اسمبلیوں کی تحلیل یا فیس سیونگ

اسمبلیوں کی تحلیل یا فیس سیونگ

 ملک کی سیاسی صورتحال ڈرامائی موڑ پر آ گئی ہے۔ آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد ہَواؤں کا رخ تبدیل ہو رہا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار جلد نت نئی تبدیلیوں کی پیشگوئیاں کر رہے ہیں۔ 26 نومبر کو کپتان کا حقیقی آزادی کا ’’مشن امپوسیبل‘‘ ناکام ہو گیا۔ امید کے دیے میں تیل ختم، چراغ بجھنے لگے۔ آئندہ تبدیلیوں اور حکمت عملی کے واضح خدوخال نظر آنے لگے ہیں، کم و بیش ایک ماہ کی تیاری اور وزیر آباد کے قاتلانہ حملے میں ٹانگ زخمی کرانے کے بعد حامیوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے باوجود 20 لاکھ افراد پنڈی لانے کا بیانیہ بھی سابق بیانیوں کی طرح جھوٹ ثابت ہوا۔ 20 لاکھ کے بجائے پندرہ بیس ہزار افراد ہی شہباز شریف دور کے بنے فلائی اوور پر جمع ہو سکے۔ مجمع دیکھ کر کپتان کا دل ڈوب گیا۔ دل کے زخم تو نہ دکھا سکے۔ ٹانگ کے زخم دکھا کر آبدیدہ ہو گئے۔ قریب کھڑے ایک ساتھی بھی ’’آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں‘‘ کے مصداق رونے لگے۔ سیف الدین سیف نے کسی ایسے ہی موقع کے لیے کہا تھا ’’ہم کو تو صورت حالات پر رونا آیا۔‘‘ اجتماع میں وہی برسوں پرانی تقریر بس ایک سرپرائز دیتے گئے، اعلان کیا کہ الیکشن کی تاریخ نہ دی تو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دوں گا۔ سیانوں نے کہا وفاقی حکومت گرانے آئے تھے۔ اپنی دو حکومتیں گرانے کی دھمکی دے کر پتلی گلی سے نکل گئے گویا کان چھدوانے نکلے تھے ناک کٹوا کر چلے گئے۔ ’’دکھاتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے‘‘ زنبیل میں آخری کارڈ بچا تھا وہ بھی شو کر دیا پنڈی کی جانب حسرت بھری نگاہ ڈالی۔ ڈبل گیم کی پوری فلم آنکھوں کے سامنے تھی۔ افسوسناک لہجہ میں کہا مانا کہ آپ نے میری حکومت گرانے کی سازش نہیں کی مگر تحریک عدم اعتماد روک تو سکتے تھے جس سے مخاطب تھے انہوں نے 8 ماہ پہلے بیساکھیاں ہٹا لی تھیں کہا تھا اپنا بوجھ خود اٹھائیں، حکومت چلی گئی لیکن قریبی لوگ بتاتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد بھی دل کے کسی گوشے میں کپتان کی محبت کروٹیں لیتی رہی، چودھری پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی نے گزشتہ دنوں ایک ٹی وی انٹرویو میں پنجاب حکومت کے بارے میں مختلف سوالوں کے جواب میں انکشاف کیا کہ چودھری پرویز الٰہی جنرل (ر) باجوہ کے کہنے پر بلاول ہاؤس کے بجائے بنی گالہ چلے گئے اور یوں پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت بن سکی، جنرل قمر جاوید باجوہ کپتان کے غیر اخلاقی القابات پر تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے 29 نومبر کو ریٹائر ہو گئے جس کے بعد یوتھیوں نے سوشل میڈیا پر اپنے ’’محسن‘‘ کو مغلظات سے نوازنا شروع کر دیا جسے کل تک نجات دہندہ کہتے تھے ان کے جانے پر یوم نجات منایا کچھ دن قبل ہی کپتان ان سے درخواست کر رہے تھے کہ ’’ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں‘‘ تا حیات توسیع کی پیش کش، نہ مانے تو 6 ماہ کی توسیع کی کوششیں، چلے گئے تو ان پر الزامات کی بوچھاڑ محسن کشی اور کسے کہتے ہیں ان کے جاتے ہی چوہے بلوں سے باہر نکل آئے حتیٰ کہ فرخ حبیب جیسے لوگ بھی ان سے منی ٹریل مانگنے لگے، پی ٹی آئی اقتدار میں تھی تو جنرل (ر) باجوہ ہیرو تھے، اقتدار ختم ہوا تو ولن بنا دیے گئے، سٹک پکڑاتے ہی یوتھیوں نے فتوے جاری کرنا شروع کر دیے، چھوڑیے ایسا ہی ہوتا ہے بلکہ ’’محبت میں تیرے سر کی قسم ایسا ہی ہوتا ہے‘‘ سیانے کہتے ہیں کہ ان کے جاتے ہی کئی لوگوں کی ’’نوکری‘‘ ختم ہو گئی گیٹ نمبر 4 بند کر دیا گیا شیخ رشید بھی ملاقات نہ ہونے کے شکوے کر رہے ہیں، کیا کریں دربان تبدیل کر دیے گئے ہیں جو انہیں نہیں پہچانتے۔ اب آ جائیں اسمبلیوں کی تحلیل پر تحلیل کا اعلان سرپرائز نہیں فیس سیونگ کا بہانہ ہے ’’صاف کہہ دو کہ ہے جانا جاناں‘‘ کپتان گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران خطرناک کرتب دکھا دکھا کر تھک چکے ہیں۔ قاتلانہ حملہ کے بعد جان کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ وفاقی حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی، اس کی ایک ہی رٹ ہے کہ معاشی صورتحال قابو میں آنے کے بعد ہی آئندہ سال ستمبر، اکتوبر میں انتخابات کرائے جائیں گے، قانونی ماہرین کے مطابق تو آئین اس بات کی بھی اجازت دیتا ہے کہ معاشی صورتحال خراب ہونے پر الیکشن 6 ماہ تک موخر کیے جا سکتے ہیں چنانچہ شہر اقتدار میں خبر گرم ہے کہ اب انتخابات 2024ء ہی میں ہوں گے۔ کپتان اتنی دیر صبر نہیں کر سکتے۔ گھر چھوڑا سڑکوں پر آئے 60 سے زیادہ جلسوں سے ایک جیسا خطاب کیا۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھانت بھانت کے کوسنے دیے اندھیرا چھاتے ہی منت سماجت کی۔ حامیوں کی ہمت ہے کہ وہ ایک جیسی تقریریں سن کر بھی نعرے لگاتے رہتے ہیں۔ کمان کی تبدیلی کے بعد تو کپتان سیاسی طور پر لاوارث اور تنہا ہو گئے جن کے لیے مارچ میں الیکشن چاہتے تھے وہ بھی گئے۔ جن پہ تکیہ تھا انہوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر مبینہ طور پر ایک ارب کے اپنے اثاثے بجائے، سب کچھ زبانی کلامی ہو گیا۔ دیگر تبدیلیوں کے بعد ذیلی راستے بھی بند ہو گئے۔ یو ٹرن کیسے لیں گے کنگز پارٹی یتیم ہو گئی۔ اسٹیبلشمنٹ کے سایہ عاطفت سے محروم، سیاسی اتالیق ساتھ چھوڑ گئے۔ کپتان کے ترکش میں جتنے تیر تھے سب چلا چکے اللہ خوش رکھے، اچھے دور میں ’’محسن‘‘ کہا کرتے تھے۔ ’’تیر پہ تیر چلاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے‘‘ لیکن فلک نے اچانک پینترا بدلا۔ آخری تیر اسمبلیوں کی تحلیل کا بج رہا تھا۔ جس کے بارے میں فواد چودھری نے یہ کہہ کر سنسنی پھیلا دی کہ دونوں 
اسمبلیوں کی تحلیل اور باقی دو سے استعفوں کے بعد مجموعی طور پر 567 نشستیں خالی ہو جائیں گی اور الیکشن کے بغیر چارہ نہیں رہے گا لیکن الیکشن کمیشن نے یہ اعلان کر کے غبارے میں سے ہَوا نکال دی کہ وہ 90 دن میں تحلیل کی گئی اسمبلیوں کے انتخابات کرا دے گا۔ قومی اسمبلی اور حکومت برقرار رہے گی۔ امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ اندازہ لگائیے ملک کی کتنی دولت اور عوام کا کتنا سرمایہ ایک ضد اور انا پر قربان ہو گا سیاسی حلقوں کے مطابق صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کے انتخاب پر 6 سے 7 کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں جبکہ قومی اسمبلی کی ایک نشست کے لیے 8 سے 10 کروڑ درکار ہوتے ہیں۔ عام انتخابات کے لیے وفاقی حکومت نے 47 ارب 45 کروڑ مختص کیے ہیں۔ بُرے معاشی حالات، بے پناہ قرضوں کم ترین زر مبادلہ اور ہوشربا مہنگائی کے ہوتے ہوئے صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں اضافی رقم کہاں سے آئے گی لوگ کہتے ہیں جو اسمبلیاں توڑیں گے ان ہی سے لی جائے ’’سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے دانش کے سوا‘‘ کپتان اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان کر کے پچھتائے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ارکان اسمبلی اس اعلان کے بعد کنفیوژن کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ ارکان کو سابقہ تجربات کی بنیاد پر یقین نہیں کہ پی ٹی آئی پنجاب سے دوبارہ 154 اور پختونخوا سے دو تہائی اکثریت حاصل کر سکے گی۔ قومی اسمبلی کی حالیہ ضمنی انتخابات میں دو نشستیں کھو بیٹھی صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات میں کچھ بھی 
ہو سکتا ہے۔ دوسری وجہ اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی سے محرومی کے سبب نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ آزاد ارکان اب کس کے کہنے پر پی ٹی آئی میں شامل ہوں گے چودھری پرویز الٰہی جن کے کہنے پر بلاول ہاؤس کا راستہ بھول کر بنی گالہ چلے گئے تھے وہ اب چلے گئے بالفرض محال اگر کپتان کو پنجاب سے زیادہ نشستیں مل گئیں اور وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے تو وہ چودھری پرویز الٰہی کو کس مجبوری کے تحت وزیر اعلیٰ بنائیں گے یقینا وہ پھر کوئی عثمان بزدار ڈھونڈیں گے جو ان کی مرضی کی ایف آئی آر درج کرا سکے اور عوامی اجتماعات میں ان کے دائیں بائیں کھڑا ہو سکے۔ ان کے ساتھ مل کر کورس کی شکل میں مخالفین اور ساتھ نہ دینے والوں کو گالیاں دے سکے جبکہ چودھری پرویز الٰہی نے کمان کی تبدیلی کے موقع پر جنرل باجوہ کے کردار اور ملکی دفاع کے سلسلہ میں ان کی خدمات کو تاریخی قرار دیا اور کہا کہ لوگ انہیں رہتی دنیا تک یاد رکھیں گے۔ اسی دوران جنرل (ر) باجوہ کو بُرا بھلا کہنے پر پی ٹی آئی کی رکن اسمبلی مسرت چیمہ کو شوکاز نوٹس بھی جاری کر دیا۔ چودھری پرویز الٰہی اس تمام عرصہ میں پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہے ہیں، اسی لیے کپتان سے ملاقات کے دوران اسمبلی توڑنے کی حامی بھرنے کے باوجود ان کے قریبی لوگوں کو یقین ہے کہ وہ اسمبلی نہیں توڑیں گے مونس الٰہی کے حالیہ انٹرویو کے بعد حالات مزید خراب ہوئے ہیں اور ق لیگ اور پی ٹی آئی میں اعتماد کا فقدان بڑھ گیا ہے۔ ادھر اسد قیصر نے بھی دانش مندانہ بات کی ہے کہ اسمبلیاں توڑنے میں جذبات سے کام نہیں لیں گے چنانچہ 26 نومبر کے بعد سے پی ٹی آئی کی کور کمیٹی اور دونوں صوبوں کے ارکان اسمبلی سے مسلسل مشاورت جاری ہے مگر ارکان کی اکثریت تحلیل پر راضی نہیں جبکہ صرف فیصل واوڈا کے تین سانپ اور دیگر دو تین رہنما کپتان کو تحلیل پر اکسا رہے ہیں۔ ادھر چودھری پرویز الٰہی کو پیغام پہنچا دیا گیا ہے کہ اسمبلی تحلیل کرنے سے ملک میں عدم استحکام پیدا ہو گا جو موجودہ حالات میں خطرناک ہو سکتا ہے۔ ان ہی ذرائع کے مطابق خان صاحب آج کل میں اسمبلیاں تحلیل نہیں کر رہے بلکہ وہ اس معاملہ کو آئندہ سال مارچ اپریل تک دھمکیوں کی شکل میں لے جائیں گے جہاں تک چودھری پرویز الٰہی کا تعلق ہے وہ اس سے قبل بھی اسمبلی تحلیل کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔ اس موقع پر بھی انہوں نے استعفیٰ کو ترجیح دی تھی جس پر کپتان نے چپ سادھ لی تھی پنجاب میں ایک بار پھر شطرنج کی بساط بچھ گئی ہے چالیں سامنے آنے لگی ہیں۔ سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر سابق صدر آصف علی زرداری میدان میں کود پڑے ہیں۔ انہوں نے جہانگیر ترین، مخدوم احمد محمود اور خسرو بختیار سے رابطے کر کے جنوبی پنجاب سے مشن کا آغاز کر دیا ہے۔ علیم خان اور سابق گورنر چودھری سرور بھی ان سے رابطے میں ہیں۔ انہوں نے چودھری شجاعت سے بھی ملاقات کر لی ہے چنانچہ پنجاب حکومت میں تبدیلی کے لیے تحریک عدم اعتماد اور گورنر کی جانب سے وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایات کے لیے مسودے تیار معاملات زیر غور بلکہ کسی حد تک آخری شکل تک پہنچ چکے ہیں۔ اپوزیشن کو اس وقت حکومت سازی کے لیے 186 ارکان درکار ہیں۔ آٹھ دس سرکاری ارکان اِدھر اُدھر ہو گئے یا حکومت کے اتحادی دوڑ لگا گئے تو کام دکھا دیا جائے گا۔ 18 ن لیگی معطل ہیں لیکن تحریک عدم اعتماد یا اعتماد کے ووٹ کی صورت میں موجودہ حکومت کو بھی ان کی وجہ سے نقصان پہنچے گا۔ آئینی ماہرین کے مطابق اسمبلی ان سیشن ہو یا نہ ہو تحریک عدم اعتماد یا اعتماد کا ووٹ لینے پر کوئی آئینی قدغن نہیں ہے۔ ادھر امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی کپتان کے اعلان کو اعتراف شکست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ارکان کیوں اور کس کے لیے اسمبلیوں سے باہر آئیں، کپتان کا ترکش خالی ہو گیا سچ پوچھئے تو وہ آنے والوں سے پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے پورے سوشل میڈیا کو حکم جاری کر دیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کوئی بات نہیں کی جائے گی۔ با خبر ذرائع کے مطابق انہوں نے نئے آنے والوں سے صدر مملکت کے ذریعے رابطہ کی کوشش کی مگر رابطہ نہ ہو سکا۔ اسمبلیوں کی تحلیل اتنی آسان نہیں شاید اسی لیے کپتان نے 26 نومبر کو مشاورت کے لیے ایک ہفتہ کی مہلت لی تھی فواد چودھری نے ایک ہفتہ مزید بڑھا دیا اسی دوران شنید ہے کہ انہوں نے حکومت کو غیر مشروط مذاکرات کی پیش کش کر دی ہے کہ آئیں مذاکرات کریں اور الیکشن کی تاریخ طے کر لیں۔ حکومت کیسے اور کیوں اتنی جلدی جواب دے گی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کپتان کو پے در پے زیر سماعت مقدمات سے بھی نا اہلی یا گرفتاری کا خطرہ ہے اسی لیے انہیں اپنے پراجیکٹ مکمل کرنے کی جلدی ہے۔ ستاروں اور سیاروں سے باتیں کرنے والے نجومی کہتے ہیں کہ انتخابات آئندہ سال کے وسط یا اس کے بعد ہوں گے۔ ’’ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔‘‘