چیف سیکرٹری،سسٹم پر عمل درآمد کرائیں

چیف سیکرٹری،سسٹم پر عمل درآمد کرائیں

 کسی بھی ریاست میں نظام سلطنت چلانے کیلئے ضرورت کے مطابق فیصلے کرنا ناگزیر ہوتا ہے،حالات اور دستیاب فنڈز کی روشنی میں طویل اور مختصر المیعاد منصوبے بھی بنائے جاتے ہیں مگر جو جذبہ کسی ریاست کی ترقی و خوشحالی کیلئے ضروری ہوتا ہے وہ اخلاص،اہلیت،دیانتداری ہے ،یہ خصائص نہ ہوں تو کوئی قوم ترقی و خوشحالی کی منزل حاصل نہیں کر پاتی،نتیجہ آف شور کمپنیوں کی شکل میں نکلتا ہے، قومی دولت کی بیرون ملک منتقلی ہوتی ہے،منی لانڈرنگ، کک بیکس کی روایت جنم لیتی ہے،روس اور چین کی مثال حال ہی کے دور میں ہمارے سامنے ہے،روس کی قیادت جب تک اہل،دیانتدار،محب وطن افراد کے ہاتھ میں رہی روس سوویت یونین بن گیا،دنیا کی دوسری دفاعی طاقت کے طور پر سامنے آیا،لیکن جیسے ہی قیادت میں ٹیڑھ آیا سوویت یونین جس کی تشکیل میں 70سال لگے تھے لمحوں میں سائبیریا کے سرد جنگلات کی ریت کی طرح بکھر کر رہ گیا،دوسری طرف چین میںآج بھی قیادت مخلص،عوام دوست،محب وطن ہے نتیجے میں چین جس نے ہم سے ایک سال بعد آزادی حاصل کی آج دنیا کی بڑی معیشت اور دفاعی طاقت ہے،یہ بھی واضح رہے کہ ان دونوں ممالک میں مروج نظام انتہائی استحصالی اور شخصی آزادیوں کو پامال کرنے والا تھا،آخر کار ان ممالک کی قیادت نے نظام میں بھی لچک پیدا کر کے بنیادی انسانی حقوق اور آزادیوں میں اضافہ کیا جس کے بعد یہ ممالک آج بھی معاشی اور اخلاقی دیوالیہ پن سے بہت دور ہیں۔
 بقراط نے کہا تھا نظام جس قدر بھی شاندار ہو اگر قیادت نا اہل ہے تو اس سے فوائد حاصل کرنا ممکن نہیں لیکن نظام اگر ظالمانہ بھی ہو اور قیادت منصف، عادل، اہل،دیانتدار ہو تو عوام کو ریلیف دینا ممکن ہے،وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے بھی اخلاص اور دیانت و اہلیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تین سال کا عرصہ صرف ٹیم تشکیل دینے میں لگا دیا،آج ان کے پاس ایسی ٹیم ہے جو لولے لنگڑے نظام میں بھی عوام کو سہولیات دینے کا عزم لئے ہو۔ئے ہے،نئے چیف سیکرٹری پنجاب کامران علی افضل نے آخر کار وہ کام شروع کر دیا جو بہت پہلے انتظامی مشینری کو شروع کرنا چاہئے تھا،چیف سیکرٹری نے گوجرانوالہ ضلعی ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا،ہسپتال کے انتظامات ،مریضوں کو دی جانے والی سہولیات،صفائی،عملہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا،ضروری فنڈز دینے کا وعدہ کیا اور اچھی کارکردگی پر ڈاکٹروں اور عملہ کی توصیف کی،اگر چہ اس اقدام سے کسی کا کوئی مالی فائدہ نہیں ہوامگر عملہ کی حوصلہ افزائی ہوئی جس کے بعد ان کی کار کردگی میں مزید بہتری آنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
 تحریک انصاف حکومت سے عوامی امیدیں اور توقعات دوچند ہیں،خاص طور پر ایک ایسے وزیر اعلیٰ سے جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتا اور دیہی روایات کا امین ہے،ان توقعات کو عملی شکل دینے کیلئے کوشش بھی دوچند کرنا ہو گی اور عثمان بزدار کیلئے اکیلے یہ ممکن نہیں،انتظامی مشینری کو ان کے شانہ بشانہ چلنا ہو گا،دراصل انتظامی مشینری ہی حکومت کا چہرہ ہوتی ہے،یہ سرکاری مشینری حکومتی اصلاحات کو عملی شکل دیتی ہے عوام کے مسائل براہ راست اور فوری حل کرنا اس کی ذمہ داری ہے مگر ماضی میں سیاسی اور حکومتی شخصیات نے اپنی ذات کو مرکز و منبع بنا کر بیوروکریسی اور سرکاری مشینری کی اہمیت کو قریباً ختم ہی کر دیا تھا،نتیجے میں سرکاری اور انتظامی مشینری نے بھی خود کو الگ تھلگ کر لیا،عوام سے رابطے ختم کر لئے اور حکمرانوں کی جی حضوری کی جانے لگی،مگر عثمان بزدار نے ان کو اختیار اور اعتماد دیا،ہدف دیا،اچھی کار کردگی پر اعزاز و اکرام کا وعدہ کیا جس کے نتیجے میں آج صوبائی اور ضلعی انتظامیہ عوام کی خدمت میں مصروف دکھائی دیتے ہیں،یہ سلسلہ اگر پہلے شروع کر دیا جاتا تو آج نتائج بہت مختلف مگر خوشگوار ہوتے۔
 عوامی خدمت،ریلیف اور ڈیلیور کرنے میں اگر چہ محکموں کو بھی کچھ مسائل کا سامنا ہے،اس کا واحد حل یہ ہے کہ جو بھی سسٹم ہے اس پر نیک نیتی،اخلاص اور دیانت داری سے عمل کیا جائے،جہاں کوئی اڑچن آتی ہے مشکل درپیش ہوتی ہے مسائل سامنے آتے ہیں ان کی نشاندہی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو کی جائے تاکہ وہ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے قانون سازی کریں یا کوئی انتظامی آرڈر جاری کریں،عملدرآمد سے پہلے سسٹم پر نقطہ چینی احمقانہ ہو گی،یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ماضی میں تبادلوں کا جمعہ بازار لگایا گیا،یہ جانے بغیر کہ کس افسر کی اہلیت قابلیت اور استعداد کیا ہے اس کا بیک جنبش قلم صرف ایک شکائت یا شک پر تبادلہ کر دیا جاتا تھا،یہ طریقہ بھی عزت نفس کو مجروح کرنے والا تھا جس سے گریز کیا جانا چاہئے، پنجاب میں حالیہ تبادلوں پر عمومی طور پر اچھا تاثر پایا جا رہا ہے اور نئی تعیناتیوں میں صوبائی سروس کا حصہ بھی قابل تعریف ہے۔اس کے ساتھ ساتھ عوامی مسائل کا ادراک بھی ضروری ہے جسے معلوم ہی نہ ہو عوام کن مشکلات سے دوچار ہیں وہ عوامی مسائل کا حل نہیں تلاش کر سکتا،اس کیلئے ضلعی افسروں کو عوام سے رابطے بڑھانا ہونگے جیسے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے ہر ڈپٹی اور اسسٹنٹ کمشنر کو اپنے اپنے علاقہ میں کھلی کچہری لگا کر موقع پر عوامی مسائل حل کرنے کی ہدائت کی ہے،اگر اس پر بھی عملدرآمد ہو جائے تو عوامی مسائل مختصر مدت میں حل ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔
 انہی سطور میں پہلے بھی نشاندہی کی جا چکی ہے کہ انگریز دور میں ہر محکمہ،تھانہ،سرکاری افسر کے دفتر کے باہر ایک شکایت بکس رکھا جاتا تھا جس میں عوام اپنی شکایات لکھ کر ڈال دیتے تھے،اس بکس کو متعلقہ افسر یا اس کا مجاز نمائندہ کھولتا تمام شکایات متعلقہ افسر کو پیش کی جاتیں جو موقع پر ہی احکام جاری کرتا اور شہری کا مسئلہ فوری حل کر دیا جاتا تھا،آج بھی قریباً ہر دفتر میں شکایات کیلئے ایک رجسٹر رکھا جاتا ہے مگر اس پر دفتر کا عملہ قابض ہوتا ہے عام شہری کی اس تک رسائی ہی نہیں ہوتی تو کوئی شکایت کیا درج کرے،لہٰذا رجسٹر کی جگہ باکس نصب کی جا ئے اور چابی مجاز افسر کی دسترس میں ہو ہر ہفتہ اپنی نگرانی میں بکس کھلوا کر شکایات نکلوائے خود پڑھے اور کارروائی کرے تو بہت سے مسائل از خود حل ہو جائیں گے،محکمانہ ضوابط میں خامیاں ہوتی ہی ہیں اسی لئے ترمیم کی گنجائش رکھی جاتی ہے مگر ان خامیوں کی نشاندہی پسند نا پسند پر نہیں عملدرآمد کے بعد ہونی چاہئیں،سرکاری افسروں کی عوام تک رسائی ہونی چاہئے اس حوالے تمام متعلقہ افسروں کو پابند کیا جائے کہ وہ عوام سے براہ راست رابطہ رکھیں اور ان کے مسائل موقع پر جا کے حل کرنے کی روایت اپنائیں،مجاز افسروں کو اپنے دفاتر میں کم از کم دو گھنٹے عوام سے ملاقات کا پابند کیا جائے تاکہ ان کے دفاترآنے والے اپنی مشکلات بیان کر سکیں اور ماتحت عملہ اگر کہیں گڑ بڑ کر رہا ہے تو اس کی نشاندہی کریں۔