’’سکہ رائج الوقت‘‘

 ’’سکہ رائج الوقت‘‘

’’سکہ رائج الوقت‘‘کی اصل حقیقت تب کھلتی ہے جب 1857ء کے ہمارے بقول جنگ آزادی اوربقول انگریز حکمران کے غدر کا ارتکاب ہوتا ہے اس وقت ’’سکہ ‘‘ لکھ کر بادشاہ کے حضور ’’گزارنا‘‘پر شدید سوالات کی بوچھاڑ ہے اور غالب یہ سکہ اپنے نام سے منسوب ہونے کی پاداش میں پنشن سے فارغ کردیئے جاتے ہیں کوئی موڈی اخبار سازش سے پکڑدھکڑ کے زمانوں میں ’’مذکورہ سکہ‘‘ غالب سے منسوب کردیتا ہے اور مرزا نوشہ کم سخنی وکم ابلاغ کے اس زمانے میں متذکرہ اخبارکی خبر غلط ثابت کرنے کے لیے دن رات ایک کردیتے ہیں مرزا یوسف سے مدد مانگتے ہیں کہ پہلی بار جہاں چھپا تھا وہ اخبار مل جائے تو یہ پنشن بند کروانے والی اخبارکو جھوٹا قرار دلوا کرکمشنر سے دوبارہ اپنی پنشن جاری کروائی جائے اب یہ ’’سکہ‘‘ بھی قارئین کی نظر سے ’’گزارنا‘‘ ضروری ہے اس وقت کے اہتمام میں بادشاہ کے حضور ’’گزرانا‘‘ کہتے تھے اور چونکہ ہمارے عوام بھی بادشاہ سے کم نہیں لہٰذا ملاحظہ ہو…
یہ زرذوسکۂ کشور ستانی 
سراج الدین بہادر شاہ ثانی 
فارسی سے بہرہ مند فرنگی کمشنر طلبی کرتے ہیں تو کہا کیا حیلے سنیے یہ سکہ تو بادشاہ کے تخت پوشی پر کہا گیا اور بادشاہ خود شاعر اس کے بیٹے شاعر اس کے نوکر شاعر کسی نے بھی کہہ ڈالا ہوگا پھر ویسے بھی یہ تو بہت سے شاعروں نے مضمون باندھا ہے مارے باندھے یارغبت سے کیا معلوم بہرطور کمشنر مصلحتاً …چپ ہے اور وہ ہفتے بعد جاتے ہوئے پنشن بند اور کہرام شروع مرزا ثابت کرنے پر تل جاتے ہیں کہ یہ ہونہ ہو استاد ذوق نے کہا ہے جولوگ ادب کے قاری نہیں ان کی اطلاع کے لیے استاد ذوق سے مرزا نوشہ کی گہری چپقلش تھی …
غالب چودھری عبدالغفور سرور کو ایک خط میں لکھتے ہیں ’’ جناب چودھری صاحب آج کا میرا خط کاسۂ گدائی ہے ‘‘ بعدازاں تفصیل سے اس اخبار کے گزشتہ پرچوں کا ریکارڈ طلب کرتے ہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ تخت نشینی کے وقت دو ’’سکے‘‘ استاد ذوق نے گزارنے تھے ان میں سے ایک یہ ہے جس کی پاداش میں ان کی لگی لگائی آمدنی چلی گئی خلعت ودربار بھی مٹااور ریاست کا نام ونشان بھی گیا تاریخ کے دیگر حوالوں کے علاوہ معین الدین حسن خان نے ’’حذنگ غود‘‘ میں لکھا ہے کہ لکھنؤ سے جو اشرفیاں آئیں ان پر یہ شعر کنداں تھا 
یہ زرذدسکۂ نصرت طرازی 
سراج الدین بہادر شاہ غازی 
خیر یہ بے شمار سکے مندرج ہیں جو حقیقی تخت نشینوں کے ہاں گزارے جاتے ہیں خلعتیں پائی جائیں دربار مسند مناسب نشست اور وظیفے اسی کی برکت سے تھے غالب تو خود کو مبراء ثابت نہ کرسکے اور شکوہ کرتے رہے کہ بنگ گھر کا لٹنااتنا بڑا جرم نہیں جتنا بڑا جرم دومصرع بنا دیئے گئے …
توقارئین یہ ہے ’’سکہ رائج الوقت ‘‘ اس وقت جس کاغذی بادشاہ کا سکہ چل رہا تھا اور اس کے حواری ومخالف (جو بعدازاں ہی ہوسکتے تھے) نہایت اعلیٰ پائے کے ادیب تھے اس میں شک نہیں کہ ادب کے پیراہن میں بھی سخن طرازی خلعت والقاب کی رہین منت رہی حکمران  کا قرب باعث نشاط رہا سرفخر سے بلند رہے ایسے میں جب دہلی کے تخت پر دودو متوازی حکومتیں چل پڑیں تو شعراء وادباء کو حقیقی کرب سے گزرنا پڑا کہ کس کی پوچا کیجئے اور گزشتہ عبارت کے محراب کیونکہ پیشانی سے ہٹائیے… فرق یہ ہے کہ دیگر شعبوں کے لوگوں کو اس طعنہ زنی کا سامنا نہیں جو آج کے ادیب کے ہے منافقت یہ ہے کہ تسلیم نہیں کیا جاتا کہ تخت سے قربت کے خواب اداروں سے کام نکلوانے کے واسطے دیکھے جاتے ہیں، اور صوفی ہونے کے دعوے کیے جاتے ہیں بے نیازی کے جھنڈے گاڑے جاتے ہیں …
آخر یہ انگار کیوں۔؟ کس لیے شعر وادب کے باوا آدموں نے تو کھلم کھلا خوشامد کی قصیدے لکھے ان پر ناز بھی کیا تمام شعراء ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے کمشنروفرنگی افسران کے لیے بے اندازہ قصیدے لکھتے رہے ان کے دفتروں میں رسائی کے لیے ایڑی چوٹی کے زور لگاتے رہے محفل میں آگے پیچھے نشیب فراز کی نشستوں کا اتنا جھگڑا تھاکہ الاماں الحفیظ …
مولاناابوالکلام آزاد ایک مقالے میں لکھتے ہیں قصیدہ کی مد میں … مرزا غالب کا ایک غیر مطبوعہ وغیر مدون قصیدہ ’’درمدح میکلوڈ بہادر‘‘ 
کرتا ہے چرخ روز بصد گونہ احترام 
فرمانروائے کشورپنجاب کو سلام 
اس میں آخر میں سخن گسترانہ بات سنیے… کوئی دربار منعقد ہوا جس میں مرزا صاحب کو بھی مدعو کیا گیا لیکن وہاں نشست وترتیب کا حسن انتظام نہ تھا (اور اس روش کو بطور خاص بھی کیا جاتا تھا) انہیں ایک نہایت ادنیٰ صف میں نشست ملی متاسف تو ہوئے گزشتہ محفلوں کی دھول آنکھوں میں تھی کہا …
اس بزم پرفروغ میں اس تیرہ بخت کو
نمبر ملا نشیب میں ازروئے اہتمام 
اس کم مائیگی کے بعد بھی غالب نے لیفٹیننٹ جنرل پنجاب سے ملنے کی کوشش کی … جو چشمک چلی حاضرین میں ٹھٹھہ ہوا وہ بھی قلم بند کیا 
سمجھا اسے گراب ہوا پاش پاش دل 
دربار میں جو مجھ پہ چلی چشمک عوام 
سب صورتیں بدل گئیں ناگاہ یک قلم 
نمبر رہا نہ نذر نہ خلعت نہ انتظام 
ایک لمبی سی ہائے تو لبوں پر آتی ہے مگر مجھے لگا بڑا بندہ وفنکار وہی ہے جو اپنی تذلیل وتحقیر کو بھی عمدگی سے سپرد قلم کرپائے۔ 
شاعری میں چھپ کر تو ہم درپردہ اس کا اظہار کرتے ہیں مگر نثر Statmentسٹیٹ منٹ بن جاتی ہے احتراز کرتے ہیں درباروں میں جاتے ہیں خلعت والقاب کی جگہ مقرر کے خطاب میں اپنا تذکرہ چاہتے ہیں، نذر کی جگہ تقرریوں کے متمنی ہوتے ہیں نشیب میں کرسی ملنے کو چھپاتے ہیں غالب پھر بھی بڑا ہے کہہ ڈالا اور بھی بہت کچھ کہا …
اکثریت جو کالم نگار بن گئی ہے تو حقیقی تعداد ان میں پیدائشی کالمانہ طبیعت والوں کی کم ہے زیادہ تر اداروں میں رسائی مشاعروں وکانفرنسوں بیرونی دوروں ایوانوں میں بلاوے ڈنرز وثقافتی یلغار کا حصہ بننے کے لیے ادب کی خدمت کے لیے نہیں کہ اس کے لیے بہت تنہائی میں جانا پڑتا ہے بہت مطالعہ کرنا پڑتا ہے جبکہ آتے جاتے وزراء توصیف کافی ہوتی ہے تب کے تخت نشیں خود تخلیق کارتھے تو نزاکت کا معیار اونچا تھا اب لوگ اپنی تقاریر اور کالموں میں براہ راست تعریف ٹھونک دیتے ہیں حالانکہ مجھے لگتا ہے تعریف، توصیف اور اعتراض میں کافی فرق ہوتا ہے جیسا فرق للچاہٹ اور چاہت بھری لپک میں ہوتا ہے۔ 
گزشتہ دہائی سے صوفی خواتین اور صوفی مرد بہت آگئے ہیں مارکیٹ میں حالانکہ ذاتی طورپر دیکھ چکی ہوں ان ایسا طالع آزما اور موقع پرست کوئی نہ ہوگا… یہ صوفی اونچے پیڑ وں پر براجمان ہیں پوراشہر چلاتے ہیں ہرآنے والی گورنمنٹ ان کی ہوتی ہے آپ کی اور ہماری نہیں آپ پی ٹی آئی والے ہوں بھلے مجھے پی ایم ایل این سمجھیں ہم سب مخلص رہے اصل میں وہ صوفی طبقہ ہے جو ہردور میں دربار میں اکتارا بجاتا ہے اور جس کے سروں کی دھن اتنی دلنشین ہے کہ حکمران طبقہ مسحور ہوجاتا ہے …
خود کو کتنے ہی خانوں میں پارٹیوں میں بانٹ لیں کسی سے ہمیں کچھ فیض نہ ہوگا اور وہ صوفی فقیروں کا بے نیاز رائٹسٹ ٹولہ پوری ’’پرات‘‘ لے اڑے گا ہردور کے فیضیاب یہی ’’دعوت نودو‘‘ ہیں لہٰذا آپس میں مت لڑیئے… کہ سکہ رائج الوقت آج کے ابن الوقت کے ہاتھ میں ہے مہرتصدیق بھی انہیں کی بادشاہ بھی ان کا خلعت بھی دربار بھی …
اے نشیبی نشست میں بیٹھنے والوں خود کو ہلکان نہ کرو… تمہارے نصیب میں ’’لیڈر‘‘ نہیں رہنما نہیں اپنا رستہ خود تلاش کرو …  

مصنف کے بارے میں