کامیابی کا گُر

کامیابی کا گُر

دوستو،سیاست کی گرماگرمی اپنی جگہ لیکن رمضان المبارک میں روزے کے دوران جو ’’گرمی‘‘ ہورہی ہے،اس کا تدارک کون کرے؟؟ ملکی سیاست میں پیدا ہونے والی گرمی تو آہستہ آہستہ دم توڑ جائے گی ، لیکن ہم آپ کو رمضان المبارک میں روزے داروں کو محسوس ہونے والی گرمی کی حدت اور پیاس کی شدت کم کرنے کے کچھ طریقے بتاتے ہیں، جس کے بعد آپ سے کامیابی کا گُر بھی شیئر کریں گے، اس لئے آج کی باتوں کو دھیان سے پڑھنا ضروری ہے۔۔
موسم گرما کے دوران ماہ صیام میں سب سے بڑا چیلنج جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے دینا ہے تاکہ خشوع و خضوع سے عبادت کی جاسکے اور روز مرہ زندگی کے باقی امور بھی درست طور پر نمٹائے جاسکیں۔ماہرین طب کا کہنا ہے کہ سخت گرمی میں روزہ رکھنے کے باعث جسم میں پانی کی کمی واقع ہوسکتی ہے جس کے لیے سحر و افطار میں پانی کا استعمال بڑھا دینا چاہیئے۔اس کے علاوہ پانی یا پھلوں کے رس زیادہ سے زیادہ پئیں، اپنی غذا میں دودھ اور دہی کا استعمال بھی ضرور کریں۔رمضان المبارک میں سخت گرمی کے باعث جسم میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ماہرین طب نے سات آسان طریقے بتائے ہیں۔۔سحری میں کم از کم 2 گلاس پانی لازمی پیئیں جبکہ جوس اور کولڈ ڈرنک سے دور رہیں، یہ آپ کے وزن میں اضافہ کریں گی۔۔ایسی غذاؤں کا استعمال کریں جن میں پانی کی مقدار زیادہ ہو جیسے تربوز، کھیرا، سلاد وغیرہ، یہ آپ کے جسم کی پانی کی ضرورت کو پورا کریں گے۔۔افطار کے اوقات میں ایک ساتھ 7 یا 8 گلاس پانی پینا نہ صرف بے فائدہ ہے بلکہ صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے، اس کی جگہ پانی والی غذاؤں اور پھلوں کا استعمال کریں۔۔روزہ کے بعد کھجور اور 2 گلاس پانی کے ساتھ افطار کریں۔۔رات میں نماز تراویح اور دوسری عبادات کے لیے جائیں تو پانی کی بوتل ساتھ لے کر جائیں۔۔رات کو ایک پانی کی بوتل اپنے قریب رکھیں۔۔کوشش کریں کہ گرم اور دھوپ والی جگہوں پر کم سے کم جائیں۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ سحری کے وقت بہت سارا پانی پینا رمضان میں پورے دن جسم کو پیاس سے بچاتا ہے۔ تاہم سحری کے وقت بہت زیادہ پانی پی لینے سے گردے کا کام بڑھ جاتا ہے کہ وہ پانی سے چھٹکارہ حاصل کرے۔ یہ چیز دن بھر پیاس میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ اسی واسطے سحری کے وقت پانی والے پھلوں کے استعمال کی ہدایت کی جاتی ہے۔ ان میں تربوز، خربوزہ اور سیب وغیرہ شامل ہیں۔ یہ پھل روزے کے دوران میں جسم میں بتدریج پانی چھوڑنے کا کام کرتے ہیں۔ پانی پینے کے عمل کو افطار سے سحری تک کے اوقات میں تقسیم کرنا چاہیے، یہ نہیں کہ صرف سحری کے وقت اس پر پوری توجہ مرکوز کر دی جائے۔
افطار کے وقت براہ راست ٹھنڈا پانی پینا، معدے اور آنتوں کی جانب خون کی گردش کم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جسم کا نظام ہاضمہ مسائل کا شکار ہوتا ہے۔ غذائی ماہرین یہ ہدایت دیتے ہیں کہ افطار کے بعد نیم گرم یا کمرے کے درجہ حرارت والا پانی، یا کھجور کے ساتھ دودھ پینا چاہیے۔ اسی طرح افطار کے بعد ٹھنڈا پانی پیا جا سکتا ہے۔ تاہم افطار کے دوران ایسا کرنے سے معدے کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتاہے۔ اس کے نتیجے میں ہاضمے کا مسئلہ، موٹاپا اور تیزابیت جیسی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔افطار کے فورا بعد میٹھا کھانے سے جسم میں چکنائی اکٹھا ہوتی ہے اور موٹاپے اور کولسٹرول میں اضافہ ہوتا ہے۔ لہذا میٹھا کھانے سے قبل تھوڑا انتظار کر لینا چاہیے۔ بہتر ہے کہ میٹھا ہفتے میں ایک یا دو مرتبہ کھایا جائے۔ یہ روزانہ نہیں کھانا چاہیے۔پھلوں کو اُن وٹامنز اور معدنی نمکیات کا بہترین ذریعہ شمار کیا جاتا ہے جن کی رمضان میں انسانی جسم کو ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ موٹاپا اور وزن کم کرنے میں مدد گار ہوتے ہیں۔ اسی لیے یہ بہت اہم ہے کہ آپ ماہ رمضان میں پھلوں کو کھانے کے شدید خواہاں رہیں۔نمک اور مسالے تو آپ کی جانی دشمن ہیں۔ زیادہ نمک والی اشیاء یا اچار اور چٹنی یہ جسم سے پانی ختم کرنے کا عمل بڑھانے میں مدد گار ہیں۔ اسی کے سبب انسان کو مستقل صورت میں بالخصوص روزے کے دوران پیاس محسوس ہوتی ہے۔ ان کے زیادہ استعمال سے دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔روغنی کھانوں کے ساتھ افطار کی ابتدا کرنا اہم ترین غلطیوں میں سے ایک ہے۔ رمضان میں اس سے اجتناب لازم ہے۔ لہذا تلے ہوئے اور چکنائی والے کھانوں سے دور رہیں۔ افطار کے آغاز کے لیے بہترین چیز کھجور ہے۔ اس سے خون میں شکر کی سطح معتدل اور آسان صورت میں بلند ہو جاتی ہے۔ غذائی ماہرین کے مطابق سحری کا کھانا مرکب کاربوہائیڈریٹس اور ریشے دار غذا پر مشتمل ہونا چاہیے۔ ایسی غذا جس کے ہضم ہونے میں طویل وقت درکار ہو کیوں کہ یہ دن بھر انسان کو سیر ہونے کے احساس دلائے گی۔ ان غذاؤں میں بھورے چاول، آلو، مکمل گندم کی روٹی، اجناس، لوبیا، جئی اور شکر قندی شامل ہے۔بعض لوگ رمضان میں ورزش کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ تاہم ورزش کے تمام انسانی اعضا کے لیے کئی فوائد ہیں اور یہ صرف وزن میں کمی تک محدود نہیں۔ رمضان میں ورزش کا بہترین وقت افطار سے ایک گھنٹہ قبل یا پھر افطار کے کم از کم دو گھنٹے بعد ہے۔
ایک حکیم سے پوچھا گیا۔۔ زندگی میں کامیابی کیسے حاصل ہوتی ہے؟۔۔حکیم صاحب نے کہا، اس کا جواب لینے کیلیے آپ کو آج رات کا کھانا میرے پاس کھانا ہوگا۔ سب دوست رات کو جمع ہوگئے۔حکیم صاحب نے سوپ کا ایک بڑا برتن سب کے سامنے لا کررکھ دیا۔ مگر سوپ پینے کے لیے سب کو ایک ایک میٹر لمبا چمچ دے دیا۔ اور سب کو کہا کہ آپ سب کواپنے اپنے لمبے چمچ سے سوپ پینا ہے۔ ہر شخص نے کوشش کی،مگر ظاہر ہے ایسا ناممکن تھا۔ کوئی بھی شخص چمچ سے سوپ نہیں پی سکا۔ سب بھوکے ہی رہے۔ سب ناکام ہوگئے تو حکیم نے کہا۔۔ میری طرف دیکھو۔ اس نے ایک چمچ پکڑ ا، سوپ لیا اور چمچ اپنے سامنے والے شخص کے منہ سے لگا دیا۔ اب ہر شخص نے اپنا اپنا چمچ پکڑا اور دوسرے کو سوپ پلانے لگا۔ سب کے سب بہت خوش ہوئے۔سوپ پینے کے بعد حکیم کھڑا ہوا اور بولا۔۔ جو شخص زندگی کے دسترخوان پر اپنا ہی پیٹ بھرنے کا فیصلہ کرتا ہے، وہ بھوکا ہی رہے گا۔ اور جو شخص دوسروں کو کھلانے کی فکر کرے گا، وہ خود کبھی بھوکا نہیں رہے گا۔ دینے والا ہمیشہ فائدہ میں رہتا ہے، لینے والے سے۔ ہم سب کی کامیابی کا راستہ دوسروں کی کامیابی سے ہوکر گزرتا ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔سائنس کہتی ہے کہ بائیس جون سال کا سب سے بڑادن ہوتا ہے، لیکن نواپریل بھی کم نہیں تھا۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

مصنف کے بارے میں