اعتماد کے ووٹ میں ناکامی کے بعد

اعتماد کے ووٹ میں ناکامی کے بعد

ہماری ہئیت حاکمہ بھی ہماری معیشت اور سیاست کی طرح مشکلات کا شکار ہے تمام قابل ذکر چھوٹی بڑی سیاسی، علاقائی، لسانی اور قومی جماعتیں کسی نہ کسی انداز میں حکمرانی میں شریک ہیں، پیپلز پارٹی، نواز لیگ، فضل الرحمن کی پارٹی، پی ٹی آئی، قائداعظم لیگ، جمعیت علما پاکستان، اہل حدیثوں اور اہل تشیع کی سیاسی نمائندہ جماعتیں بھی اقتدار میں شامل ہیں۔ تمام سیاسی خاندان اور ان کے ہما شما بھی اقتدار میں شامل ہیں اس کے باوجود سیاسی معاملات درست سمت میں جاتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ مرکز میں نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کی تیرہ جماعتیں اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں 70 سے زائد افراد پر مشتمل کابینہ ہے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ق لیگ اور پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت ہے جبکہ خیبر پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے یہ دونوں صوبائی حکومتیں مرکزی حکومت کے خلاف متحرک ہیں۔ مرکز کے آئینی احکامات ماننے سے انکاری ہیں حد تو یہ ہے کہ ق لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان بھی منافقت عروج پر ہے عمران خان اپنے مبینہ قتل کی ایف آئی آر درج نہ کرا سکنے کا واویلا کرتے پائے جا رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر آباد کس کے انتظامی کنٹرول میں ہے؟ ایف آئی آر درج کرنے والے کس کے ماتحت ہیں؟ عمران خان نجانے کس کے خلاف واویلا کر رہے ہیں دراصل وہ کسی کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کسی کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں صوبے میں ان کی اتحادی حکومت قائم ہے جس کے سربراہ منجھے ہوئے سیاستدان چودھری پرویز الٰہی ہیں جو خود بھی عمران خان کے ساتھ وفاداری اور تابع داری کا بار بار اعلان کرتے ہیں جبکہ ان کا صاحبزادہ مونس الٰہی تو عمران خان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہے۔
صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور ایم کیو ایم یہاں ان کی حقیقی حریف کے طور پر میدان میں موجود ہے لیکن یہ دونوں متحارب جماعتیں مرکز میں اتحادی اور شریک اقتدار ہیں۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومتیں ہیں۔ یہ ساری ہئیت حاکمہ غیرفطری دکھائی دیتی ہے۔ ہم نے تاریخی اعتبار سے دیکھا ہے کہ آزاد کشمیر اور جی بی میں عموماً وہی جماعت حکمران ہوتی ہے جس کی مرکز میں حکومت قائم ہو کیونکہ کشمیر اور جی بی دراصل مرکز سے ہی مالی و سیاسی قوت و معاونت حاصل کرتے ہیں دوسری طرف مرکز اور پنجاب میں ایک ہی جماعت کی حکومتیں ہی سیاسی استحکام کی ضمانت سمجھی جاتی ہیں۔ حالات حاضرہ میں ایسا نہیں ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ انتشار کا شکار ہے کہ اسے مرکز کی معاونت حاصل نہیں ہے مرکز اس کی معاونت اس لئے نہیں کر رہا ہے کہ صوبائی حکومت اسے جائز حکومت ہی تسلیم نہیں کرتی ہے مرکز اور صوبے کے درمیان عدم تعاون عامتہ الناس کے مصائب میں مزید اضافے کا باعث بن رہا ہے ایسی ہی صورت حال مرکز اور کے پی کے کے درمیان پائی جاتی ہے صوبہ خیبر پی کے کی حکومت مرکزی حکومت کی قومی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے سے انکاری ہے جس کے باعث دہشت گردی سے نمٹنے کی کاوشیں کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ پنجاب میں ق لیگ اور پی ٹی آئی کا حکمران اتحاد بھی، داخلی انتشار کے باعث ڈلیور کرنے میں ناکام نظر آ 
رہا ہے چودھری پرویز الٰہی کی ق لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہے چودھری شجاعت کا دھڑا مرکز میں ن لیگ کا اتحادی ہے جبکہ پنجاب میں ق لیگ چودھری پرویز الٰہی کی قیادت میں عمران خان کی پی ٹی آئی کے حلیف بنے ہوئے ہیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ق لیگ کے دس ایم پی اے کس کے حکم کے پابند ہیں۔ پارٹی سربراہ چودھری شجاعت کے یا پارلیمانی لیڈر چودھری پرویز الٰہی کے۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کا مؤقف اور ہے جبکہ عدالت اس بارے میں کچھ اور رائے رکھتی ہے۔ نتیجتاً بے یقینی بڑھتی چلی جا رہی ہے چودھری پرویز الٰہی دھڑا دھڑ ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کر رہے ہیں۔ فیتے کاٹ رہے ہیں بجٹ دینے کا اعلان کر رہے ہیں جس کے باعث ان کی اتحادی جماعت کے ایم پی اے ناراضی کا اظہار بھی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق عمران خان نے اپنے وزرا کو چودھری پرویز الٰہی پر کڑی نظر رکھنے کا بھی کہہ دیا ہے اور ساتھ ہی اعلان کر دیا ہے کہ وہ 11 جنوری سے پہلے پہلے اعتماد کے ووٹ کو یقینی بنائیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چودھری پرویز الٰہی اعتماد کے لئے 186 ممبران اسمبلی کی حمایت حاصل کر سکیں گے یا نہیں۔ قرائن یہ بتاتے ہیں کہ ایسا ہونا سردست ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔ کیونکہ کچھ ممبران تو کہہ بھی چکے ہیں کہ وہ اسمبلی کی تحلیل کے حق میں نہیں ہیں وہ چاہتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی اپنی طے شدہ مدت پوری کرے اس لئے چودھری پرویز الٰہی جو اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اسمبلی کی تحلیل کے لئے گورنر کو چٹھی لکھنے کے عمران خان کے حکم پر عمل درآمد کرنے کی پابندی کا اعلان کر چکے ہیں کو اعتماد کا ووٹ نہیں دیں گے مجلس وحدت اسلامی کی زہرا بی بی واضح طور پر چودھری صاحب کو ووٹ دینے کی جماعتی پالیسی کا اعلان کر چکی ہیں۔ پی ٹی آئی کی مومنہ وحید بھی ایسا ہی اعلان کر چکی ہیں۔ دوسری طرف وسطی پنجاب کے متحدہ محاذ کے اراکین اسمبلی جنہیں جہانگیر ترین عمران پارٹی میں لائے تھے، بھی بغاوت کرنے کے لئے تیار ہیں۔ علیم خان گروپ کے اراکین بھی چودھری پرویز الٰہی کو ووٹ نہ دینے کے لئے متحدہو چکے ہیں۔ ایسی صورت میں چودھری صاحب کو ”اعتماد کا ووٹ“ ملتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ دوسری طرف پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی نئے وزیراعلیٰ پنجاب کے اعتماد کے ووٹ کے لئے گنتی پوری کرنے میں مصروف ہیں اس حوالے سے ایک دو ناموں کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ آنے والے چند دن خاصے بھاری نظر آ رہے ہیں۔
مسلم لیگ ن اپنے پارٹی رینکس کو متحد و منظم کرنے میں فعال ہو چکی ہے۔ مریم نواز کا پارٹی کا چیف آرگنائزر کا تقرر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ نوازشریف نے پارٹی کو ہنگامی بنیادوں پر منظم کرنے کے احکامات بھی جاری کر دیئے ہیں۔ دوسری طرف پنجاب اسمبلی میں اپنے ممبران کو لاہور ہی میں رہنے کی ہدایات بھی جاری کر دی گئی ہیں۔ رانا ثنااللہ صورت حال کے کسی بھی وقت سنگین ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔
سیاسی جنگ کی صورت حال تیزی سے اپنی فطری اور قدرتی منزل کی طرف جاتی نظر آ رہی ہے۔ پنجاب میں ق لیگ اور پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت غیرفطری ہے اور ان دونوں جماعتوں کا اتحاد بھی غیرفطری ہے اس لئے اتحاد میں دراڑ پڑ چکی ہے اور سر پھٹول بھی ہو رہا ہے چودھری پرویز الٰہی اپنے آپ کو ق لیگ کا ہی وزیراعلیٰ سمجھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف وہ پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی مذاکرات کے ذریعے اپنی نشستیں پکی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی بری طرح پھنسی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ عمران خان کی مرکز سے مستعفی ہونے کی پالیسی نے بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں دیا ہے پھر انہوں نے پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا آخری پتا بھی استعمال کر کے دیکھ لیا ہے انہیں سردست کامیابی ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ کے پی کے والے کہتے ہیں کہ پہلے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان ہونا ضروری ہے جو ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔ چودھری صاحب وفاداری اور فرماں برداری کا اعلان تو بار بار کر رہے ہیں لیکن اسمبلی توڑناکا اعلان کرنا تو دور کی بات عمران خان کے قتل کی ایف آئی آر بھی درج نہیں کر سکے ہیں۔ ایسے حالات میں عمران خان کی بے بسی دیدنی ہے۔ ایک تو اعتماد کا ووٹ لینا ممکن نظر نہیں آ رہا دوسری طرف وہ اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ایسے میں عمران خان کی سیاست کمزور بلکہ بے بس نظر آ رہی ہے۔ اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نظر نہیں آ رہا ہے کہ عمران خان اسمبلی نہ توڑے جانے کی صورت میں اپنے اسمبلی ممبران کے استعفوں کا اعلان کر کے سیاسی صورت حال میں مزید انتشار پیدا کر دیں ایسا ممکن ہو سکتا ہے کیونکہ عمران خان اسی قسم کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔