اب یہ عیا شی بند ہو نی چا ہیے

اب یہ عیا شی بند ہو نی چا ہیے

پہلے تو یہ جان لیں کہ پاور ڈویژن ذرائع کے مطابق گریڈ 10 تک کے ملازمین کو ماہانہ 200 یونٹ فری ملتا ہے، گریڈ 11 سے 15 تک کے ملازمین کو ماہانہ 300 یونٹ فری ملتا ہے۔ بجلی محکمہ کے گریڈ 1 سے 4 کے ملازم کو ماہانہ 100 یونٹ فری ملتا ہے۔ گریڈ 16 سے 17 کے ملازمین کو ماہانہ 450یونٹ فری ملتا ہے۔ گریڈ 18 کے افسران کو ماہانہ 600 یونٹ فری ملتا ہے۔ گریڈ 19 کے افسران کو ماہانہ 800 یونٹ فری ملتا ہے۔ گریڈ 20 سے 22 کے افسران کو ماہانہ 1300 یونٹ فری ملتا ہے ۔بجلی کے محکموں کے ملازمین کو سالانہ 39 کروڑ 10 لاکھ یونٹ فری ملتا ہے۔ بجلی تقسیم کار اور پیداواری اداروں کے ملازمین  سالانہ 5 ارب 25 کروڑ تک کی بجلی مفت استعمال کرتے ہیں ۔یہ صرف بجلی کے محکموں کے ملازمین کا ڈیٹا ہے۔ باقی جو محکمے ہیں جج ،جرنیل، وزیر، مشیر اُن کی سہولیات کیا ہوں گئی خود اندازہ لگا لیں، ملک بس انہی لوگوں کا ہے غریب تو بچارہ بس پسنے کے لیے، رُلنے کے لیے یہاں پیدا ہوا ہے۔ جناب مفتاح اسماعیل صا حب ہم غریب عوام نے ٹھیکہ نہیں لیا ہوا۔ ہٹے کٹے خود کفیل، امیر ترین کروڑ پتی سیاستدان، بیوروکریٹس،  سرکاری افسر ان اور اسٹیبلشمنٹ کے ہر شخص کا بوجھ اٹھانے کا۔ ہم آواز اٹھائیں گے ۔۔ اور اُٹھاؤ۔ غریب عوام کے پیسوں پر عیاشیاں بند کرو۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کی ذمہ دار خود غرض بے حس اشرافیہ ہے۔ ذرا سوچئے اور مکمل سوچئے۔ ایک دیہاڑی دار اپنی کمائی سے 200 روپے لیٹر پٹرول خریدے گا تو ماہانہ لاکھوں روپے قومی خزانے سے لینے والے صدر، وزیراعظم، وزیر اعلیٰ، وزراء، آرمی افسران، ججز، بیوروکریٹ کو بھی مفت پٹرول ملنا بند ہونا چاہئے۔ اگر معیشت کو بہتر کرنا ہے اور آئی ایم ایف کی ذلالت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے، تواس اشرافیہ کو ملنے والی سبسڈی ختم کرنا ہو گی۔ اگر پاکستان میں 20000 افراد کو پٹرول فری کی سہولت میسر ہے اور اگر ایک آفیسر ماہانہ 400 لیٹر پٹرول استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کو ماہانہ 80لاکھ لیٹر پٹرول فری دینا پڑتا ہے۔ جس کو خریدنے کیلئے ماہانہ تقریباً 50لاکھ ڈالر درکار ہوں گے۔ یہ ہے وہ ناسور جو ملک کو IMF کے چنگل سے آزاد نہیں ہونے دیتا۔ تمام سیاسی پارٹیوں سے وابستگی اپنی جگہ لیکن اب یہ ملک کی اشرافیہ کا فری پٹرول بند ہونا چاہئے۔ ملک کی اشرافیہ کے فری بجلی کے یونٹ بند ہونے چاہئیں۔ ملک کی اشرافیہ کے فری ہوائی ٹکٹ بند ہونے چاہئیں۔ ملک کی اشرافیہ کا یورپ و امریکہ میں فری علاج بند ہونا چاہیے۔ ملک کی اشرافیہ کے حکومتی کیمپ آفس ختم ہونے چاہئیں۔ ملک کی اشرافیہ کو 6، 8،10 کنال کے گھر الاٹ ہونے بند ہونے چاہئیں۔ تمام سرکاری گاڑیاں نیلام ہونی چاہئیں۔ یقین کریں تمام سرکاری گاڑیاں ویک اینڈ پر نادرن ایریاز میں سیر وتفریح کر رہی ہوتی ہیں۔تو جنا بِ عا لی ، اب یہ عیاشی بند ہو نی چاہیے، جی مکمل طور پر بند ہو نی چاہیے۔بے شک حکومت نے مشکل معاشی فیصلوں سے آئی ایم ایف کو تو اعتماد میں لے لیا ہے لیکن کیا یہ مشکل فیصلے واقعی پاکستان کو معاشی بھنور سے نکال سکتے ہیں اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل جہاں ایک طرف پُر اعتماد ہیں کہ اُنہوں نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمت بڑھا کر مالی بحران پر قابو پا لیا ہے وہیں وہ اس معاشی ابتری کو گزشتہ حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کا شاخسانہ بھی قرار دیتے ہیں۔ اسلام آباد میں ایک بزنس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان مشکل ترین معاشی حالات میں ملا ہے لیکن ہم اسے بہتر حالت میں چھوڑ کر جائیں گے۔ یہ امر لیکن روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ وزیر خزانہ کا یہ نقطہ نظر ماضی کے اپنے ہم منصبوں سے چنداں مختلف نہیں کیونکہ آج تک سبھی سیاسی جماعتیں اور وزرائے خزانہ یہی دعویٰ کرتے چلے آئے ہیں مگر موجودہ حالات شاہد ہیں کہ آج تک حالات میں کوئی مستحکم سدھار نہیں لایا جا سکا۔ آج بھی پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔وزارتِ خزانہ کی ویب سائٹ پر دئیے گئے اعدادو شمار کے مطابق جون 2021  میں قرض جی ڈی پی کے 83.50 فیصد کے برابر تھے۔ افراطِ زر بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے حالیہ دنوں روپے کی قدر میں تاریخی گراوٹ سے اس کی عکاسی ہوتی ہے۔ اگر درآمدات اور برآمدات کو دیکھیں تو پچھلے دس برس کے دوران برآمدات میں صرف ایک ارب 68 کروڑ ڈالر جبکہ درآمدات میں اس دوران 11 ارب 46کروڑ ڈالر سے بھی زیادہ اضافہ ہوا۔ قومی ادارہ شماریات کے مطابق 2011-12ء میں ملکی برآمدات 23 ارب 62 کروڑ 40 لاکھ اور درآمدات 44 ارب 91 کروڑ 20 لاکھ ڈالر تھیں جبکہ گزشتہ مالی سال میں برآمدات 25 ارب 30 کروڑ 40 لاکھ اور درآمدات 56 ارب 38 کروڑ ڈالر رہیں۔ اس محیر العقول تجارتی خسارے کو ہم کیا نام دیں گے؟ کیا اسے ماضی کی حکومتی کے ان دعووں پر محمول کیا جاسکتا ہے کہ ان کا معاشی ترکہ ان کے ورثے سے زیادہ تھا؟قرضوں میں بتدریج اضافہ اور بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ اس امر کا ثبوت ہے کہ ملک میں صنعتی اور پیداواری سرگرمیوں میں نمایاں بہتری نہیں آئی اور پاکستان ایک پیدا کار معیشت کے بجائے صارف معیشت میں تبدیل ہوتا گیا۔ اس کے نتیجے میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ طے شدہ امر تھا جس کا نتیجہ غربت میں اضافے کی صورت سامنے آتا رہا ہے۔گزشتہ برس ستمبر میں حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں بتایا گیا کہ ملک کی 22 فیصد آبادی خطِ غربت سے 
نیچے زندگی بسر کر رہی ہے؛ تاہم مہنگائی کے حالیہ اضافے اور روزگار کے وسائل میں کمی کی وجہ سے تازہ ترین صورتحال ان شماریات سے کہیں زیادہ گمبھیر ہو گی۔ اس دوران جب بعض عالمی عوامل کے باعث معیشت دبائو میں ہے ملکی سطح پر سیاسی بے چینی معیشت کیلئے مہلک ثابت ہو رہی ہے۔اس دوران ایک ڈالر کی قدر میں 25 روپے اضافہ ہوچکا ہے جبکہ سٹاک ایکسچینج دو سال کی نچلی ترین سطح پر گر چکی ہے۔ ان حالات کے باوجود وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل روزانہ کی بنیاد پر عوام کو یقین دلا رہے ہیں کہ 
مالی بحران پر قابو پا لیا گیا ہے اور حکومت ملک میں کوئی معاشی ایمرجنسی لگانے کا ارادہ نہیں رکھتی؛ تاہم معیشت کا عدم استحکام ظاہر کرتا ہے کہ ان حکومتی دعووں پر اعتماد نہیں کیا جا رہا۔ دیکھا جائے تو اس وقت حکومت کی معاشی پالیسی آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول تک محدود ہے جس کیلئے ملک میں مہنگائی کا طوفان اٹھا دیا گیا ہے قطع نظر اس کے کہ افراطِ زر کی بڑھتی شرح سے پاکستانی عوام کی زندگیاں مشکل تر ہوتی جا رہی ہیں۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ قرضوں سے کیے جانے والے مالی انتظامات سے کچھ مہینے تو شاید آسانی سے گزر سکتے ہیں لیکن یہ ملک کو درپیش معاشی مسائل کا مستقل حل نہیں۔ ان حالات میں زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھانے کیلئے دیگر وسائل پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔ اوورسیز پاکستانی ہمارا ایسا قیمتی سرمایہ ہیں جن کی بھیجی گئی ترسیلاتِ زر سے اس معاشی بھنور سے نکلنے کی امید پیدا ہو سکتی ہے اس مقصد کیلئے فارن کرنسی اکائونٹ اور روشن ڈیجیٹل اکائونٹ جیسی مزید قابلِ اعتماد شفاف اور فائدہ مند سکیمیں متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ ملک میں تشویشناک معاشی حالات کی وجہ سے اوورسیز پاکستانیوں میں اپنی کمائی اُنہی ممالک میں لگانے کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے جہاں وہ قیام پذیر ہیںاُنہیں اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں اُن کا سرمایہ مکمل طور پر محفوظ ہوگا۔ زراعت ٹیکسٹائل اور دیگر بڑی صنعتوں کی پیداوار اور برآمدات کو بڑھانے کی طرف بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے آنے والے بجٹ میں خصوصی انتظامات کیے جانے چاہئیں۔ زراعت ملکی برآمدات کا اہم ترین شعبہ ہے اورحکومتی سر پرستی سے اجناس کے معیار کو بہتر بنا کر زرعی برآمدات کی مد میں اچھا خاصا زرِ مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ فی الوقت بجلی کے بڑھتے ہوئے بحران کے پیش نظر حکومت کو توانائی کے متبادل وسائل کے فروغ کیلئے بھی سنجیدہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے حاصل ہونے والی سستی توانائی ہی ملکی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کا قابلِ عمل اور کم خرچ حل نظر آتا ہے۔ شمسی توانائی کے فروغ کے منصوبے ہمارے ہاں کم از کم گھریلو سطح پر توانائی کا سستا اور آسان حل فراہم کرسکتے ہیں بشرطیکہ حکومت اس کیلئے تعاون کرے۔وفاقی وزیر خزانہ کی خوش فہمی اپنی جگہ؛ تاہم معیشت کا تاریک منظر نامہ تبدیل کیے بغیر معیشت کو بہتر حالات میں چھوڑنے کا دعویٰ پورا نہیں ہو گا۔ اس کیلئے حکومت کو قدم بقدم اصلاحی اقدامات یقینی بنانا ہوں گے ۔

مصنف کے بارے میں