ڈاکٹرصفدرمحمود …آخری کتاب اور آخری پیغام

ڈاکٹرصفدرمحمود …آخری کتاب اور آخری پیغام

ڈاکٹرصفدر محمودکی وفات پر روزنامہ’’ نئی بات‘‘ نے اپنے اداریے میں لکھاکہ وہ بغیرکسی تصدیق کے نہ کوئی بات لکھتے تھے نہ اس کا ذکرکرتے تھے ۔یہ ایک ایسی خوبی ہے جو ہر مصنف اور محقق میں ہونی چاہیے ۔اسی بناپر راقم کی نگاہ میں وہ عہدحاضرکے ممتازترین کالم نگار اور مصنف تھے۔ان سے پہلی بار براہ راست رابطہ اس وقت ہواجب راقم جامعہ الازہرقاہرہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہاتھا۔مصر میں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ پاکستان کی جدید تاریخ کے بارے میں عربی زبان میں کوئی لٹریچر موجود نہیں ۔قائداعظم اورپاکستان کے بارے میں ساٹھ کی دہائی کے بعدکوئی قابل ذکرکتاب شائع نہیں ہوئی قیام پاکستان کے اسباب سے آگاہ کرنے کے لیے بھی عرب دوستوں کے پاس مناسب لٹریچرموجودنہیں۔ایسے میں راقم کوشاں رہاکہ جہاں تک ممکن ہواس کمی کی تلافی کی جائے ۔جامعہ الازہرمیں چونکہ گریجوایشن اور ایم اے کی سطح تک اردوکی تدریس ہوتی ہے اوراردومیں پی ایچ۔ ڈی کاپروگرام بھی ہے اس لیے یہاں ایم اے اور پی ایچ۔ ڈی کے لیے مقالات بھی لکھے جاتے ہیں ۔ایم اے اردوکے ایک طالب علم اسامہ محمدابراہیم شلبی کے لیے ڈاکٹرصفدرمحمود کی کتاب’’ پاکستان: تاریخ و سیاست ‘‘کا عربی ترجمہ تجویزکیاگیا۔قاہرہ میں ہمارے پاس ان کی اس کتاب کاپانچواں ایڈیشن تھا جو ۱۹۹۶ء میں جنگ پبلشرزلاہورسے شائع ہواتھا۔ سوال یہ تھاکہ کیایہ اس کتاب کی آخری اشاعت ہے اور اگر یہ کتاب اس کے بعد بھی شائع ہوئی ہے تو کیافاضل مصنف نے اس میں کوئی ترمیم و اضافہ کیاہے یانہیں ؟ یہ جاننے کے لیے نیز ان کے سوانحی کوائف اور دیگر تصانیف کی فہرست کے حصول کے لیے راقم نے انہیں قاہرہ سے ایک خط لکھا۔یہ ۲۸؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کی بات ہے ۔جس کا جواب ای میل سے آیا ۔کتاب کے ترجمے کے دوران عزیزم اسامہ سے ہرہرمرحلے پر گفت و شنیدرہی ۔وہ جن حصوں کا ترجمہ کرتے ان پر گفتگوہوتی اور ترمیم وتبدل کا عمل ہوتا ۔اسامہ کے طریق کار سے ایک ذمہ دار مترجم ہونے کااظہارہوتاتھا ۔الفاظ کے مطالب میں تو انہوں بالعموم دقت نہ ہوتی لیکن وطن عزیز کی سیاسی اصطلاحات اور اداروں کے مخففات ان کے لیے دشواری کا باعث ہوتے تھے۔ ایسے میں راقم ان مخففات و اصطلاحات کو کھول کر ان کا پس منظر بتاتاتووہ ترجمے کی ان کٹھنائیوں کو بھی سرکرلیتے تھے ۔بالآخر ان کا یہ کام فروری ۲۰۱۱ء میں ’’ کتاب پاکستان تاریخ و سیاست لصفدرمحمود ۔دراسۃ تحلیلیۃ وترجمۃ الکتاب ‘‘کے زیرعنوان مکمل ہوا اور انہیں ایم اے کی سندمل گئی۔راقم نے سفارت خانہ پاکستان کو اس ترجمے کی اشاعت کی جانب متوجہ کیا لیکن وہاں اس کام کی قدرجاننے والاکوئی نہ تھا۔راقم ۲۰۱۱ء میں اپنے قیام مصر کی معیاد پوری کرکے وطن واپس آگیا۔ اسی سال اسامہ پاکستان آئے اوراس ترجمے کا ایک نسخہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے ہمراہ لائے، چنانچہ میںنے ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا وقت لیا اور ہم دونوں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے ہمارے لیے جم خانہ میں لنچ کا اہتمام کیاتھاجہاںیہ ترجمہ ان کی خدمت میں پیش کیاگیا جس سے وہ خوش ہوئے ۔
ڈاکٹرصاحب کے ساتھ جب مصرسے رابطہ کیاگیاتھا تو انہوںنے اس کام میں کسی خاص دلچسپی کا اظہارنہیں کیاتھا لیکن اب جب اپنی کتاب کا ترجمہ عمدگی کے ساتھ مکمل صورت میں دیکھاتو انہیں اس سے دلچسپی پیداہوئی اور وہ اس کی اشاعت کے امکانات پر بات کرتے رہے۔راقم ۲۰۱۵ء میں ایک بار پھر مصر گیا ۔اب وہاں کے پاکستانی سفارت خانے میں کچھ نئے لوگ آچکے تھے ۔راقم نے ان لوگوں کو بھی اس کام کی اہمیت سے آگاہ کیا۔کچھ نوجوان سفارت کاروں نے اس میں دلچسپی کاا ظہار کیا جس پر میںنے اسامہ کو ہدایت کی کہ وہ کتاب کی کمپوزنگ پاکستانی سفارت خانے کے ان حکام کو پہنچادیں ۔جس پر اسامہ رابطے اور ملاقات کی کوشش کرتے رہے لیکن بیوروکریٹک آداب نے انہویں باریابی تک کا موقع نہ دیا۔چندبرس کے بعد اسامہ ایک بار پھر پاکستان آئے۔ اب وہ ڈاکٹراسامہ محمدابراہیم شلبی تھے ،راقم نے پنجاب یونی ورسٹی نیوکیمپس میں ان کے قیام کاانتظام کیاتھا ڈاکٹر صاحب ان سے ملنے کے لیے نیوکیمپس تشریف لائے انہیں ہمراہ لے کر ایک بار پھر کھانے کے دعوت پر لے گئے ۔ 
اس کے علاوہ چندبرس ادھر جب لاہور کے ایک ’’تاریخ دان‘‘ نے یہ دعویٰ کیاکہ قراردادپاکستان سرظفراللہ کی تصنیف تھی تو جن لوگوں نے اس مضحکہ خیز دعوے کا جواب دیاان میں ڈاکٹر صفدر محموداور ان سطور کاناچیز راقم بھی شامل تھے ۔قراردادپاکستان کو برطانوی سامراج کے تخیل کا نتیجہ قراردینے کا تخیل دراصل ولی خان صاحب کا تھا جنہوںنے ایک انٹرویومیں یہ ’’انکشاف‘‘کیاکہ برطانوی وائسرائے لارڈ لنلتھگوکے ایما پر سر ظفراللہ نے ایک  یادداشت لکھی اور’’ مسلم لیگ نے یہی منصوبہ لاہورمیں قرارداد پاکستان کے نام سے اپنے سالانہ اجلاس میں منظور کرلیا‘‘اس انٹرویو کی اشاعت سے ایک طویل بحث نے جنم لیا اور اس کے ایک عرصے کے بعد خان عبدالولی خان صاحب نے اپنے نتائج فکر ایک کتاب کی صورت میں پیش کردیے جس میں قراردادپاکستان کے بارے میں محولہ بالا خیالات دہرائے گئے (خان عبدالولی خان، حقائق حقائق ہیں راولپنڈی:دیرہائوس ۱۹۸۸ء ص ۶۰،۶۱)تاریخ دان موصوف  نے ۲۰۱۷ء میں انہی خیالات کو اپنی تحقیق کے طور پر پیش کردیا جس پرایک دوسری بحث نے جنم لیا ۔اس بحث کے دوران ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نے اپنے کالم میں سرظفراللہ کے ایک بیان کا حوالہ دیاجو ان کے مطابق ۲۱ دسمبر ۱۹۸۱ء کے روزنامہ ’’ڈان ‘‘ میں شائع ہواتھا(روزنامہ جنگ لاہور ۳۱ مارچ ۲۰۱۷ء) راقم نے روزنامہ’’ ڈان‘‘ کے فائلوں میں ۲۱دسمبر ۱۹۸۱ء کا شمارہ تلاش کیاتو اس میں اس نوعیت کی کوئی تحریر موجود نہیں پائی گئی ۔ڈاکٹر صاحب سے اس بات کا ذکرکیاگیا کہ آپ نے ڈان کے جس شمارے کا حوالہ دیاہے اس میں ایساکوئی بیان موجودنہیں ہے تو انہوںنے  فرمایاکہ میرا مآخذ شریف الدین پیرزادہ ہے، پیرزادہ بہت ذمہ دار محقق ہے وہ غلط نہیں ہوسکتا ۔راقم نے عرض کیا کہ ایساگمان ہوتاہے کہ یہاں پیرزادہ صاحب سے غلطی ہوگئی ہے کیونکہ میںنے ۲۱ دسمبر ۱۹۸۱ء کے ’’ڈان‘‘ کا ایک ایک کالم دیکھ لیا ہے، اس شمارے کا اداریہ، مضامین، حتیٰ کہ اشتہارات تک دیکھ لیے ہیں، اس میں ایساکوئی بیان شائع نہیں ہوا۔ڈاکٹر صاحب راقم کے اعتراض پرحیران تھے اور ان کا اصرار اپنی جگہ قائم تھا۔راقم  نے ان کے مآخذ شریف الدین پیرزادہ کو کھنگالاتو ڈاکٹر صاحب کا یہ ارشادتودرست نکلا کہ پیرزادہ نے یہی لکھاہے۔ شریف الدین پیرزادہ صاحب نے اپنی کتاب میں یہی تاریخ لکھی تھی (Evolution of Pakistan Karachi 1995 P 208) لیکن بہرحال اس معاملے میں پیرزادہ ایک ثانوی مآخذ تھے اورتحقیق میں کسی بات کی حقیقت جاننے کے لیے اس کے بنیادی مآخذ تک پہنچاجاتاہے یہاں بنیادی مآخذ روزنامہ ’’ڈان ‘‘تھا، پیرزادہ نہیں چنانچہ راقم اس تاریخ کی غلطی معلوم ہوجانے کے بعدبھی ’’ڈان ‘‘ کے صفحات میں سرظفراللہ کا بیان تلاش کرتارہا ۔دی گئی تاریخ سے ملتی جلتی تاریخوں کے شمارے بلکہ مہینے بدل کر بھی ڈان کے فائل دیکھ ڈالے ۔اس تمام تحقیق کے نتیجے میں معلوم ہواکہ یہ بیان ’’ڈان ‘‘ کی محولہ بالااشاعت میں نہیں بلکہ روزنامہ ’’ڈان ‘‘کے ۲۵ دسمبر۱۹۸۱ء کے شمارے میں شائع ہوااورپیرزادہ صاحب کی کتاب میں یہ بیان پورے طور پر نقل بھی نہیں ہوسکاجب کہ اس بیان میں سرظفراللہ کے نوٹ کی، قراردادپاکستان میں شمولیت کے امکان کو کلی طور پر مسترد کرتے ہوئے جو دلائل دیے گئے ہیں وہ خاصے وقیع ہیں۔ راقم نے اس تاریخ کی تصحیح کرتے ہوئے سر ظفراللہ کے نوٹ بعنوان Zafrullah denies submitting any partition formula میں بیان کردہ دوسرے نکات بھی اپنے کالم میں شائع کردیے ۔یہی نہیں اس بیان پر زیڈ اے سلہری کا ردعمل اور اس جواب پر سرظفراللہ کا جواب الجواب بھی پیش کردیاجس میں سرظفراللہ جو اب تک قراردادپاکستان سے اپنے تعلق کی تردید کرتے رہے تھے  اب اس سے اپنا رشتہ جوڑنے پر مائل دکھائی دے رہے تھے۔ سرظفراللہ کی اس قلابازی پر انہی دنوں مرحوم وارث میر نے ’’نوائے وقت‘‘ کے صفحات پرگرفت کی تھی۔راقم نے جب درست تاریخ دریافت کرلی تو ڈاکٹر صاحب کو آگاہ کیا گیااور ڈاکٹر صاحب کو  ’’ڈان ‘‘ کے متعلقہ صفحے کی تصویربھجوائی گئی جس پر وہ اش اش کراٹھے اور انہوں نے بڑی فراخ دلی سے راقم کی تحقیق کا اعتراف کیا۔یہ اعتراف زبانی بھی تھااور تحریری بھی۔ انہوں نے اپنے کالم میں لکھاکہ زاہدمنیرنے تحقیق کا حق اداکردیاہے۔ یہ کالم اب ان کی آخری کتاب کتاب ’’سچ تو یہ ہے ‘‘ میں بھی شامل ہے ۔ اس کے بعد وہ کہاکرتے تھے کہ اقبال، قائداعظم اور پاکستان کے دفاع سے متعلق اب ہمیں کوئی فکر نہیں ہمارے بعد زاہد منیر عامر موجود ہے۔یہ بات دراصل ان کی اپنی بلند نگاہی اور وسعت ظرف کی دلیل تھی ۔وسعت ظرف کا ایسامظاہرہ سچے اہل علم ہی کیاکرتے ہیں۔ان کی کتاب ’’سچ تویہ ہے‘‘ شائع ہوئی تو راقم نے روزنامہ’’ نئی بات‘‘ میںاس پر ایک کالم لکھا افسوس کہ یہ ان کی آخری کتاب ثابت ہوئی ۔ان دنوں وہ بیمارہوکر علاج کے لیے امریکاجاچکے تھے۔ انہوںنے وہاں سے جو پیغام بھیجااس سے ان کی طبیعت کے انکسار اور علم دوستی کا اندازہ کیاجاسکتاہے ۔اس پیغام میںعلامہ صاحب سے ان کی مراد قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل کے مہتمم علامہ عبدالستار عاصم صاحب ہیں جنہوںنے ان کی کتاب ’’سچ تو یہ ہے‘‘ شائع کی تھی ۔اب ڈاکٹرصاحب کا آخری پیغام ملاحظہ فرمائیں :
’’ڈاکٹر صاحب ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔آپ کا بہت شکریہ… یقینا آپ نے جو محبت فرمائی اس کا ذکر مجھ سے علامہ صاحب کر چکے تھے۔ یہ آپ کی محبت ہے اورآپ کی  شفقت ہے کہ آپ نے میری حوصلہ افزائی فرمائی اور کتاب کے بارے میں آپ نے بہت فراخ دلی سے ،میری حوصلہ افزائی فرمائی۔ یہ مجھے علامہ صاحب نے بتایا تھا۔ میں آپ کا ممنون ہوںاور اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ میں اگر جلدی ٹھیک ہوگیا تو ان شاء اللہ ان کو چیزوں کو خود پڑھوں گا۔ اس وقت تو میں اس قابل نہیں۔ فی الحال میرا شکریہ قبول کیجیے۔ میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے میری حوصلہ افزائی کی، میری عزت افزائی کی۔‘‘
یہ ڈاکٹر صاحب کی آخری یاد ہے اس کے بعد ان کی طبیعت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ وہ پاکستان واپس آئے لیکن یوں کہ ہم انہیں دیکھ سکے نہ ان کی بات سن سکے وہ ایک طویل سکتے میں رہ کر ۱۳ستمبر ۲۰۲۱ء کوہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے ۔یوں ہم اس آوازہی سے نہیں ایک سچی صاحب علم اور صاحب دل پاکستانی شخصیت سے محروم ہوگئے ۔