وہی مال ندارد

وہی مال ندارد

وزیراعظم عمران خان بہادر کو پہلے ہی ان کے گھریلو صوبے اور مقبولیت کے اصل مرکز صوبہ خیبر پختونخواکے چودہ کے قریب اضلاع میں بلدیاتی انتخابات میں بری طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا تو ان کی سیاسی ساکھ کی دیوار متزلزل ہو کر رہ گئی اور اب نہلے پہ دہلا یہ ہوا ہے کہ شاعر کے الفاظ میں ’’شیخ آئے جو محشر میں تو اعمال ندارد… جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد‘‘… نوازشریف کی تیسری منتخب حکومت کو جسے عام انتخابات میں چوتھی بار بھی شکست سے ہمکنار کرنا مشکل تر نظر آ رہا تھا فوراً اقتدار سے ہٹانے کی خاطر اس کے خلاف کرپشن کے الزامات کا وہ شورِ قیامت برپا کیا کہ ملک بھر میں کانوں پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی … ثبوت اگرچہ ان الزامات کے بار بار دہرانے کے باوجود ابھی تک کوئی نہیں مل سکا لیکن فارن فنڈنگ کیس کی تحقیقات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی قائم کردہ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں عمران خان اور ان کی جماعت کی اپنی بددیانتی واشگاف ہوئی ہے… باقاعدہ دستاویزی ثبوت کے ساتھ ان کے خلاف منی لانڈرنگ کا الزام پیش کیا گیا ہے… انہوں نے 65 میں سے 13 خفیہ اکائونٹس کو پردہ غیب میں رکھا… بیرونی ممالک میں سے 31 کروڑ روپے یا 63 میں سے تیرہ کس نے دیے حسابات پیش کرتے وقت کیوں چھپائے ان کا راز افشا نہیں کیا… بادیٔ النظر میں مجرم ٹھہرے… اگرچہ ان کی جماعت کے نفس ہائے ناطقہ نے ان کی حقیقت سے انکار کیا ہے لیکن سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں ظاہر کئے گئے واضح حقائق اور ٹھوس شواہد کی روشنی میں اس عیب پر پردہ ڈالنا مشکل تر ثابت ہو رہا ہے… 18 جنوری کو اگلی سماعت ہو گی اور وزیراعظم اور ان کی جماعت کے پاس ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیل کے حقوق موجود ہیں مگر سخت بدنامی کا داغ ان کے ماتھے پر جو جا لگا ہے اسے مٹا دینا چنداں آسان نہ ہو گا ان خفیہ اکائونٹس کا قضیہ گزشتہ 7 سال سے چل رہا تھا ان ہی کی جماعت کے ایک بانی رکن اکبر ایس احمد نے جس کا انہیں کبھی بہت اعتماد حاصل تھا ان حقائق کو طشت از بام کرنا شروع کر دیا… باخبر حلقوں کی رائے ہے یہ حقائق ہماری اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ کارپردازوں کی نظر میں پہلے سے آ چکے تھے… سیاستدانوں کی حرکات پر دوربین کی سی نگاہ رکھنے والی تیزکار ایجنسیاں بھی ناواقف نہ تھیں لیکن ہمارے غیرآئینی مقتدر حکمرانوں کو چونکہ نوازشریف جیسے غیرمطیع اور دستور و جمہوریت کی پابندی پر اصرار کرنے والے کا اقتدار منظور نہیں تھا لہٰذا انہوں نے اپنی زبردست قسم کی خفیہ کاری کے ذریعے مقدمے کا جلد فیصلہ نہ ہونے دیا بصورت دیگر خان بہادر کا  2018 کا انتخاب جیتنا بھی اور جیسے بھی وہ جیتا گیا مشکلات سے دوچار ہو جاتا… لہٰذا تین مرتبہ منتخب ہونے والے وزیراعظم کے خلاف جو حقیقت میں برسراقتدار غیرآئینی قوتیں ہرگز نہ چاہتی تھیں لہٰذا اس کے خلاف کرپشن کے پے در پے الزامات ہمارے کھلاڑی کے منہ میں ڈالے گئے اور اس نے انہیں ٹیپ کے بندکی طرح دہرا کر اور اپنی انتخابی مہم کا جزولاینفک بنا کر صبح و شام ایک کر دیا اور مقابلے میں اپنی معصومیت اور شفافیت کا خوب خوب ڈھنڈورا پیٹا… اس مہم کو چونکہ ملک کے اعلیٰ ترین طبقوں کی اگرچہ غیرآئینی ہیں سرپرستی حاصل رہی لہٰذا ان کے تابع مہمل بن کر جسٹس منیر احمد کی لڑی سے تعلق رکھنے والے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی اپنی سرپرستی میں ایک بوگس الزام کے ذریعے نواز کو پہلے برطرف کرایا اور پھر انہیں عمر بھر کے لئے نااہل قرار دے دیا… اب جو مسلط شدہ وزیراعظم کا لقب پانے والے ہمارے کھلاڑی کے اقتدار کو تین سال گزر چکے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کا ان کے ساتھ بھی بگاڑ پیدا ہو گیا ہے ان کے پسندیدہ ترین ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے تبادلے کے مسئلے 
پرماتھوں پر تیور آ گئے ہیں… اسٹیبلشمنٹ کے نازک پردہ داروں کو یہ حرکت قطعاً پسند نہیں آئی ایک صفحہ پر ہونے کا رومانی تصور جس کا بہت چرچا کیا جاتا تھا تار تار ہو کر رہ گیا ہے… 2023 کے عام چنائو سے پونے دو سال قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جھرکی لی اور عمران خان کی امانت و دیانت کا پردہ چاک کر دیا…
یہ ہے لمحہ موجود کے سیاسی عروج و زوال کی کہانی… ایک مرتبہ پھر بڑا بحران سروں پر آن کھڑا ہوا ہے اسی دوران میں ملک کی معیشت کا جو ستیاناس کر کے رکھ دیا گیا ہے پاکستان دیوالیہ پن کے دہانے پر آن کھڑا ہوا ہے… خارجہ پالیسی کے میدان میں کوئی ہمیں گھاس ڈالنے کے لئے تیار نہیں… امریکہ، برطانیہ اور بھارت تو دور کی بات ہے افغانستان جیسا ہمسایہ ملک جس کی آزادی کی خاطر ہم نے گزشتہ چالیس سال قربانیاں دیں خودمختاری حاصل کرنے اور امریکہ کی غلامی سے نجات پانے کا پہلا جھونکا لینے کے بعد ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے… ڈیورنڈ لائن کو ماننے سے انکاری ہے… یہ پاکستان کے خلاف اس کا وہی نام نہاد توہم پرستانہ مؤقف ہے جسے سابق بادشاہ ظاہر شاہ سے لے کر اشرف غنی نے اپنائے رکھا اور اب طالبان کی بظاہر پاکستان دوست حکومت بھی اس توہم پرستی کا پرچم لہرا رہی ہے… چین اور سعودی عرب کی جانب سے سردمہری کی ہوائیں چل رہی ہیں… ملک کے اندر مہنگائی اور بیروزگاری کا نام نہ لیجیے کہ عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے باالفاظ دیگر ملک چل نہیں پا رہا اس کی ترقی کیا عام درجے کی زندگی کا پہیہ بھی منجمد ہوا جا رہا ہے… اس عالم اور کیفیت میں مقتدر قوتوں نے اپنی غیرآئینی بالادستی برقرار رکھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر لندن میں مقیم نوازشریف سے تعاون کے لئے رابطہ قائم کیا ہے وہاں سے سخت شرائط سامنے آئی ہیں… تعاون اگر دستیاب ہوا تو حد درجہ مشروط ہو گا یہ کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے غیرآئینی تسلط سے ہاتھ اٹھا لے گی اگلے عام انتخابات میں اس کی اور اس کے کل پرزوں کی بلاواسطہ مداخلت برداشت نہ کی جائے گی… ضمانت دی جائے یہ چنائو آزاد ترین اور شفاف ہوں گے… عوام کی مرضی کی صحیح معنوں میں ترجمانی کریں گے… پھر جو بھی پارٹی یا ان کا اتحاد کامیاب ہوا اسے آزادانہ حکومت قائم کرنے کی کھلی مہلت دی جائے گی… اسٹیبلشمنٹ بظاہر تو ان اصولوں سے اتفاق کرتی نظر آتی ہے لیکن درونِ مے خانہ اسے یہ سب شرائط من و عن منظور نہیں وہ امورِ مملکت پر کسی نہ کسی طور اپنا ظاہری یا خفیہ تفوق قائم رکھنا چاہتی ہے اور اسی نازک مسئلے پر لندن میں ہونے والے مذاکرات تعطل کا شکار نظر آ رہے ہیں لیکن ان حکمرانوں کے پاس اصل باعزت راہِ عمل کیا ہے کچھ ان کی سمجھ میں بھی نہیں آ رہا… اسی سبب کی بنا پر جیسا کہ میں نے سطور بالا میں عرض کیا ملک کے اندر ان کی ترک تازیوں کی وجہ سے نیا بحران سر اٹھا رہا ہے… راولپنڈی والوں کو بظاہر نوازشریف کے وطن واپس آنے اور ان کی نااہلی ختم ہونے پر اعتراض نہیں جس کے سپریم کورٹ کے پاس صوابدیدی اختیارات موجود ہیں لیکن وہ نواز کی جگہ شہباز کو اگلے منتخب وزیراعظم کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جس کے اندر بڑے بھائی کے مقابلے میں اطاعت کے کچھ نہ کچھ جراثیم پائے جاتے ہیں… نواز کو بھی یہ آپشن نامنظور نہیں لیکن اس لازمی شرط کے ساتھ کہ انتخابات کی غیرجانبداری میں سرِمو فرق نہ آنے پائے اور یار لوگوں کا خفیہ ہاتھ اپنی کارستانیاں دکھانا بند کر دے…
بعض عمران مخالف حلقوں اور قومی جماعتوں کی جو اگرچہ جمہوریت کے شدت سے حامی ہیں یہ رائے اور خواہش ہے کہ کھلاڑی اور من موجی وزیراعظم کو سکروٹنی کمیٹی کے منکشف حقائق کی روشنی میں قانون کے کٹہرے میں لانے میں دیر نہ کی جائے… میں اس رپورٹ کے منظرعام پر آنے سے پہلے بھی اس رائے کا اظہار کر چکا ہوں کہ ایسا نہ ہونے دیا جائے… پنجاب اور باقی ملک میں بلدیاتی انتخابات سر پر کھڑے ہیں اس کے ڈیڑھ سال کے اندر عام چنائو کا انعقاد ہونے والا ہے اور اگر بغیر کسی غیرآئینی مداخلت کے یہ عمل میں آ گئے تو کھلاڑی موصوف کا امکاناً اس میدان میں بھی وہی حشر ہو گا جس کا تلخ نظارہ وہ اپنے صوبے اور مقبولیت کے صدر مقام صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک بڑے حصے میں دیکھ چکے ہیں تو پھر کیوں نہ اس کی تمام تر قابلیت اور اہلیت کے بارے میں عوام سے کھلا فیصلہ حاصل کر لیا جائے اور آئینی اور جمہوری طریقے سے اسے گھر کی راہ دکھانے کا کھلا موقع فراہم کیا جائے تاکہ وہ جلد برطرفی کے نتیجے میں سیاسی شہید ہونے کا واویلا نہ مچا سکے اور اپنے سیاسی انجام سے بحسن و خوبی دوچار ہو جائے کیونکہ یہی آئینی اور جمہوری قوموں کا وتیرہ ہے آخر امریکیوں نے بھی پہلے چار سال کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی بدمزاجیوں کی بنا پر انتخابی عمل کے ذریعے اسے وہائٹ ہائوس سے رخصت کر دیا تھا ابھی کل کی بات ہے… عمران خان کو بھی جو ٹرمپ صاحب کو اپنا ہم مزاج بتاتا تھا اسی راستے پر چلنے کے ’’باعزت‘‘ مواقع کیوں نہ فراہم کئے جائیں کہ اسی میں پاکستان کے اندر آئین و جمہوریت کی گاڑی کو اپنے ٹریک پر چلنے کی راہ فراہم کی جائے گی۔ایک صحت مند اور پختہ روایت قائم ہو گی… اس سے احتراز کرنا ہرگز قرین مصلحت نہ ہو گا… اس کے بعد اگر سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے مقدمے کا آخری حد تک فیصلہ آ جاتا ہے اور عمران بہادر بے قصور بھی ٹھہرتا ہے تو اس پر دوبارہ انتخابی میدان میں چھلانگ لگانے اور سیاسی مخالفین کا مقابلہ کرنے کے دروازے کھلے ہیں، کس نے روکا ہے…

مصنف کے بارے میں