سیلاب اورسیاہ ستدان!

 سیلاب اورسیاہ ستدان!

ہمارے کچھ ”دین فروش“ پاکستان میں سیلاب، زلزلوں اور اِس نوعیت کی دیگر آفتوں اور آزمائشوں کو عریانی و فحاشی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، مجھے یقین ہے اِس عریانی وفحاشی میں وہ مختلف متبرک مقامات میں ہونے والی اپنی عریانی وفحاشی کوپیش نظر نہیں رکھتے ہوں گے .... گوری دنیا فحاشی وعریانی کی انتہا پر ہونے کے باوجود ایسے عذابوں کا شکار کیوں نہیں ہوتی ؟ کیا یہ ایک سوال ہمیں یہ سوچنے پر مجبور نہیں کرتا کہ پاکستان میں سارے عذاب فحاشی و عریانی یا ہمارے گناہوں کے نتیجے میں نہیں ہمارے حکمرانوں کی، اور ہماری حکومتوں کی ”مِس مینجمنٹ“ کے نتیجے میں آئے ہیں، فحاشی وعریانی کے نتیجے میں کروڑوں لوگ مرتے نہیں ہیں۔ یہ لوگوں کے ذاتی اعمال ہیں جِس کا حساب ہرکسی کو خود دینا ہے، اورضرور دینا ہے، مگر ہمارے سیاسی واصلی حکمرانوں نے گزشتہ ستربرسوں سے پاکستان کا جو ”بلنت کار“ کیا جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ جان کی بازی ہارگئے اُس کا حساب آج اگر نہیں ہورہا، آج اگر اِن حکمرانوں پر کوئی عذاب نہیں ٹوٹ رہا، آج اگر اُن کے بڑے بڑے محل سیلابوں اور زلزلوں سے محفوظ ہیں اِس کا مطلب ہرگز یہ نہیں اللہ کی پکڑ سے یہ بچ جائیں گے، یہ بے حساب لوگ جو سیلاب کی نذر ہوگئے یہ سب ”مفتول“ ہیں، اُن کے قاتل ہمارے وہ سیاسی واصلی حکمران ہیں جنہوں نے آج تک سوائے اپنی جیبیں اور پیٹ بھرنے کے کچھ نہیں کیا، اِن کے پاپی پیٹ اور جہازی سائز کی جیبیں پھر بھی نہیں بھریں، اب بھی یہ کمیشن کے اُسی مشن پر ہیں پاکستان کو جِس نے تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا، اُن کا بس چلے یہ کفن کو بھی جیبیں لگوالیں اور مال وزر اُن میں بھرکر قبر میں ساتھ لے جائیں۔ اُن کا خیال ہے فرشتے بھی شاید اُن ہی جیسے ہوں گے، جیسے دنیا میں خود کو بھی وہ ایک ”فرشتہ “ ہی سمجھتے ہیں اور عوام سے بھی توقع رکھتے ہیں عوام بھی اُنہیں ”فرشتہ “ ہی سمجھیں ....قبر میں عام مرنے والوں سے شاید کچھ اور پوچھا جائے گا۔ اُس کا جواب بھی وہ شاید دے دیں، اِن حکمرانوں سے جو سوال ہوں گے اُن کے جواب یہ نہیں دے سکیں گے۔ ایک ہمیشہ قائم رہنے والے عذاب میں یہ مبتلا رہیں گے، اِن بدبختوں نے اللہ کو بھی شایدکیا سمجھ رکھا ہے جِس کا کوئی خوف اُنہیں نہیں ہے، آج اُن کی بددیانتیوں اور نااہلیوں کی وجہ سے اِس ملک کے کمزور لوگ جِس کڑی آزمائش یا عذاب میں مبتلا ہیں اُن کی چھوٹی موٹی مددکرکے اور اُس کی بڑی بڑی نمائشیں کرکے وہ یہ سمجھتے ہیں وہ ”حق حکمرانی“ ادا کررہے ہیں، جتنا وقت یہ مختلف اقسام کی ”ڈرامہ بازیوں“ میں خرچ کرتے ہیں اُتنا وقت یہ حقیقی معنوں میں مستحقین کی مدد پر خرچ کریں مصیبتیں بہت حدتک کم ہوسکتی ہیں ،.... پاکستان اور اِس کے کروڑوں عوام پر آئی ہوئی سخت آزمائش کے اِن دِنوں میں بھی خدمت کے بجائے یہ ”سیاست“ کررہے ہیں، اور اُسی قسم کی سیاست کررہے ہیں جِس نے پاکستان کو تباہی کے بدترین مقام پر لا کھڑا کردیا ہے، .... یہ مولوی فضل الرحمان صاحب آج کل کہاں ہیں؟۔ بدزبان شیخ رشید کو کسی سیلاب زدہ کی کوئی مددکرتے ہوئے دیکھا آپ نے ؟۔ مولوی فضل الرحمان تو یقیناً گھر میں بیٹھے دعا فرمارہے ہوں گے اللہ کرے اِس سیلاب کا سارا ملبہ خان صاحب پر گِر جائے۔ اِس سے پہلے کہ اُن کا اپنا جسم ایک اچھا خاصا ملبہ بنے اُنہیں چاہیے باہر نکل کر سیلاب زدگان کی مدد کریں، .... اتحادی حکومتی جماعتوں نے سیلاب کے حوالے سے جو کُل جماعتی مشاورتی کانفرنس بلائی اُس میں سابق وزیراعظم عمران خان کو دعوت نہ دے کر جس روایتی بغض کا مظاہرہ کیا گیا وہ بھی قابلِ مذمت ہے، پتہ نہیں اِن حکمرانوں کے مشیر کون ہیں ؟،اُن کی کم عقلیوں اور اِن کے اکثر فیصلوں سے تو یہی محسوس ہوتا ہے اِن کے مشیر بھی وہی ہیں جو سابق وزیراعظم خان صاحب کے تھے۔ خان صاحب نے کون سی اُن کی دعوت قبول کرکے کل جماعتی کانفرنس میں شرکت فرما لینی تھی۔ اُنہوں نے یقیناً اپنی فطرت کے مطابق انکار ہی کرنا تھا، مگر ”چوں چوں کے سیاسی مربے“ کے اِس دعوے کا تھوڑا بہت بھرم ضرور رہ جاتا قومی معاملات میں وہ سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں .... ایک اور شکوہ مجھے اربوں کھربوں کے مالک حکمرانوں اور سیاستدانوں سے یہ ہے اُن کی ساری کوششیں اور جدوجہددوسروں سے مانگنے پر ہے، اِن میں سے ایک حکمران یا سیاستدان ایسا نہیں اِس آزمائش میں اپنی طرف سے کچھ رقم کا اعلان جس نے کیا ہو، جتنا پیسہ عمران خان نے اپنے ٹیلی فون کے ذریعے اکٹھا کرنے کا دعویٰ کیا اُتنا پیسہ لندن میں بیٹھے نواز شریف اکیلے دے سکتے ہیں۔ایسا کرکے وہ خان صاحب کو اچھاخاصا شرمندہ کرسکتے تھے۔ وہ عوام سے مدد کی اپیل بھی شاید اِسی لیے نہیں کررہے کہیں آگے سے لوگ اُن سے اپیل نہ کردیں ”حضور پہلے آپ اپنی بھاری بھرکم جیب ہلکی کریں، پھر ہم بھی کردیں گے“.... کھربوں پتی بیمارزرداری شاید اِس یقین میں مبتلا ہے اپنا سارا مال وزر وہ قبر میں ساتھ لے کر جائے گا۔ پاکستان نے جتنا جائز ناجائز اُنہیں دیا، یا اُنہوں نے کمایا، مالی لحاظ سے پاکستان کو جتنا اُنہوں نے چوسا اور چبایا اُس کا پانچ فی صد حصہ بھی اپنے پاپی چولو پیٹ سے نکال کر مصیبت زدگان کی نذر وہ کردیں خُدا کی قسم کسی بیرونی امداد کی شاید ضرورت ہی نہ پڑے ، .... چلیں یہ سب تو ہیں ہی جنم جنم کے لٹیرے، چور اورڈاکو جنہیں صرف چھیننا اورلُوٹنا ہی آتا ہے، اُن کے مقابلے میں ایک ”فرشتہ“ بھی ہے جس کی سیاسی مقبولیت آج کل عروج پر ہے، مستقبل قریب میں ”نظریہ ضرورت“ کے تحت ایک بارپھر جو کچھ ہونے والا ہے اُمید ہے اُس کے نتیجے میں اُن کو مقبولیت کے غبارے سے ساری ہوا خارج ہوجائے گی، اُنہیں بھی یہ توفیق نہیں ہوئی سیلاب زدگان کے لیے اپنی روایت کے مطابق ہمیشہ دوسروں سے ہی مانگنے کے ساتھ ساتھ کچھ رقم کا اعلان اپنی طرف سے بھی ہی کردیتے،”اپنی طرف سے“ بھی اُنہوں نے کون سا پلے سے دینا تھا، اُن کی طرف سے ہمیشہ دوسروں نے ہی دیا ہے، حتیٰ کہ اُن کی طرف سے اُن کے صدقے کے بکرے تک ہمیشہ دوسرے ہی دیتے ہیں، ہوسکتا ہے اُن کی طرف سے اُن کی زکوٰ....بھی دوسرے ہی دیتے ہوں، اِس کے باوجود اُنہیں سیلاب زدگان کے لیے اپنی طرف سے کچھ دینے کی توفیق نہیں ہوئی، بس ایک ”ٹیلی تھون“ کرکے اِس تکبر میں وہ مبتلا ہوکر گھر بیٹھے ہوئے ہیں، یا ”جلسہ گردی“ کررہے ہیں کہ تین ارب روپے مبینہ طورپر جو اکٹھے ہوئے وہ دراصل اُن کی جیب سے گئے ہیں، قوم کے سب سے بڑے اِس ”ہمدرد“ کو چاہیے سینکڑوں ایکڑز پر پھیلا ہوا بنی گالہ میں اپنے محل کا کچھ حصہ عارضی طورپر سیلاب زدگان کے قیام کے لیے وقف کرکے ثابت کردے باقی سب سیاستدانوں سے وہ مختلف ہے !!

مصنف کے بارے میں