عاشقوں کا حج

عاشقوں کا حج

ہر سال حج بیت اللہ پر لاکھوں افراد دنیا کے مختلف ممالک سے شرکت کرتے ہیں، محبت اور خلوص کا یہ عالم ہوتا ہے شرکاء اپنے رب سے رو رو کر مانگتے ہیں، کوئی اپنے رب سے گناہوں کی توبہ، اور کوئی دکھ درد سے نجات مانگتا ہے اللہ بھی اتنا غفور رحیم ہے ایک طرف انسان سوچتا ہے دوسری طرف مراد پوری ہو جاتی کیونکہ مہمان نواز اللہ تعالیٰ ہے اتنی خوبصورت مہمان نوازی ہوتی ہے میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔ حج کرنے کے لئے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللّہ علیہ وسلم، صحابہ اور بزرگوں نے سفر کئے، آج میں تذکرہ کروں گا ان عاشقوں کا جنہوں نے حج کے لئے سفر کئے اور ان کا رہن سہن کیسا تھا، تاکہ ہم بھی اپنے سفر حج میں رہنمائی حاصل کر سکیں۔ ہماری امت کے نیک لوگ جب حج کی ادائیگی کے لیے جاتے تو ان کی کیفیت بڑی عجیب وغریب ہوتی۔ وہ اس احساس کو دل میں بسا کر بیت اللہ شریف جاتے  کہ وہ رب العالمین کی بارگاہ میں حاضری کے لیے جارہے ہیں اور اپنا تن من دھن اس میں لگا دیتے۔ ان کے خشوع ، خضوع، اخلاص، تقویٰ ، توکل ، صبر ، شکر اور محنت وکوشش کا کیا حال ہوتا تھا۔ ان سطور میں آپ کوایسے ہی چند واقعات سنائیں گے۔ وہ جب اپنی پوری جسمانی اور روحانی قوتیں اس کام میں لگا دیتے تھے تو رحمت الٰہی اور مغفرت الٰہی آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرتی تھی۔
 یہ ہجرت کا دسواں سال تھا۔ اس سال 9 ذوالحج کو جمعہ کا دن تھا۔ عرفات کے میدان میں صحابہ کرامؓ کا جم غفیر جمع تھا۔ آج میدان عرفات ایک ایسا منظر دیکھ رہا تھا کہ جس سے بڑھ کرعظمت والا، تقویٰ والا، جلالت وشان والا موقع اس میدان پر پہلے کبھی آیا نہ بعد میں کبھی آئے گا۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد اجتماع تھا۔ اللہ کے رسولؐ اس مجمع کی قیادت فرما رہے تھے۔ میدان عرفات صحابہ کرامؓ کی دعائوں اور التجائوں سے تھرتھرا رہا تھا۔ رحمت الٰہی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر پورے جوش میں تھا۔ ارد گرد کی وادیاں ان عاشقوں کے نغموں سے گونج رہی تھیں۔ دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی سسکیاں عرش الٰہی کو جنبش دے رہی تھیں۔ اللہ کے رسولؐ بھی پورے خشوع وخضوع سے اپنے رب سے سرگوشیاں کررہے تھے۔ پھر آپؐ جبل رحمت پر چڑھے اور ایک لاکھ 40 ہزار کے عظیم الشان مجمع سے خطاب فرماتے ہیں۔ تمام لوگ اپنی تمام تر توجہ آپؐ کی لسان مبارک سے نکلنے والے الفاظ پر مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ یہ انسانی حقوق کا بین الاقوامی چارٹر ہے جو اللہ کے آخری نبیؐ پوری دنیا کے انسانوں کے لیے ارشاد فرما رہے ہیں۔ آپؐ کے کلمات اللہ کی قدرت سے کانوں سے پہلے دلوں تک پہنچ رہے ہیں۔ اگر چہ مجمع بہت بڑا تھا اور موقع بہت اہم تھا ، وہاں کوئی لائوڈ اسپیکر بھی نہیں تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا کرشمہ تھا کہ لسان نبوت سے نکلنے والے الفاظ کی مٹھاس سے لطف اندوز ہوتی ہوئی ہوائیں انہیں اپنے دوش پر اٹھا کر ہر شخص کے کانوں تک پہنچا رہی تھیں اور پیاسے دلوں کو ارشادات نبوت سے سیراب کررہی 
تھیں۔ اسی تاریخی موقع پر اللہ کے رسولؐ پر قرآن کریم کی ایک عظیم آیت کا نزول ہوتا ہے۔ یہ آیت ایک قیمتی موتی اور اللہ کا عظیم احسان تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس آیت کریمہ میں اللہ کے رسولؐ کی اس دار فانی سے روانگی کا بھی اشارہ تھا۔ اس اشارے کا مطلب اہل فہم والہام سمجھ گئے تھے۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام کر دیا اور تمہارے لیے دین اسلام کو بطور طرز زندگی پسند کر لیا۔
یہ آیت کریمہ سنتے ہی فاروق امت عمر بن خطابؓ تڑپ اٹھتے ہیں، ان کا بدن کانپ اٹھتا ہے اور آنسوئووں کی کثرت کے باعث آواز گلے میں اٹک جاتی ہے۔ آپؓ کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ حیرت کی بات ہے! اتنی شاندار، اللہ کے احسان اور مسلمانوں کے لیے خوشخبری سے بھرپور آیت سن کر عمر فاروقؓ نے رونا شروع کردیا۔ اس آیت میں رلانے والی کون سی بات ہے۔ رسول کریمؐ آہستہ سے اپنے ساتھی عمر فاروقؓ سے پوچھتے ہیں: تمہیں کس چیز نے رلا دیاعمر؟۔ عرض کی: یا رسول اللہ! آج سے پہلے ہمیں گاہے بگاہے دین کا کچھ نیا حصہ ملتا رہتا تھا مگر اب جب کہ دین مکمل ہو گیا تو کوئی بھی چیز جب درجہ کمال کو پہنچ جاتی ہے تو پھر اس میں نقص واقع ہونا شروع جاتا ہے۔فاروق اعظمؓ کی عبقریت کے کیا کہنے! آپؓ کی فقاہت وعلمی رسوخ کی کیا بات ہے۔ آپؓ تو ان شخصیات میں سے ہیں جو پردے کے پیچھے چھپے ہوئے حقائق کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے تھے۔رسول اللہ عمر فاروقؓ کی نجابت وذہانت کی تحسین فرماتے ہیں۔ پیارے نبیؐ نے فرمایا: تم سچ کہتے ہو عمر!ہاں اللہ کی قسم! آپؓ نے سچ فرمایا۔ دین میں جس نقص کا آپؓ نے خدشہ ظاہر کیا تھا وہ واقع ہو کر رہا۔ ابن جریر رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس خطبہ حج کے بعد نبی کریمؐ صرف 81 راتیں اس دنیا میں رہے اور پھر اپنے رب کے پاس تشریف لے گئے۔ آپؐ کے دنیا سے جانے کے بعد اس دین میں جو نقص واقع ہوا اس کی تلافی آج تک نہیں ہوسکی۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر حج کیا۔ فاروق اعظمؓ جب حجر اسود کے قریب پہنچے تو اسے بوسہ دیا اور اسے مخاطب کرکے کہنے لگے: ’’میں جانتا ہوں تو ایک پتھر ہے جو نہ نقصان کرسکتا ہے نہ فائدہ دے سکتا ہے، اگر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہیں بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو تمہیں کبھی بوسہ نہ دیتا۔‘‘
سیدنا حکیم بن حزامؓ جلیل القدر صحابی رسول ہیں۔ اللہ نے مال ودولت بھی بہت عطا کررکھا تھا۔ آپؓ حج کے لیے تشریف لے جاتے ہیں۔ ان کے ہمراہ ایک سو اونٹ ہیں جنہیں یوم النحر کو قربان کیا جائے گا۔ ان کے ساتھ ایک سو غلام ہیں۔ جب میدان عرفات میں پہنچتے ہیں تو سو کے سو غلاموں کو اللہ کی رضا کے لیے آزاد کر دیتے ہیں۔ پھر اپنے رب سے ایک دعا مانگتے ہیں: یاا للہ! میں نے ان غلاموں کو تیری خوشنودی حاصل کرنے کے لیے آزاد کیا۔ ہم بھی تیرے غلام ہیں۔ ہمیں بھی اسی طرح جہنم کی آگ سے اور اپنے عذابوں سے آزادی نصیب فرمادے۔ میدان عرفات میں موجود حجاج کرام یہ منظر دیکھ کر اور حکیم کی دعا سن کو زار وقطار رونے لگ جاتے ہیں۔ وہ بھی دعائیں کر رہے ہیں کہ ان کے پاس غلام تو نہیں مگر جہنم سے آزادی کے وہ سب بھی طلب گار ہیں۔
یہ تھی عاشقوں کی حج جن کا مقصد اپنے رب کو خوش کرنا تھا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا اور آخرت میں وہ مقام عطا کیا جو شہنشاہوں کو بھی نہیں ملتا۔
جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی
عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی
دار و سکندر سے وہ مردِ فقیرِ اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد الہٰی

مصنف کے بارے میں