واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے بیان پر دنیا بھر میں مذمت کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مسلم ممالک کے علاوہ چین، روس، یورپی ممالک اور دیگر عالمی طاقتوں نے ٹرمپ کے منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔
سعودی عرب نے اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کیے جائیں گے، اور فلسطینی عوام کے حقوق کی خلاف ورزی کو مسترد کیا گیا ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اس موقف کی بھرپور حمایت کی ہے۔
ایران، اردن، اور مصر نے بھی ٹرمپ کے بیان کی مخالفت کی ہے۔ ایران نے غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کا مستقبل فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ اردن کے شاہ عبداللہ اور مصر نے غزہ کی بحالی کے لیے فلسطینیوں کی بے دخلی کے بغیر اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
حماس نے بھی ٹرمپ کے بیان کو مضحکہ خیز اور غیر معقول قرار دیا ہے اور کہا کہ وہ کسی بیرونی مداخلت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ طالبان حکومت نے ٹرمپ کے منصوبے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
چین نے غزہ سے فلسطینیوں کے جبری انخلا کی مخالفت کی اور کہا کہ غزہ میں حکمرانی کا بنیادی حق فلسطینیوں کا ہے۔ برطانیہ، روس اور فرانسیسی وزارت خارجہ نے بھی مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے دو ریاستی حل کی حمایت کی اور غزہ پر کسی تیسرے فریق کے قبضے کو مسترد کیا۔
جرمنی اور آسٹریلیشیا کے رہنماؤں نے غزہ پر قبضے کے اثرات پر تشویش کا اظہار کیا، جب کہ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے غزہ کی تعمیر نو کے لیے بین الاقوامی قوانین کی پیروی پر زور دیا۔ امریکی ڈیموکریٹ سینیٹر کرس مرفی نے غزہ پر امریکی قبضے کو مشرق وسطیٰ میں مزید جنگ اور امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا باعث قرار دیا۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کی پٹی پر طویل المدتی قبضے کا اعلان کیا تھا، جس کا مقصد علاقے میں استحکام لانا اور ملازمتیں پیدا کرنا ہے۔ اس کے تحت فلسطینیوں کو غزہ سے منتقل کرنے کے لیے اردن اور مصر کی مدد حاصل کرنے کی بات کی گئی تھی۔