کپتان کی سیاست…

کپتان کی سیاست…

نہیں معلوم کپتان نیا لانگ مارچ کرنے کا رسک لیتے بھی ہیں یا کہ نہیں کیونکہ انکا پہلا مارچ تو بے نتیجہ ہی ختم ہو گیا، بقول شاعر بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا۔ جو چیرا تو اک قطرہ خون نہ نکلا والا معاملہ درپیش تھا،مہینہ بھر کی تیاری سے ایسی فضا بنا رکھی تھی کہ جیسے ان کے داخل ہوتے ہی نئی سرکار باہر کوچ کر جائے گی اور موصوف مسند اقتدار پر پھر سے برا جمان ہوں گے، انکے شوروغوغا کے اثرات وزارت داخلہ پر بھی مرتب ہوئے وزیر داخلہ نے تو اسے دل پر لے لیا اور اسکو روکنے کے لئے بھاری بھر انتظامات کر ڈالے، وفاقی دارالحکومت میں پہنچنے کے راستے حفظ ما تقدم بند کردیئے ،اس سے قبل قائدین اور ورکرز کی پکڑ دھکڑ کا آغاز بھی روایتی انداز میں ہوا جیسا ہر سرکار میں ہوتا ہے، عدلیہ بھی نگاہ رکھے ہوئے تھی ،سرکار کوپکڑ دھکڑ سے منع کیا اور لانگ مارچ کو پارٹی کا جمہوری حق قرار دیا، لانگ مارچ میں زیادہ تر لوگ خیبر پختون خوا سے شریک ہوئے،پنجاب سے بھی چند معدودے لیڈر نکلے مگر غالب اکثریت در پردہ چلی گئی، جنوبی پنجاب اور سندھ سے بہت کم تعداد نے کپتان کی آواز پر لبیک کہا، جب قیادت ہی منظر عام پر نہ ہو تو کارکنان کیسے اس ماحول میں اس کا حصہ بنتے، کپتان نے لانگ مارچ سے قبل بغیر ہوم ورک کئے انتخاب کے اعلان تک دھرنا دینے کا بھی عندیہ دیا تھا، اس لئے بھی ورکرز گومگو کی کیفیت سے دو چار تھے، وہاں قیام کا کیا بندوبست ہو گا، کھانا ،رہنا سونا یہ وہ معاملات تھے جس کے بارے میں قیادت نے کوئی ایس او پی بھی جاری نہیں کئے تھے، ٹرانسپورٹ کے اخراجات ،رہائش کس کے ذمہ تھے یہ سب کچھ اندھیرے میں تھا، محض اعلان کر دینا کافی نہ تھا، اگرچہ پارٹی قائدین نے مقامی سطح پر ورکرز کو تیار رہنے کا حکم تو صادر فرمایا لیکن جب وہ خود ہی شریک نہ ہوئے یا گرفتاری کے ڈر سے چھپ گئے تو پھر ورکرز سے کیا شکوہ یوں ابتدا ہی سے مارچ میں شرکاء تعداد موضوع بحث بن گئی۔
تحریک انصاف کو قائم ہوئے 25 برس سے زائد ہو چکے ہیں لیکن اس کا تنظیمی ڈھانچہ اب بھی بہت کمزور ہے،اس کی لیڈر شپ سماج کی اشرافیہ کے پاس ہے جن کے ہاں تنظیم کا کوئی تصور ہی نہیں ہے،نسل نو جذباتی انداز میں اس پارٹی سے وابستہ ہے، لوکل سطح پر بھی پارٹی یونٹس اگر قائم بھی ہیں وہ برائے نام ہیں، کہا جاتا ہے کہ پارٹی کے مرکزی قائدین کی بھی جرأت نہیں کہ وہ کپتان کی کسی بات 
پر اختلاف کرے جس طرح کسی زمانے میں کراچی کے الطاف بھائی کے سامنے بولنا گناہ سمجھا جاتا تھا جب ٹاپ لیڈر شپ کی اطاعت کا یہ عالم ہو تو پھر عام ورکر کی کیا مجال ہے کہ کسی ایم۔ این۔ اے یا صوبائی ممبر کا احتساب ہی کر سکے، بہت سے ایم این ایز نے معاشی بوجھ نہ اٹھانے کی وجہ سے خود کو اس سرگرمی ہی سے الگ  رکھنے میں عافیت جانی، یہی حال صوبائی قائدین کا بھی تھا۔ 
ناقدین کے مطابق لانگ مارچ میں خیبر پختون خوا سے شرکاء کو صوبائی حکومت کی حمایت حاصل تھی ،سرکاری مشینری کے استعمال کا الزام مرکزی حکومت نے عائد کیا ہے، عدالت عظمی ٰ نے کپتان کو جس جگہ جلسہ کرنے کی ہدایت کی کپتان اس کے برعکس مقام پر کارکنان کو جمع ہونے کا کہتے رہے یوں اس کنفیوژن نے سرکار اور عدلیہ کو پریشان کئے رکھا۔
کپتان کی طرف سے 20لاکھ افراد لانے کا اعلان ایسا ہی تھا جیسے موصوف اقتدار میں آنے سے پہلے کابینہ مختصر رکھنے، وزیر اعظم ہاوس کویونیورسٹی بنانے کا قصد کرتے رہے، بلوچستان کے عوام تو اس سے بالکل لاتعلق رہے نجانے کیوں اس مارچ کو آزادی مارچ کا نام دیا گیا جبکہ ان کو آئینی طور پر اقتدار سے رخصت ہونا پڑا، عدم اعتماد سے پہلے تک وہ بہت پرُ اُمید تھے اسی لئے انھوں اپنے اتحادیوں کو کسی حد تک نظر انداز کئے رکھا جس کا فائدہ انکے مخالفین نے اٹھا لیا، عین وقت پر انھوں نے اپنے یار بھی ناراض کرلئے اس لئے انھیں پنجاب کی حکومت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے، انکی جگہ کوئی اور پارٹی قائدہوتا تو کبھی بھی اس موقع پر اپنے اتحادیوں کو ناراض نہ کرتااور اپنی باقی ماندہ پارلیمانی مدت پوری کرتا۔
ان کے اپنے عہد میں بہت سے ضمنی الیکشن منعقد ہوئے بیشتر میں انکی جماعت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، اگر پارٹی میں کوئی شورائی نظام ہوتا تو کم از کم یہ معاملہ ضرور زیر بحث آتا لیکن آمرانہ مزاج کی حامل لیڈر شپ نے کسی سے باز پرس تک نہ کی۔ جن کو کپتان چور ،ڈاکو کہتے رہے انکی پارٹیاں ہی مذکورہ الیکشن اپنے نام کرتی رہیں۔حتیٰ کہ وہ صوبہ جہاں انکی صوبائی حکومت ہے وہاں بلدیاتی انتخاب میں اُس پارٹی لیڈر کی جماعت کو بھی فتح ملی  جسے وہ برُے القاب سے پکارتے ہیں یہ معاملہ بلوچستان کے حالیہ مقامی انتخاب کا ہے جہاں پی ٹی آئی کے ووٹوں کی شرح سب جماعتوں سے کم ہے، خوش آئند یہ ہے کسی پارٹی نے ان انتخابات پر دھاندلی کا الزام عائد نہیں کیا، اس کا واضح مطلب ہے کہ وہ بیانیہ جسے کپتان اپنی دانست میں درست سمجھتے رہے عوام میں قبولیت حاصل نہ کر سکا۔
لانگ مارچ کے کارکنان کے پاس اسلحہ کی موجودگی جیسے غیر سنجیدہ بیان نے نیا پنڈورہ بکس کھول دیا ہے ، غالب امکان یہ ہے کہ لانگ مارچ  کے خاتمے کے ذاتی فیصلہ کے دفاع میں انھوں نے یہ بھونڈا بیان دیا ہے تاکہ پارٹی قیادت اور کارکنان کو مطمئن کر سکیں، ذرائع کے مطابق انھوں نے بغیر مشاورت کے فیصلہ کر کے کارکنان کو مایوس کیا، بے یارو مدد گار کارکنان اپنا سا منہ لے کر اپنے گھروں کو چلے گئے۔
محض انتخابات کی تاریخ لینا ہی درکار تھی تو یہ کام صوبائی مقامات پر پارٹی عہداران کے ساتھ پریس کانفرنس کے ذریعہ بھی ممکن تھا، لانگ مارچ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے والا ثابت ہوا کیونکہ نہ تو حکمران جماعت نے ان سے کوئی مذاکرت کئے نہ ہی کسی نے انھیں انتخابات کی تاریخ دی،پہلے تو وہ کسی سے ہاتھ ملانے کو بھی برا سمجھتے تھے لیکن بعد ازاں انھوں نے پریس کانفرس میں مذاکرات کا عندیہ دیا۔ کپتان جس پارلیمانی نظام میں جی رہے ہیں وہاںکبھی مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے جاتے، زیادہ بہتر تھا کہ وہ اسمبلی سے استعفے نہ دیتے کیونکہ عوامی مسائل حل کرنے کے لئے اس سے بہتر فورم کوئی نہیں ہے، وہ اپنے تمام مطالبات اس کی وساطت سے قوم کے سامنے رکھ سکتے ہیں جس کی کوئی قانونی حیثیت ہے لانگ مارچ میں انھوں نے خود کے علاوہ قیادت اور کارکنان کو امتحان میں ڈالا ہے جس کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔
اگر وہ اس ریاست میں سیاست کرنے کے متمنی ہیں تو انھیں اپنی پارٹی میں جمہوری روایات کو فروغ دینا، اختلاف رائے کو برداشت کرنا ہو گا، نیز گراس روٹ لیول تک تنظیم کو منظم کرنا پڑے گا، اپوزیشن کو دشمن سمجھنے کے بجائے انھیں اس ملک کے شہری اور کولیگ سمجھیں، الزامات کی سیاست سے انھیں باہر آنا ہوگا، بیساکھیوں کے سہارے سیاست زیادہ دیر پا ثابت نہیں ہوتی، مشاورت ہی سے بہتر فیصلے کئے جاسکتے ہیں، اگلے مارچ سے پہلے اس نسخہ کو آزمانے میں کوئی حرج نہیں۔

مصنف کے بارے میں