عہدِ حاضر میں اقبالؒ کے نظریہ کی علمی معنویت

عہدِ حاضر میں اقبالؒ کے نظریہ کی علمی معنویت

مغربی علمیات نے محض منطق اور عقل کی بنیاد پر فلسفہ کی بہت بڑی دنیا سجا رکھی ہے جس میں بہت ساری بنیادی خرابیاں پائی جاتی ہیں کیونکہ مغربی علمیات میں قلب و جگر کی آمیزش یکسر مفقود ہے۔ اسی وجہ سے مغربی تہذیب کی تمام بنیادیں ہل چکی ہیں۔ یہ فاتح تہذیب اپنے مادی فلسفۂ حیات میں اب مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جارح تہذیب علم و آگاہی کے فیضان اور انسانی اقدار کو سرے سے رد کر کے صرف انسانی کاوش اور تحقیق کو مواد سمجھ کر ہر جائز و ناجائز طور پر اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یوں دیانتداری اس نے بحیثیت پالیسی اختیار کی نہ کہ اس کو معیار یا اصول بنایا۔ اس طرح مغربی استعماری تہذیب نے تمام کرۂ ارض کو کنٹرول میں رکھنے اور اس پر مکمل تسلط قائم کرنے کے شوق نے ماحولیات کا ایسا سنگین بحران پیدا کیا کہ اب زمین پر انسان کا مستقبل تباہ کن خطرات سے دو چار ہے۔ اب تو مغربی سائنس کا انسدادِ جبر و تشدد کوئی اتفاقی معاملہ نہیں رہا بلکہ بے اعتدال پرست علمیات کی وجہ سے کیمیائی ہتھیاروں کے انبار جمع ہو چکے ہیں جو تمام کرۂ ارض کو کئی بار مکمل تباہ کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اب خود مغربی دانش کدے تک اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی میں جو فساد فی الارض اور ماحولیات میں جو خطرناک اور نا قابلِ اصلاح آلودگی، ایٹمی ہتھیاروں کے انبار کی شکل میں ظاہر ہوئی وہ اسی مغربی نظریۂ علم کی دین ہے۔ اس کے بر خلاف اسلامی علمیات پورے تصورِ کائنات کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ مغربی علم کے مقابلے میں اسلامی نظریۂ علم تمام علوم کے باہم مربوط ہونے پر زور دیتا ہے۔ یہ نظریہ اس امر پر زور دیتا ہے کہ علم کی تمام شاخیں باہم مربوط ہیں تا کہ قرآنی روح ہر شاخ میں رچی بسی ہو۔ لہٰذا اسلام علم حاصل کرنے کو نہ صرف ضروری قرار دیتا ہے بلکہ اس کو عبادت کا درجہ دیتا ہے بشرطیکہ یہ علم اللہ کی خوشنودی اور اس کی مخلوق کی بہتری کے لئے حاصل کیا جائے۔ اسی لئے قرآن کے بتائے ہوئے تمام اقدار کا سیکھنا علم کے زمرے میں آتا ہے۔ علم اور عبادت کو مربوط کر کے اسلام نے یہ واضح کیا کہ فطرت کو صحت مند کیسے بنایا جائے۔ دنیا میں اللہ کا خلیفہ ماحولیات کو پراگندہ کر کے علم حاصل نہیں کر سکتا نہ وہ فن سیکھ سکتا ہے جو فطرت پر فتح حاصل کرنے کی غرض سے سیکھا جائے بلکہ فطرت میں اللہ کی نشاندہی کرنے کے لئے علم سیکھا جا سکتا ہے۔ یہ دو طرفہ عمل مادی دنیا کو مسخر کرنے اور روحانی حقائق تک پہنچنے کا عمل ہے۔ عدل کو مربوط کرنے سے سماجی عدم مساوات کا خاتمہ کرنے، معاشرتی اور معاشی انصاف قائم کرنے کا راستہ ہموار کیا جا سکتا ہے جو ایک آئیڈیل مسلم معاشرے کی صحت مند نشو نما کے لئے درکار ہے۔ تاریخ ہمیں آ گاہی دیتی ہے کہ سائنس جب مسلمانوں کے ہاتھ آئی اور جب تک مسلمانوں کے ہاتھ میں رہی وہ تمام بنی نو انسان کی بہبود کے لئے وقف رہی۔ 
علامہ اقبالؒ اسی تصور علم کے حامی و علمبردار ہیں۔ اقبالؒ نے جس طرح زندگی اور کائنات کو سمجھا اسی طرح نہایت ہی پرخلوص انداز میں پیش کیا۔ انہوں نے الفاظ کی مدد سے اپنی حسیات، تخیلات، ولولوں، امنگوں اور اپنے تجربات سے زندگی کی تعمیری صورت پیش کی ہے۔ اپنے فن کے ذریعے زندگی کو فراوانی اور فروغ بخشا ہے۔ ان کے فلسفے کی بنیاد ہی چونکہ فکر اسلامی پر استوار ہے لہٰذا آپ کا نظریہ علم یا علمیات فکریاتِ اسلامی ہی سے ماخوذ ہے۔ علامہ کا نظریۂ علم ان کے نظریۂ اخلاق کے عین مطابق ہے۔ ان کے نزدیک علم کی گہرائی اور وسعت کے مطابق آدمی کے احساسات اور نظریات میں کشادگی واقع ہونی چاہئے۔ اس میں بقدر علم بہتر انداز میں زندگی بسر کرنے کی اہلیت و صلاحیت پیدا ہونی چاہئے۔ یہ صحیح ہے کہ علم کی وساطت سے رزق کے بہتر وسائل میسر آتے ہیں، علم کی دولت سے ہتھیاروں کے انبار لگائے جا سکتے ہیں۔ علم کی دولت سے آرام وآسائش بھی حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس سب کچھ کا حاصل ہو جانا کسی بہتر انسان ہونے کی دلیل نہیں بلکہ ایک ناتربیت یافتہ انسان علم کو جب صرف تن آسانی کا ذریعہ سمجھ کر دوسروں کے دکھ درد سے بے پروا ہو جائے گا تو پھر وہ خود غرض بن کر اپنی تباہی و بربادی کا سامان پیدا کرے گا۔ علامہؒ کے خیال میں اگر چہ یورپ میں علم و فن اپنے عروج پر ہے لیکن حقیقت میں وہاں انسانیت کی اعلیٰ اقدار کا کہیں نام و نشان تک نہیں ہے۔ یورپ کی مادہ پرستی تمام چیزوں سے بڑھ کر خطرناک ہے۔ وہاں زندگی کاروباری اہمیت رکھتی ہے۔ علم وحکمت، حکومت و سیاست جس پر مغرب کو ناز ہے محض دکھاوا ہے۔ انسانیت کے نام نہاد ہمدرد انسانوں کا گلا کاٹنے اور خون بہانے میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں لیکن دوسری طرف انسانی مساوات اور اجتماعی عدل و انصاف کی تعلیم کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ جب کہ بہت سی سماجی برائیاں اس تہذیب کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ اسی تہذیبِ فرہنگ کی کوکھ سے مغربی اور عہدِ حاضر کا دین بیزار نظامِ تعلیم وقوع پذیر ہوا، جسے استعماری اغراض و مقاصد کے تحت مشرقی اور اسلامی ممالک نے آنکھیں بند کر کے اپنا لیا اور اسی طرح اپنے منہاجِ تعلیم کے مطابق اسے مفتوح ممالک کے لوگوں کو اپنے حقیر مفادات کے سانچے میں ڈھالا گیا۔ علامہؒ اس تعلیم پر شدید ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں۔ جس نے مسلم نوجوانوں کی ذہنیت پر منفی اثرات ڈالے۔ علامہ اس ناپختہ تعلیم اور اس سے اثر پذیری کی ذمہ داری محض نوجوانوں پر ہی نہیں ڈالتے بلکہ ان اساتذہ و علماء سے بھی نالاں ہیں جو خود تعلیم کا حقیقی مقصد سمجھتے ہیں اور نہ علم میں غائر نظر رکھتے ہیں۔ اس بے روح نظامِ تعلیم نے نوجوانوں کے نورِ بصیرت کو ان کے دلوں سے دھو ڈالا ہے اور وہ اپنے بنیادی ہدف سے ہی نا واقف اور غافل ہیں۔ مروجہ دنیاوی علوم و آداب نے عام طور پر وہی صورتحال اختیار کر لی ہے کہ بظاہر وہ انسانوں کو تو بہترین دنیاوی رتبے اور اعلیٰ ڈگریوں سے مزین کرتے ہیں لیکن اپنے حقیقی وجود اور مقصدِ وجود سے انہیں قطعاً با خبر نہیں کراتے ہیں لہٰذا علامہؒ کے نزدیک ایسا علم بڑا حجاب بن گیا ہے۔ اقبالؒ نے تعمیرِ انسانیت اور احترامِ آدمیت کے جو خواب بن لئے ہیں، ان میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے وہ ربِ جلیل سے تاثیر کے طالب ہیں۔ ان کے دل میں تصورات اور تفکرات کا ایک محشر برپا تھا جسے انہوں نے مختلف پیرایوں میں کہیں حرفِ تمنا اور کہیں حرفِ آرزو کا نام دیا ہے۔ 
حاصل مطالعہ یہی ہے کہ علامہ اقبالؒ کا تصورِ علم خالص اسلامی نقطۂ نظر سے ماخوذ ہے اور دین کے مطابق علم کی دو اقسام ہیں ایک دل و جان سے تعلق رکھتا ہے اور وہی علم انسان کے لئے نفع بخش اور فائدہ مند ہے جب کہ دوسرا علم صرف زبان تک محدود ہے اور وہ اللہ کی جانب سے انسان کے خلاف حجت قائم کر سکتا ہے۔ دراصل علامہؒ کا فلسفۂ خودی تعلیم پر منحصر ہے اور یہ فلسفہ انہوں نے قرآن سے اخذ کیا ہے کیونکہ توحید ہی خودی کا اصلی جوہر ہے اور تصورِ توحید محض اللہ کو ایک ماننے پر منحصر نہیں ہے بلکہ علامہؒ اس کی تجرید کرتے ہوئے اسے زندگی کے مختلف پہلوؤں میں پھیلاتے ہیں۔ انسانی ذہن کے حوالے سے یہ ایک ایسا وژن ہے جو وحدتِ فکر پر منتج ہوتا ہے۔ فرد معاشرے کا حصہ ہونے کی حیثیت سے دو گانہ اہمیت رکھتا ہے۔ وہ معاشرے کو متاثر کرتا ہے اور معاشرہ بھی اس پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اچھا معاشرہ اچھے انسان پیدا کرتا ہے۔