ککھ بھن کے نئیں دوہرا کیتا…

 ککھ بھن کے نئیں دوہرا کیتا…

جیسے دو بیویاں اور ایک شوہر ہواور دونوں بیویاں روزانہ گھر میں لڑائی ڈال کر بیٹھی ہوں کہ آپ اس کو لے آئے جس کے ’’کارن‘‘ ساری خرابیاں ہیں گھر میں دوسری کا بھی مؤقف بعنہیٰ ہو کہ آپ دوسری والی لے آئے تو جبھی گھر نہیں چل رہا… یہ سلسلہ دراز تو ہوسکتا ہے مگر دونوں میں سے ایک کے منطقی انجام تلک ختم نہیں ہوسکتا شوہر کے ایک سے زائد بیویوں کے حق پر بھی مخالفت نہیں ہوسکتی اور بیویوں کی ایک دوسرے پر الزام تراشی پر بھی کوئی قدغن نہیں… رہ گئے ہمسائے تو ان کا حال وہی ہے جو آج کل ہمارا ہے ۔ ہم وہ ان چاہے ہمسائے ہیں جو نا چاہتے ہوئے بھی روزانہ کی گالی گلوچ، ڈنڈاسوٹا، مارکٹائی اور سب سے بڑھ کر الزام تراشی سننے پر مجبور ہیں۔ ہوسکتا ہے ہم لتا اور نورجہاں کے گانے سننے چاہتے ہوں مگر ہمیں پھنکارتی ہوئی آوازوں میں کھربوں کی کرپشن سنائی جاتی ہے اور ہم چند ہزار کے بجٹ پر گڑ بڑا جانے والے حساب میں مسلسل فیل ہونے والے گھر کے بجٹ پر سواتنقید سننے والے کھربوں کی کرپشن اور کرپشن پر دماغ کھانے والے ’’داستان گو‘‘ سے چکراجاتے ہیں …
جی یہ محض ’’داستان گو‘‘ اس لیے کہا کہ یہ ہماری بچپن کی کہانیوں کو خوفناک بناکر سناتے ہیں کہانیاں اور کہانی گواس لیے بھی مؤثر ہے کہ کہانیوں میں بھی اسباب تو ہوتے تھے مگر سدباب نہیں ہوتا تھا۔ 
اس تازہ ترین عجب کرپشن کی غضب کہانیوں میں بھی کردار ہوتے ہیں مگر سدباب نہیں۔ 
صرف گزشتہ تیس برس کا حساب کرتے ہیں چلیں مان لیا بہت سے پراجیکٹس سڑکیں پل ہسپتال بنے مگر بقول بائیس برس کی جدوجہد والے عمران خان کے مطابق کھربوں کی کرپشن رہی چلیں یہ بھی مان لیتے ہیں اب ایک محاورہ ہے ’’سودن چور کا ایک دن صاحب کا‘‘ وہ دن بھی آگیا خان صاحب تیس برس سے بیٹھے حکمرانوں کو کرپشن سمیٹ اکھیڑ کر خود (یعنی ایماندار) بیٹھ گئے لوگوں نے لڈیاں ڈالیں لو جی کہانی میں ’’ٹرن‘‘آگیا اب کرپشن ختم ہوگی اور بقول مراد سعید ہم کھربوں واپس لاکر آدھے قرضے والوں کے منہ پر ماریں گے (بے چاروں کے منہ پر مارکر ان کے قرض دینے کی سزادیں گے ) اور باقی سے خزانہ بھریں گے یہ خزانہ بھی گویا والدہ کا پرس ہو گیا ذرا جو ہم بہن بھائی ہاتھ لگانے لگتے وہ دور سے تڑپ کر کہتیں ’’پیسے مک گئے نیں‘‘ اس لیے حکومتی یہ بیان تو ہم کو برا نہیں لگتا کہ سب کی مائیں بھی یہی کہتی ہیں اگر مائی باپ نے کہہ لیا تو کیا …
بات ہورہی تھی ’’داستان گو‘‘ کی جسے بالآخر ڈنڈا سوٹا حکومت مل ہی گئے …مگر یہ کیا یہ تو ڈکشن ہی بدل گئی … ہمارے پاس کوئی جادوکی چھڑی نہیں ہے جو عوام کے حالات بدل دیں … ستر برسوں کا گند چند سالوں میں صاف نہیں ہوسکتا… یہ مسائل ہمیں ورثے میں ملے ہیں پھر کب ہوگا ؟؟؟یہ حکومت بھی ہماری اگلی بھی ہماری اس سے اگلی بھی ہماری … یہ سگار والے شیخ رشید لگتے ہیں ہاں یہ تباہ کرنے کے لیے نہیں کہہ رہے یہ تو عادتاً کہہ رہے ہیں۔ چلیں مان لیے سارے زمانے آپ کے مگر پونے چارسال بھی تو کوئی کم عرصہ نہیں ہوتا کوئی ایک ہی کیفر کردار تک پہنچ جاتا شاید آپ نے احتساب کی نیت سے پکڑا نہیں انتقام کے پیش نظر جیل سے پنکھا اتروانے کے نعرے لگاتے رہے اس پنکھے کے اترنے کا عوام کو براہ راست کوئی فائدہ پہنچا… جواب … وہ جی کیا کرتے ہم نے تو پکڑا تھا مگر وہ جھوٹ بول کر بیماری کے بہانے باہر چلا گیا یعنی ہاتھ آیا مجرم بھی اس لیے بنا کہ وہ خود چل کر گرفتاری دینے آیا ورنہ اتنا بھی نہ ہوتا… جیلیں آپ کی ڈاکٹر آپ کے سارا ٹبر قید پوری کابینہ اندر مگر نتیجہ صفر…
تو یہ کہانی نہ ہوئی تو کیا ہوا جج کہنا نہیں مانتے ان کی ویڈیوز میں اعترافی بیان بھی جھوٹے ڈاکٹری رپورٹ بھی جھوٹی گارنٹی دینے والا بھی جھوٹا مگر ذمہ دار کون …؟ہم نے تمام زندگی دفاتر میں دیکھا کہ ذمہ دار سربراہ محکمہ ہوتا ہے جو یا تو اپنی Incompetenceان کامپیٹنس کا اعتراف کرتا ہے یا پھر آئیں بائیں شائیں کرتا ہے مگر اس پر یہ دھبہ لگ جاتا ہے کہ بندہ کمپیٹینٹ Competentنہیں… یہی حال گھروں کا ہے جس گھر کے بیٹے ڈاکو اور عورتیں چوریاں کریں تو اس گھر کا سربراہ کے دامن بچا کر کھڑا ہوسکتا ہے کہ جی میں تو شریف ہوں میرے گھروالے چور ہیں… یہ توویسے ہی ہوگیا کہ ایک شخص بھاگا بھاگا جارہا تھا لوگوں نے پکڑ کر پوچھا کیا ہوا ؟ بولا پچھلے چوک میں میرے والد صاحب کو ’’چھتر‘‘پڑرہے ہیں میں عزت بچا کر آگیا ہوں ۔
تو جناب آپ بھی کیچڑ میں کھڑے ہیں دامن نہیں بچا سکتے بڑے خوفناک گندے کھیل کا حصہ ہیں چھینٹیں تو پڑیں گی دوسروں پر الزام تراشی اور اپنی نااہلی کا اعتراف کریں۔ 
یہ پاکستانی سیاست ہے محترم یہ ایسی ہی ہے یہاں آئیڈیالوجی کی باتیں اور محض باتیں کتنا عرصہ چل سکتی ہیں خود کچھ نہ آتا ہو تو اسد عمر پر بھروسہ نہیں کرتے دنیا کی مارکیٹ بھری پڑی ہے بڑے بڑے ماہرین اٹھالاتے ۔
کہتے ہیں کامیابی کا کوئی نعم البدل نہیں اور ناکامی کے سو جواز بھی جھوٹے یہ نہیں کہ آپ کو موقع نہیں دیا گیا پونے چارسال میں آپ نے ’’ککھ بھن کے دوہرا ‘‘ نہیں کیا …کہیں دیواروں کے اندر بیٹھے رہے جاگرز اور ٹریک سوٹ پہن کر ہاں شادیاں طلاقیں کیں تو ضمنا’’اپنی رائے دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ برصغیر ہے یہاں پہلی شادی ہی شادی ہوتی ہے وہ بھی جو معاشرہ اپنی رضامندی سے اجازت دے ورنہ ایسا سبق سکھاتا ہے کہ چھٹی کا دودھ یاد آجاتا ہے ہمارے ہاں کی شادی میں لڑکا لڑکی کو چھوڑ کر باقی سب کی مرضی مقدم ہوتی ہے اور اگر معاملہ برعکس ہوتو یہ معاشرہ لڑکا لڑکی کی ساری محبت ختم کرکے دم لیتا ہے اسی لیے آپ کو زیادہ تر بے جوڑ شادیاں نظر آتی ہیں۔ جس میں ہم سارے اپنے مسائل سمیت فٹ بیٹھ جاتے ہیں ہندو گائو ماتا کے سینگ پر کھڑا یہ معاشرہ دوسری تیسری شادی نہیں پنپنے دیتا یہاں پر ایک شادی کا چلنا ہمارے کسی وصف کی نمائندگی نہیں کرتا بلکہ یہاں شادیاں ہندومت کی وجہ سے ایک پر قانع ہوکر چل رہی ہیں۔ 
تو اب واقعی وہ مقام آگیا ہے کہ تمام اطراف سے سیاسی بیانات الزام تراشی اوراپنی ناکامی کے دوسرے ذمہ داروں کا واویلا بند کرکے کوئی پلیننگ کی جائے کہ مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے پرسوں جو 1لیٹر آئل 450کا تھا آج 550کا ہے پرسوں ہی تازہ تازہ 145سے 155پر پہنچنے والا 1لیٹر آلپر دودھ کا ڈبہ آج پورے 170کا ہے کل کا ریٹ خدا جانے لہٰذا سیاسی بک بک بند اور مہنگائی پر کام شروع ہوکہ اب غریبوں نہیں مڈل کلاس اور اپر مڈ کلاس کی بھی چیخیں نکل رہی ہیں۔ 

مصنف کے بارے میں