عدم اعتماد۔بس بہت ہو گیا

عدم اعتماد۔بس بہت ہو گیا

عمران خان کے پاس آپشنز ختم ہوتے جا رہے ہیں اور آج قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے بعد ان کے اقتدار کا سورج غروب ہو جائے گا۔ کہتے ہیں کہ ڈوبنے والا تنکے کا سہارا لیتا ہے عمران خان نے وہ بھی کر دیکھا مگر جب برا وقت آتا ہے تو سیدھے کام بھی الٹنے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جانا تو ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ عزت سے جاتے تاکہ دوبارہ بھی اسی عزت کے ساتھ آتے۔ اس وقت وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ ریکارڈ کا حصہ بن رہا ہے۔ عملی طور پر ان کی حکومت ختم ہو چکی ہے اور ٹیپو سلطان بنتے بنتے وہ بہادر شاہ ظفر کے انجام سے دوچار ہو رہے ہیں۔ ان کی حکومت کی عملداری صرف ان کی چار دیواری تک محدود ہے۔ ایک دور کا خاتمہ ہو رہا ہے وہ ایک تاریک دور تھا یا روشن اس کا فیصلہ تو مورخ کرے گا مگر ان کے اس دور کو عوام نے خوب بھگتا ہے۔ وہ اور ان کے نو رتن سب ایک جیسے تھے۔ یہاں جیسی قوم ویسے حکمران کی اصطلاح ٹھیک نہیں لگی بلکہ جیسا حکمران ویسے اس کے حواری۔ رہی سہی کسر اس کے تربیت یافتہ کارکنوں نے پوری کر دی جن کے پاس ہر بات کا جواب گالی اور صرف گالی تھا۔ اس معاشرے کی شکست و ریخت میں وہ اور اس کے نام نہاد دانشور برابر کے ذمہ دار ہیں۔ راتب خوری میں وہ ایسے ایسے فسانے گھڑتے کہ الحفیظ الامان۔ کبھی کہتے کہ عمران خان کی حمائت پر وہ شرمندہ ہیں جب بوٹی اور  شوربہ مل جاتا تو پھر اس کے گن گانا شروع ہو جاتے۔ ہمارے ایک دوست کے بقول ابو جہل کو بھی پتہ تھا کہ وہ تاریخ کے غلط سمت کھڑا ہے مگر اپنے موقف سے ہٹنا اس کی توہین تھا۔
اس ساڑھے تین برس کے دور میں ریاست کو بہت نقصان پہنچ چکا ہے۔ نئے پاکستان کے معماروں نے اس کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا کہ جس ملک کی بنیاد ہی غلط ہو اس کی عمارت کہاں ٹھیک ہو گی۔ اس چکر میں نیا پاکستان تو بنا نہیں پرانے پاکستان کو کھنڈر میں بدل دیا۔ تونسہ اور میانوالی کو لاہور اور اسلام آباد کیا بناتے ان دونوں شہروں کو تونسہ اور میانوالی بنا دیا۔ یہ کریڈٹ ان کو ضرور دیں کہ انہوں نے بڑے اور چھوٹے شہر کا فرق ختم کر دیا۔ ملک کو اس دور سے نکلتے نکلتے وقت لگے گا۔ قرضے نہ لینے والوں کا اعلان کرنے والوں نے گزشتہ حکومتوں کے مجموعی قرضوں سے زائد قرض ان ساڑھے تین سال کے دور میں لیا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے سامنے جھک کر قرضہ لیا اور اسٹیٹ بنک کو اس کے تابع کر دیا۔
صاف چلی شفاف چلی کا نعرہ لگانے والی تحریک انصاف کی حکومت کی کرپشن کی داستانیں بھی زبان زدعام ہیں۔ وہ اقتدار سے ذرا پرے ہٹیں تو پھر علم ہو گا کہ کہاں کہاں کیا لوٹا گیا ہے۔ کچھ لوگ تو فرار ہو چکے ہیں اور باقی بھی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ بس چند دن صبر کر لیں کرپشن کی ایسی ایسی داستانیں سامنے آئیں گی کہ آپ لوگ کانوں کو ہاتھ لگائیں گے۔ جو لوگ اسے لائے تھے وہ بھی ہاتھ کھڑے کر چکے کہ بس بہت ہو گیا، مزید اس ملک کو اس تجربے کی بھینٹ نہیں بڑھایا جا سکتا۔ سیاسی انجینیرنگ کے چکر میں ہمارے سلامتی کے ادارے بدنام ہوئے اور آج تحریک انصاف کے لوگ سوشل میڈیا پر فوج اور جرنیلوں کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ اپوزیشن اور اس کے رہنما بھرے جلسوں میں فوج کی سیاست میں دخل اندازی کی پالیسیوں پر تنقید کرتے تھے مگر فوج کو گالی دینے کا رواج نہیں تھا۔ ان کے نابغے اب فوج کو گالی دے رہے ہیں اور یہ بہت ہی خطرناک رجحان ہے۔ یہ فوج اور عوام کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوشش ہے اور پوری قوت کے ساتھ اس کو سوشل میڈیا پر پروان چڑھایا جا رہا ہے۔  فوج اگر سیاسی عمل سے خود کو دور رکھ رہی ہے تو اس کو سراہنے کی بجائے اس پر تنقید شروع کر دی جائے اور یہ عمل ان کے قائد عمران خان کی تقریروں کے بعد زیادہ شدت سے ہوا۔ تحریک انصاف کے پاس یہ نادر موقع تھا کہ فوج نے خود کو سیاسی عمل سے دور کیا تھا تو وہ اپوزیشن کو ساتھ ملا کر اس مداخلت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی پالیسی بناتے مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا اور وہ مسلسل سلامتی کے اداروں پر یہ زور دیتے رہے کہ بدی کے مقابلے میں فوج نیکی کا ساتھ دے۔ فوج کو تقسیم کرنے کی کوشش بھی کی گئی مگر تمام ادارے اپنی اپنی جگہ قائم رہے۔ ملک کے وزیراعظم کے پاس اتنا وقت اور غیر سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ وہ دو دو گھنٹے تقریر کر کے اپوزیشن کو گالیاں نکالتے اور پھر آخر میں کہتے کہ میرے نوجوانوں اب میں سنجیدہ موضوع کی طرف آتا ہوں۔
ایک ایسے وقت میں جب ان کے پاس وقت ختم ہو رہا ہے تب بھی وہ سلامتی کے اداروں کو آوازیں دے رہے ہیں۔ کل ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں تین آپشنز دیے تھے ان میں ایک عدم اعتماد کا سامنا، دوسرا استعفی اور تیسرا آپشن تھا تحریک عدم اعتماد کی واپسی اور وہ اسمبلیاں توڑ کر جلد انتخابات کا اعلان کر دیں اور ابھی اس انٹرویو پر میڈیا پر بحث جاری تھی کہ ذمہ دار ذرائع نے عمران خان کی ان باتوں کی اس طرح تردید کی کہ یہ تجاویز اسٹیبلشمنٹ نے نہیں دی تھیں بلکہ وزیراعظم نے فوجی قیادت کو وزیراعظم ہاؤس بلا کر کہا تھا کہ اسے اس مشکل سے باہر نکالا جائے۔ ان کی ہر بات جھوٹ ثابت ہوئی۔ان کے حواریوں نے اسے بند گلی میں دھکیل دیا ہے اور جھوٹے خط کا ڈرامہ اس کی سیاست کو آگے بڑھانے کا سبب تو نہیں بنے گا مگر اس کی سیاسی موت کا شاخسانہ ضرور بنے گا۔
آخری کوشش کے طور پر اپوزیشن کی جماعتوں کے خلاف غداری کے مقدمات قائم کر کے ان سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دینے کی کوشش بھی ہوئی۔ شیخ رشید جو اس ملک کے اب تک وزیر داخلہ ہیں وہ یہ مطالبہ کر رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا جا رہا ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ آپ وزیر داخلہ ہیں اگر آپ کے پاس یہ ثبوت ہیں کہ حکومت بدلنے کے لیے بعض سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما ملوث ہیں تو سپریم کورٹ کے پاس کیوں جا رہے ہیں ان کے خلاف مقدمات درج کرتے انہیں گرفتار کرتے اور جیلوں میں ڈالتے۔ خود یہ کام کرنے کی ان میں ہمت نہیں ہو رہی اور وہ اس حوالے سے عدالتوں کا سہارا لینے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی عبوری ضمانتوں کو منسوخ کروانے کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا گیا ہے۔ ان کے نو رتن پوری کوشش کر رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں وہ سکھ کا سانس نہ لے سکیں۔ جب آپ ایک آئینی عمل میں رکاوٹ بن کر انتقامی ہتھکنڈوں کو بروئے کار لائیں گے تو آنے والوں سے خیر کی توقع کیوں کر ہو سکتی ہے۔ شیخ رشید نے ایک بار پھر چار آپشنز کی بات کی ہے جن میں ایک یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مداخلت کرے اور رمضان یا حج کے بعد ملک میں فوری انتخابات کرائے جائیں، دوسرا یہ کہ ان جماعتوں کو کالعدم قرار دیا جائے جنہوں نے غیرملکی طاقتوں سے پیسے لے کر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ تیسرا حل یہی ہے کہ اگر یہ الیکشن نہ کرائیں تو تمام پی ٹی آئی کے لوگ نشستوں سے مستعفی ہو جائیں، میں دیکھتا ہوں یہ ملک کیسے چلاتے ہیں۔ آخری حل یہ ہے کہ میں اداروں سے براہ راست درخواست کرتا ہوں کہ اس ملک کی سلامتی کا سوال پیدا ہو گیا ہے، لڑائی گلی محلے میں چلی گئی ہے، ملک اس کا متحمل نہیں ہے۔غداری کے مقدمات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری وزیر قانون ہیں، وہ بغاوت کے مقدمے کی درخواست بھیجیں تو میں ابھی دستخط کردوں گا۔
ان کی تان ایک ہی جگہ ٹوٹتی ہے مداخلت مداخلت۔ قومی سلامتی کے ادارے ان کی آواز پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے پاس چار آپشن نہیں صرف ایک ہی آپشن بچا ہے اور وہ ہے اسمبلیوں سے استعفی۔ یہ آپشن پہلے بھی استعمال کیا گیا ہے اب وہ یہ بھی کر دیکھیں۔ اور ہاں باعزت آپشن بھی ہے کہ اسمبلی کا اعتماد مجھ پر ختم ہو چکا ہے اس لیے میں خود استعفی دے رہا ہوں اور عوام کے پاس جا رہا ہوں۔ یقین کریں اس سے ان کی عزت میں اضافہ ہوتا اور ان کا یہ عمل جمہوریت کو مضبوط کرنے کا باعث بنتا مگر آخری بال تک کھیلنے کی خواہش اور کوشش سے وہ بے توقیر ہوئے ہیں۔ ان کی کاسہ لیس کرنے والوں کا کچھ نہیں جائے گا کہ وہ منت ترلہ کر کے دوسری جماعتوں میں گھسنے کی کوشش کریں گے لیکن ان  کے سیاسی قد کو کم کرنے کی وہ ہر کوشش کر کے جائیں گے۔ ان نعروں میں وہ یہ بات بھول گئے کہ یہ بائیس کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیموں کا میچ نہیں تھا بلکہ بائیس کروڑ عوام کا ملک ہے۔ یہ سیاست ہے کرکٹ کا میدان نہیں کہ ہر چیز کپتان کے اشارے کے تابع ہو۔

مصنف کے بارے میں