گرد آلود،سیاسی افق

 گرد آلود،سیاسی افق

سیاسی افق اس قدر گردآلودکر دیا گیا ہے کہ کچھ سجھائی دے رہا ہے نہ دکھائی،ہر طرف کشا کش،چپقلش،چتربازی،الزام تراشی ہے،حکومت اور اپوزیشن کی چکی کے دو پاٹوں میں پسنے والے عوام کا بھرکس نکل رہا ہے مگر حزب اقتدار اگر عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب دکھائی نہیں دیتی تو اپوزیشن کے پاس بھی عوامی مشکلات کے حل اور مسائل میں کمی کا کوئی فارمولا نہیں ہے،اس حوالے سے دونوں میں عزم و ارادہ کی بھی کمی دکھائی دیتی ہے،اپوزیشن وزیر اعظم عمران خان کے استعفیٰ کی پیش گوئیاں کرتے اب ان  کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لے آئی ہے، دوسری طرف وزیر اعظم بظاہر مطمئن دکھائی دیتے ہیں،اپوزیشن کا تو فقط ایک مقصد دکھائی دیتا ہے اور وہ ہے تحریک انصاف حکومت کا خاتمہ خواہ اس کی کوئی بھی قیمت قوم کو چکانا پڑے،بے شک جمہوریت ہی کی قیمت پر کیوں نہ ہو،عمران خان جب تک اپوزیشن میں تھے تبدیلی کا استعارہ سمجھے جاتے تھے،قوم کے خوابوں کی تعبیر دکھائی دینے لگی تھی،گھور اندھیروں میں امید کی ایک کرن دکھائی دے رہے تھے،مگر اقتدار کی بھول بھلیوں میں وہ سب بے تعبیر خواب بن کر بکھر کر رہ گیا،ایسا نہیں کہ عمران خان کچھ کرنا نہیں چاہتے،وہ اب بھی ملک میں سماجی معاشرتی اور اخلاقی ترقی کے خواہشمند ہیں مگر محصور ہو چکے ہیں الیکٹیبلز کے نرغے میں ہیں کیونکہ اپوزیشن نے تمام راستے مسدود کر دئیے ہیں۔
   عمران خان کی تبدیلی کے نعرے سے بہت عرصہ قبل ذوالفقار علی بھٹو مساوات کا نعرہ لگا کر میدان میں آئے اور سرمایہ کاروں،صنعت کاروں،وڈیروں کے ان 22خاندانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا جو ملک و قوم کی دولت کے بیشتر حصے پر سانپ بن کر بیٹھے تھے،مگر اقتدار سنبھالنے کے کچھ ہی عرصہ بعد انہیں اپنی حکومت کے استحکام اور تادیر اقتدار میں رہنے کی خواہش نے انہی وڈیروں اور صنعت کاروں کے آستانہ پر جبین نیاز جھکانا پڑی اور مساوات کا نعرہ اپنی موت آپ مر گیا،یہی حال بظاہر تبدیلی کے نعرے کا دکھائی دیتا ہے،قوم کی دولت پر پھن پھیلاکر بیٹھے کوبراز اور عوام کے خون پسینہ کی کمائی پر دن دہاڑے ڈاکے ڈالنے والوں کے ایک گروہ کیخلاف احتساب کی تلوار بے نیام کی گئی تو دوسرے گروہ کو کھلی چھٹی دے دی گئی،اس کے باوجود کہ خود عمران خان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں مگر کچھ کرپٹ عناصر حکومت کی چھتری تلے پناہ لینے میں کامیاب بھی ہو چکے ہیں،نتیجے میں تبدیلی کا نعرہ اب تک نعرہ ہی ہے۔
   اندرون خانہ حالات سے واقف کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو اب سمجھ آئی ہے کہ کچھ کرنے کیلئے مضبوط مستحکم اقتدار ضروری ہے،ان کی خواہش تھی کہ کسی طرح ان کو یہ طاقت مل جائے تو اس کے بعد وہ ملک میں حقیقی تبدیلی کی بنیاد رکھیں،لیکن ملکی تاریخ گواہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں،مطلق العنانیت تو اسٹیبلشمنٹ کے حصے میں نہ آسکی جو مختار کل تھے سیاسی حکمران تو اس کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے،اپوزیشن کو بھی معلوم ہے اگر عمران خان کو مکمل اکثریت مل گئی تو ان کا ہی نہیں ان کی نسلوں کا مستقبل بھی تاریک ہو جائے گا،انقلاب یا تبدیلی ایک فطری عمل ہے،علامہ اقبال نے کہا تھا’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘تبدیلی کے سوا اس جہان رنگ و بو میں کسی چیز کو ثبات نہیں،مگر یہ ایک فطری عمل ہے اگر غیر فطری طور پر اس کی کوشش کی جائے تو انقلاب کی جستجو خوں ریز ہو جاتی ہے، تاریخ انسانی نے صرف ایک انقلاب محمدیؐ ایسا دیکھا جس میں کسی کا بال بیکا نہ ہوا،کوئی پتہ نہیں ٹوٹا باقی سارے انقلاب انسانی خون سے رنگین ہیں،خون کی یہ لالی اس وقت مزید گہری ہو جاتی ہے جب انقلاب کا جنوں منظم اور منضبط نہ رہے۔
انقلاب کبھی تقریروں سے نہیں ذہن سازی سے آتے ہیں،انسانوں کے ایک گروہ کی اخلاقی تربیت ایسے کی جائے کہ وہ کسی بھی حال میں انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں،انقلاب ذہن کی تبدیلی سے آتے ہیں مگر ذہنوں کی تطہیر سے آنے والا انقلاب ہی پائیدار ہوتا ہے،انسانی ذہن میں پکنے والا لاو جب ابلتا ہے تو بھی ایک انقلاب کی لہرآتی ہے مگر ایسے انقلاب میں نفرت کی تند لہریں اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے جاتی ہیں انسانیت ہی نہیں انسانی اور معاشرتی اقدار بھی نفرت کے سیلاب میں بہہ جاتی ہیں،سچ یہ ہے کہ اس وقت عوام کے ذہن میں نفرت کا لاوا پکنا شروع ہو چکا ہے،اگر تباہی سے بچنا ہے تو بوائلنگ پوائنٹ سے پہلے اس لاوے کی سمت درست کرنا ہو گی،لیکن اگر یہ لاوا اسی رفتار اور شدت سے ابلتا رہا تو پھر خدانخواستہ کچھ بھی نہیں رہے گا،اہل اقتدار نہ حزب اختلاف،جاگیریں،ملیں،بڑی بڑی تجارتی کمپنیاں سب ملیا میٹ ہو جائیں گی،تب کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا،پھر فیصلہ عوام کا جنون کرے گا اور تاریخ کے اوراق ایسے واقعات سے اب بھی رنگین ہیں ان سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔
   آج ملک و قوم جن حالات سے دوچار ہے ،سیاسی افق پر جس قدر گند گرد اور دھند چھائی ہوئی ہے اس کی صفائی خون سے کرنے کی کوشش نہیں ہو سکتی،یہ وقت ہے جب سیاسی جماعتوں سمیت قوم کا ہر طبقہ اٹھ کھڑا ہو اور سب مل کر یکمشت ہو کر عہد کریں کہ ملک کو دلدل اور عوام کو مسائل و مشکلات سے نجات دلا کر اس ملک اور قوم کو بچانا ہے،جو آج آزادی کے 75سال بعد بھی عوام کا ایک جم غفیر ہے قوم نہیں بن سکی،دنیا کے نقشے پر ملک کا وجودرہے گا اور قوم متحد ہو گی تو سیاست بھی ہوتی رہے گی،ملک معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا ہو گا تو کاروبار بھی ہونگے،یہاں تو مگر باوا آدم ہی نرالا ہے،دنیا بھر میں زیادہ کمانے والے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں آسٹریلیا میں ٹیکس کی شرح70فیصد ہے مگر یہاں ملازمت پیشہ ٹیکس دیتے ہیں اور کاروباری ٹیکس چوری کرتے ہیں،اقتدار حاصل کرنے کی جدو جہد بھی تب ہی اچھی لگے گی اور کامیابی سے ہمکنار ہو گی جب جمہوری عمل جاری رہے گا اگر سیاسی نظام جامد ہو گیا تو کہاں کی سیاست اور کونسی سیاست،جمہوریت اس ملک کا مستقبل ہے،کہ اس سر زمین کے باسی رنگ نسل زبان کلچر کے اختلاف سے ایک ہی گلشن کا گلدستہ ہیں جس میں مختلف رنگوں خوشبو اور پتیوں والے پھول مہک رہے ہیں یہ مہک برقرار رہے گی تو یہاں رہنے بسنے کا لطف ہی الگ ہو گا،مگر اس کیلئے ازحد ضروری ہے اتحاد، یکجہتی،وقت کا تقاضا ہے کہ گرد گند اڑا کر فضا کو مکدر کرنے کے بجائے تمام قومی راہنما  کوئی متفقہ راہ تلاش کریں تاکہ قوم کے مصائب اور ملک کی مشکلات کا ازالہ ہو سکے ورنہ اگرعوام کے ذہنوں میں نفرت کا لاوا پک کر ابل پڑا تو پھر  سیاست ہو گی نہ اقتدار میں آنے کے خواب کو تعبیر ملے گی، تحریک عدم اعتماد جیسی سو تحریکیں لے آئیں تبدیلی نہیں آئے گی۔

مصنف کے بارے میں