دنیا تبدیل ہو رہی ہے!

دنیا تبدیل ہو رہی ہے!

جس طرح امیر ، ترقی یافتہ اور امریکہ ، برطانیہ اور یورپ کے زیر اثر ممالک نے اپنے جائز اور ناجائز مفادات کے تحفظ کے لیے مختلف قسم کی تنظیمیں اور اتحاد بنا رکھے ہیں او یہ ممالک اس طرح سے دنیا پر اپنا تسلط ، اثر اور برتری قائم رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اس کے جواب میں غریب، پسماندہ اور بھوک کا شکار ممالک تو اپنا کوئی بااثر فورم تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ استحصال کے اس دو میں عنقریب ہی ان ممالک کا اتحاد ضرور سامنے آ جائے گا کہ جن کو کسی بھی وجہ سے دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے یا وہ مختلف قسم کی پابندیوں اور اکیلے پن کا شکار ہیں۔  کہتے ہیں کہ دشمن یا مخالف جتنا بھی کمزور ہو اسے اس حد تک نہیں لے کر جانا چاہیے کہ وہ کسی بھی نتیجہ کی پرواہ کیے بغیر طاقت ور سے طاقتور دشمن کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ اگر بات کی جائے ایران اور شمالی کوریا کی تھی تو ایک لمبے عر صہ سے دنیا کے نام نہا د طاقتور ممالک کی جانب سے ان پر پابندیاں بھی لگائی جا رہی تھیں اور انہیں مختلف طریقوں سے دبایا بھی جا رہا تھا ۔ اگرچہ اس سلسلہ کو بہت زیادہ کامیابی تو حاصل نہیں ہوئی لیکن پھر بھی یہ تسلسل کے ساتھ چل رہا تھا ، بات اگر یہاں تک ہی رہتی تو ممکن ہے کہ کسی سطح پر مطلوبہ نتائج بھی حاصل ہو جاتے لیکن جانے کیوں طاقت کے نشے میں دھت بااثر ممالک نے روس-یوکرائن جنگ کو بنیاد بنا کر  روس پر بھی پابندیاں عائد کر دیں۔ یقین سے تو نہیں کہا جا سکتا لیکن شائد یہی وہ صورتحال تھی کہ جس کا پہلے سے پابندیوں کا شکار ممالک کو انتظار تھا۔ ایک بڑے، طاقتور ،بااثر اور ویٹو پاور کے حامل ملک کو اپنے کلب میں پا کر یقینا ایران اور شمالی کوریا کی تو خوشی کی کوئی انتہا ہی نہ رہی ہو گی۔  
روس پر پابندیاں عائد کرنے کے فیصلہ کو دو انداز سے دیکھا جا سکتا ہے ۔ پہلا یہ کہ امریکہ ، برطانیہ ، یورپ اور ان کے اتحادی ممالک اس بات پر خوشیاں منا رہے ہیں کہ پابندیوں کے شکا ر روس کو اس وقت یوکرائن جنگ میں جنگی سازوسامان کی کمی سمیت کچھ دیگر پریشانیوں کا اس قدر سامنا ہے کہ اس کے لیے 
اب یوکرائین پر زیادہ دیر تک قابض رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ ایک رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ روس کے مقبوضہ علاقوں (ان میں کچھ وہ علاقے بھی شامل ہیں جہاں روس جنگ کے ابتدائی دنوں سے ہی قابض تھا) میں یوکرائینی فورسز نے بھر پور انداز میں جوابی کاروئیاں شروع کر تے ہوئے سپلائی لائن کاٹ دی ہے اور اس کے نتیجہ میں روسی فوجوںکو نہ صرف اسلحہ،دیگر فوجی رسد بلکہ خوراک وغیرہ کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے علاوہ ازیں روسی فوجیں اپنے تباہ شدہ اسلحہ اور فوجی گاڑیوں کا متبادل نہ ملنے سے بھی پریشان ہیں۔ 
دوسری طرف امریکی کیمپ میں ابھی روس کو درپیش پریشانیوں اور الجھنوں کی صورتحال کی پر خوشی اور اطمینان کا اظہار ہی کیا جا رہا تھا کہ خبر آ گئی کہ روس نے بڑے پیمانے پر شمالی کوریا سے ہتھیاروں اور دیگر جنگی سازوسامان کی خریداری شروع کر دی ہے اس کے علاوہ جنگ کے دوران روسی فوجوں کی جانب سے ایرانی ڈرون بھی استعمال کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ روس -یوکرائن جنگ میں بڑھ چڑھ کر امریکہ کا ساتھ دینے والے یورپی ممالک کے لیے بری اور پریشان کن خبر یہ ہے کہ روس کے صدر پیوٹن نے اپنے ملک کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کرنے کے ردعمل کے طور پر یورپی ممالک کو تیل اور گیس کی سپلائی بند کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔( واضح رہے کہ یورپ اس وقت اپنے استعمال کی چالیس فیصد گیس اور تیس فیصد پیٹرول روس سے خرید کرتا ہے)۔ 
امریکہ کی وزارت دفاع کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں ان دو ممالک (شمالی کوریا اور ایران) کی جانب سے روس کو براہ راست یا بالواسطہ جنگی مدد فراہم کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں شمالی کوریا کے ہتھیاروں اور دیگر جنگی سازوسامان کے معیار کا تو کوئی ذکر نہیں کیا گیا البتہ ایرانی ڈرون کو انتہائی ناقص بتایا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ جنگ میں روس کی جانب سے دو قسم کے ڈرون استعمال کیے جا رہے ہیں اور دونوں کا ہی معیار انتہائی ناقص ہے۔ جس کی وجہ سے روس کو اس جنگ میں مزید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ 
یوکرائین پر فوجی جارحیت کے مسلہ پرامریکہ اور یورپ کی جانب سے مذمت کیا جانا تو یقیناقابل ستائش ہے لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہے کہ یہ وہی امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں جو ماضی میں افغانستان،عراق، لیبیا، اٹلی اور دیگر ممالک پر اسی طرز پر فوجی جارحیت کر چکے ہیں۔ اور اپنے اس قسم کے اقدامات کو دنیا کے امن کے لیے ضروری قرار دیتے رہتے ہیں۔اب کسی بڑے فلاسفر سے ہی اس بات کی وضاحت طلب کرنی پڑے گی کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک ہی قسم کی حرکت اگر آپ کریں تو اس کو نہ صرف بالکل درست قرار دیا جاتاہے بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کے امن کے لیے ضروری تھا ، جبکہ کوئی دوسرا جب یہ حرکت کرے تو وہ نہ صرف غلط ہے بلکہ دنیا کے امن کے لیے خطرہ بھی ہے۔
 امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے یکطرفہ طرزعمل اپنانے کی تازہ اور مزیدار بات یہ ہے کہ ایک طرف تو جنگ کی صورتحال میں روس کی کسی بھی قسم کی مدد یا اس کے ساتھ کاروبار کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے تو دوسری طرف اعتراضات کی گٹھڑی اپنے سر پہ اٹھائے نظر آنے والے امریکہ نے حال ہی میں یوکرائین کے لیے تین بلین ڈالر کی امداد کااعلان کیا ہے۔ یہ امداد اس 675 ملین ڈالر کی فوجی امداد کے علاوہ ہے کہ جس میں بھاری ہتھیار، گولہ بارود، فوجی گاڑیاں اور دیگر جنگی سازوسامان شامل ہے۔ روس -یوکرائین جنگ کی حقیقی صورتحال کیا ہے اور اس جنگ میں روس کی مشکلات کے بارے میں کتنی سچائی ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے مسلسل جنگ اور فوجی جارحیت کی دھمکیوں اور ایک غیر یقینی صورتحال کے لامتناہی سلسلہ سے تنگ آ کر اگر پابندیوں کا شکار ممالک نے اپنی اقتصادیات، تجارت اور دفاع کو مستحکم کرنے کے لیے ایک اتحاد بنانے یا تعاون کی کوئی اور شکل بنانے کا فیصلہ کیا ہے تو دنیا کی سیاست پر اس کے اچھے ہی اثرات مرتب ہوں گے۔