خیبرپختونخوا: پابندی کے باوجود "ژگ" پر عمل جاری ، لڑکیوں کا مستقبل تاریک

خیبرپختونخوا: پابندی کے باوجود
سورس: File

پشاور: خیبر پختونخوا میں آج بھی ژگ نامی ایک ایسی قانوناً ممنوعہ قبائلی رسم پر عمل درآمد کیا جاتا ہے، جس میں کوئی لڑکا کسی لڑکی کے گھر کے باہر چار فائر کر دے تو وہ اس لڑکی سے شادی کے لیے دعوے دار بن جاتا ہے۔

قبائلی رسم  ژگ کے مطابق  کوئی لڑکا جب کسی لڑکی کے گھر کے باہر چار گولیاں فائر کر دے تو  وہ لڑکی اسی مرد سے شادی کرنے کی پابند ہو جاتی ہے اور پھر کوئی دوسرا مرد اس لڑکی سے شادی نہیں کر سکتا۔

اس معاملے میں لڑکی کی اپنی خواہشات کو قطعاً کوئی اہمیت نہیں دی جاتی بس جس لڑکے نے اس کے گھر کے باہر آ کر چار فائر کر دیئے تو اس کی شادی اسی مرد سے ہو گی۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں پھر اس لڑکی اور اس کے خاندان کو خطرناک مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لڑکے والوں کی طرف سے قتل کی دھمکیاں  ملنے لگ جاتی ہیں۔ 

 خیبر پختونخوا  اسمبلی نے جنوری 2013 میں ایک قانون منظور کیا تھا جس کے تحت ژگ کے مرتکب کسی بھی فرد کو تین سال قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانے کی سزائیں سنائی جا سکتی ہیں۔ اس قانون کی منظوری کے باوجود خیبر پختونخوا کے زیادہ تر قبائلی رسم و رواج والے اضلاع میں آج  بھی ژگ جیسی قبائلی رسم پر  عملدرآمد کیا جا تا ہے۔ 

قبائلی علاقوں میں رہنے والی لڑکیا ں اس رسم کے حق میں بالکل نہیں ۔  قبائلی علاقے کی ایک لڑکی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ہمیں پڑھائی لکھائی کا شوق ہے لیکن اس فرسودہ رسم کے باعث ہم تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے بلکہ ہمیں اپنے گھروں میں ڈر کے اور چھپ کر زندگی گزارنا پڑتی ہے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم شادی سے انکار کر دیں وہ لڑکا اور اس کے خاندان والے ہمارے بارے میں بدکاری جیسے گندے اور جھوٹے الزامات لگا دیتے ہیں کہ پھر کوئی اور لڑکا اور خاندان ہم سے شادی کرنے پر رضا مند نہیں ہوتا ہے۔ 

اس حوالے سے پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن (ایچ آر سی پی) کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے کہا کہ آج اکیسویں صدی میں بھی اس قسم کے مجرمانہ واقعات کی خبریں ملنا انتہائی تشویش ناک بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں ژگ کے بارے میں علیحدہ سے تو کوئی تحقیق نہیں کی گئی تاہم یہ مسئلہ ایچ آر سی پی کی نظر میں ہے اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ایسے ناجائز، مجرمانہ اور غیر انسانی اقدامات کی بھرپور مذمت کرتا ہے۔

ایچ آر سی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے مزید کہا کہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا واضح موقف ہے کہ ایسی فرسودہ اور مجرمانہ روایات کی کسی بھی مہذب معاشرے میں کوئی گنجائش ہو ہی نہیں سکتی۔ اس لیے ہم ژگ کے حوالے سے جلد ہی باقاعدہ تحقیق کے بعد عملی اقدامات کے لیے اپنی تجاویز اور مطالبات پیش کریں گے۔


 

مصنف کے بارے میں