سوشل میڈیا پر قابل اعتراض مواد، قوانین مزید سخت کرنے کا فیصلہ  

Objectionable content on social media, the decision to tighten the rules
کیپشن: فائل فوٹو

اسلام آباد: حکومت نے سوشل میڈیا پر قابل اعتراض مواد کو ہٹانے اور اس میں ملوث کے خلاف گھیرا مزید تنگ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

یہ فیصلہ وزیراعظم عمران خان کے زیر صدارت ایک اجلاس میں کیا گیا۔ قابل اعتراض مواد کے حوالے سے ریگولیشنز کو مزید سخت کرنے کے لیے الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 میں ترمیم کا مسودہ تیار کیا جارہا ہے جسے وفاقی وزارت قانون کی جانب سے حتمی شکل دی جارہی ہے۔

کابینہ نے ’سوشل میڈیا پر قابل اعتراض مواد شیئر کرنے اور مقامی طور پر ایسا مواد تیار کرنے کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بچوں پر جنسی تشدد، گینگ ریپ اور دیگر جرائم کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے مسئلے پر بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنے کی نشاندہی کی گئی ہے۔

وفاقی کابینہ کے 21 ستمبر کو ہونے والے اس اجلاس کے دوران شارٹ ویڈیو شئیرنگ ایپلیکشن ٹک ٹاک پر پابندی کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے کابینہ سے پالیسی بنانے کا حکمنامہ بھی زیر بحث لایا گیا۔ اجلاس میں کابینہ کو ٹک ٹاک پر پابندی کے حوالے سے پی ٹی اے نے بریفنگ دی۔

وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اجلاس میں ٹک ٹاک کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ شارٹ ویڈیو ایپلیکیشن پر قابل اعتراض مواد کو متعدد بار ہٹانے کے باجود ایسا مواد بنانے والے صارفین کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں لاجاسکتی جبکہ خلاف ورزی کرنے والے کو دوبارہ اکاونٹ بنانے سے روکنے کے حوالے سے بھی کوئی پالیسی موجود نہیں نہ ہی کم عمر افراد کو اکاونٹ بنانے کی پابندی ہے۔

کابینہ نے ٹک ٹاک پر بچوں کے اکاونٹ بنانے کے حوالے سے کوئی پالیسی نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پی ٹی اے کو پیکا ایکٹ پر تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پابند بنانے کی ہدایت کی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے چئیرمین پی ٹی اے میجر جنرل (ر) عامر عظیم باجوہ نے ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ ’قابل اعتراض مواد کے حوالے سے سب سے زیادہ شکایات ٹک ٹاک کی آتی ہیں ہم نے قانون کو دیکھتے ہوئے فیصلے کرنے ہیں، بار بار غیر اخلاقی مواد اپ لوڈ کرنے والوں کو دوبارہ اکاؤنٹ بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جبکہ ایپ میں بچوں کو اکاؤنٹ بنانے سے روکنے کے حوالے سے بھی کوئی پالیسی موجود نہیں، ہمیں ان معاملات پر تحفظات ہیں۔‘