالی اس خاتون سے بہت دورآچکے تھے ۔
دوسوآٹھ یوروکے عوض ہم جس ٹرین میں پہنچے وہ ٹرین کیاپورا جہازتھی ۔حذیفہ اور میری سیٹوں کے درمیان کسی بڑے دفترکی طرح شاندار میزیں لگی ہوئی تھیں۔ موبائل چارجنگ کے لیے ساکٹوں کا الگ انتظام تھا۔اپنی میزپرلیپ ٹاپ رکھ کر میںنے ڈائری لکھناشروع کردی ۔ حذیفہ صاحب ٹرین کے ماحول میں آتے ہی اپنے موبائل میں گم ہوگئے۔ مجھے یہ دیکھ کر خیال آتاہے کہ ٹیلی فون سے مصاحبت تو اکیلے کمرے میں بیٹھ کر بھی کی جاسکتی ہے جب آپ بیرونی دنیامیں ہوں تو دنیاکو دیکھنا چاہیے نہ کہ موبائل کواور پھر وہ مصرعے کہ   :چوتنہامی نشینی دل نگہدار/ وگرباخلق باشی مہربان باش/ درآن ساعت نگہدارزبان باش(جب تو تنہاہوتواپنے دل کی حفاظت کر،جب لوگوں کے ساتھ ہوتومہربانی سے پیش آاور اپنی زبان کی حفاظت کر) 
 …باہر کی سمت ہر جانب ہریالی اور صفائی نے خوبصورتی کے جلوے بکھیررکھے تھے کہیں شاپر اڑتے دکھائی نہیں دیے کوئی کوڑے کا ڈھیرنہیں، جیسے کہ سٹیشن سے نکلتے ہی پاکستان اور قاہرہ میں دکھائی دیا کرتے ہیں۔ شہر پر شہر گزرتے رہے۔ میں ڈائری لکھ چکا تو ان شہروں اور ان کے ناموں کو دیکھنے لگا ۔یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اثنائے سفرمیں روم بھی آیا۔ اگرہمیں معلوم ہوتا تو ہم یونان سے روم آکر روم سے نیپلز آنے اور نیپلز سے بریشیا جانے کے بجائے سیدھے نیپلز آتے اور نیپلزسے روم جاتے وہاں سے فلورنس اور پھر بریشیا لیکن اب اگر یہ جغرافیہ سمجھ میں آیاتو کیا فائدہ ہوا۔روم کے بعدجب ہم فلورنس پہنچے تویہاں پہنچ کر میراکاروان ِخیال رک گیا۔

مصنف کے بارے میں