ایک زرعی ملک میں روٹی کی قلت کیوں؟

ایک زرعی ملک میں روٹی کی قلت کیوں؟

بلا شبہ مہنگائی، بے روزگاری، خوراک کی کمی اور بھوک اب صرف تیسری دنیا میں شامل ممالک کا مسئلہ نہیں رہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں تقریباً 811ملین لوگ ہر رات کو بھوکے سونے پر مجبور ہیں اور جو لوگ مستقل بنیادوں پر خوراک کی کمی یا اس کی عدم دستیابی کے خوف میں مبتلا ہیں ان کی تعداد اس سے دوگنا زیادہ ہے۔ادارہ نے اپنی رپورٹ مین اس بڑھتی ہوئی بھوک، غربت اور افلاس کی بڑی وجوہات میں روس،یوکرائین جنگ، تیزی سے بدلتے ہوئے موسمی حالات اور قحط سازی اور بڑھتے ہوئے وبائی امراض کو قرار دیا ہے لیکن کرپشن، بے ایمانی، ذخیرہ اندوزی اور استحصال جیسی باتوں کا کوئی ذکر نہیں۔ 
اگر ورلڈ فوڈ پروگرام کی بتائی گئی وجوہات پر ہی غور کریں تو کم از کم میں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پاکستان جیسے زرعی ملک پر ان باتوں کا، کسی حد تک تو سہی لیکن، بے پناہ اطلاق کیسے ہوتا ہے۔ 
ایک زرعی ملک ہونے کے باجود اگر پاکستان میں خوراک انتہائی مہنگی اور عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے تو یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب حکومت وقت کو دینا چاہیے۔ ہمارے ہاں ایک طرف تو کسان سے کوئی مناسب داموں پر اور باعزت طریقے سے گنا خریدنے کے لیے تیار نہیں تو دوسری طرف چینی کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ حکومت ہر سال ریکارڈ گندم کی پیداوار کے دعوے کرتی ہے اور حال یہ ہے کہ ہمارے ہاں روٹی تک عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو گئی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال سبزیوں اور پھلوں کی ہے کہ پیداوار کرنے والا بھی رو رہا ہے اور ان کا گاہک 
بھی۔یعنی پیداوار کرنے والے کو فصل کے مناسب ریٹ نہیں مل رہے اور یہی اشیا استعمال کرنے والے کی قوت خرید سے باہر ہیں۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ کہیں نا کہیں کوئی نا کوئی گڑ بڑ تو ضرور ہے۔ 
 اگر بات کی جائے موسمی حالات اور قدرتی آفات کی تو اس کا زیادہ اثر تو گزشتہ برس ہی ہوا ہے لیکن یہ مسئلہ تو سالہا سال سے چلا آ رہا ہے اور ان سالوں میں بھی برقرار رہتا ہے جب موسمی حالات مکمل طور پر موزوں اور سازگار ہوں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس ساری صورتحال کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو پیداوار کرنے والوں اور استعمال کرنے والوں کے درمیان میں ہوتے ہیں اور ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کے ذریعے غیر حقیقی مہنگائی کی صورتحال پیدا کرتے ہیں۔ ممکن ہے یہ بات کسی حد تک درست ہو لیکن میرے خیال میں ان تمام معاملات کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں براہ راست اور مکمل طور پر ذمہ دار ہیں۔ یہ تمام تر مسئلہ حکومت کی رٹ اور کنٹرول قائم کرنے کی نیت کا ہے۔ 
اگر حکومت آج بھی چاہے تو ان ناجائز منافع خوروں کا سر کچل کر عوام کو سہولت فراہم کر سکتی ہے۔ وقتی طور پر ہی سہی بھارت، روس اور ایران سے سبزیوں،دالوں اور کھانے پینے کی دیگر اشیا کی ٹیکس فری درآمد کی اجازت دی جا سکتی ہے اس کے علاوہ عوام کو سہولت فراہم کرنے کے نام پر جعلی قسم کی سکیموں پر کام کرنے کے بجائے مستحکم بنیادوں پر ایسے منصوبے متعارف کرائے جا سکتے ہیں جن کے ذریعے عوام آدمی کا کم از کم روٹی کا مسئلہ حل ہو جائے۔ اگر خلوص نیت سے عمل کیا جائے تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عوام کی بڑی تعداد بھی حسب توفیق اس میں شامل ہو سکتی ہے۔ 
گزشتہ روز گلشن اقبال میں واک کے دوران ایک سکیورٹی اہلکار سے ملاقات ہوئی جو گزشتہ کئی برس سے ڈیلی ویجز پر ملازم ہے۔ ویسے تو اس کی تنخواہ میں ہر ماہ کسی نا کسی مد میں کٹوتی ہو جاتی ہے لیکن اگر ایسا نا بھی ہو تو اس کی ماہوار تنخواہ چوبیس ہزار دو سو روپیہ ہے۔ اس کا ایک بچہ معذور بھی ہے جس کا علاج چل رہا ہے۔ 
اس گارڈ نے بتایا کہ اس ماہ اس کے بچے کی طبعت ٹھیک نہیں تھی تو اسے ایمرجنسی میں ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑا اور صرف اس ایک وزٹ پر اس کا پانچ ہزار روپیہ خرچ ہو گیا۔ یعنی چوبیس ہزار میں سے پانچ ہزار تو مہینہ کے آغاز میں ہی علاج کی نظر ہو گئے۔ اب باقی مہینہ کیسے گزرے گا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے یا اس گارڈ کی فیملی جس نے ان انتہائی محدود وسائل میں مہینہ پورا کرنا ہے۔ 
ایک طرف تو اس گارڈ یا اس جیسے لاکھوں لوگوں کی کہانی ہے جہاں لوگ انتہائی قلیل آمدنی میں گھر کا خرچہ پورا کر رہے ہیں تو دوسری طرف ایک طبقہ ایسا بھی ہے جسے اصراف کے طریقے نہیں ملتے۔ سڑکوں پر کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیاں کی بھر مار، جیولری مارکیٹس اور بہت بڑے بڑے اور مہنگے شاپنگ مالز میں بے پناہ رش مہنگے ترین ہسپتالوں اور سکولوں کے باہر گاڑیوں کی قطاریں یہ ثابت کر رہے ہیں کہ اس ملک میں وسائل کی کوئی کمی نہیں بس تقسیم کے طریقہ کار میں کچھ گڑبڑ ہے۔ 
حالات جس تیزی سے بگاڑ کی طرف جا رہے ہیں اس میں ضروری ہے فوری طور پر ایمرجنسی بریک کا استعمال کیا جائے۔ ویسے تو سماجی بگاڑ کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں کردار اداکرنا ہر کسی کی ذمہ داری ہے لیکن اس کام کا آغازتو حکومت کی سطح پر ہی کیا جانا ہے۔اور اگر فوری طور پر ایسا نہ کیااور ہم سب نے مل کر اسے ذمہ داری کا احساس نہ دلایا تو پھر جو گڑبڑ پیدا ہو گی اس کا نشانہ توخیر پورا معاشرہ ہی بنے گا لیکن سب سے پہلا شکار یہ محلوں میں رہنے والے اور بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرنے ہی ہوں گے۔