یہ احمقوں کی صدی ہے

یہ احمقوں کی صدی ہے

ایک طالب علم نے اپنے ہم جماعت کی پیٹھ پر ایک کاغذ چپکا دیا جس پر لکھا تھا ”I'm Stupid“ اور باقی ہم جماعت لڑکوں سے کہا کہ لڑکے کو نہ بتائیں۔ سب ہنسنے لگے۔ دوپہر کو ریاضی کی کلاس شروع ہوئی اور ان کے استاد نے بورڈ پر ایک مشکل سوال لکھا۔سٹیکر والے لڑکے کے علاوہ کوئی بھی اس کا جواب نہیں دے سکتا تھا، وہ بورڈ کی طرف بڑھا اور مسئلہ حل کیا۔ استاد نے کلاس سے کہا کہ وہ اس کے لیے تالیاں بجائیں اور اس کی پیٹھ پر موجود کاغذ ہٹا دیں۔ ٹیچر نے لڑکے سے کہا: ”ایسا لگتا ہے کہ آپ اس کاغذ کے بارے میں نہیں جانتے جو آپ کے ہم جماعت نے آپ کی پیٹھ پر چسپاں کیا ہے“۔پھر استاد نے باقی کلاس کی طرف دیکھا اور کہا: ”اس سے پہلے کہ میں آپ کو سزا دوں، میں آپ کو دو باتیں بتاتا ہوں: سب سے پہلے، زندگی بھر، لوگ آپ کی ترقی کو روکنے کے لیے بہت سے بُرے الفاظ کے ساتھ آپ پر لیبل لگائیں گے۔ اگر آپ کے ہم جماعت کو اس سٹیکر کے بارے میں علم ہوتا تو وہ سوال کا جواب دینے کے لیے نہیں اٹھتا۔یہ واضح ہے کہ آپ سب کے درمیان اس کا کوئی وفادار دوست نہیں ہے جو اسے سٹیکر کے بارے میں بتائے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کے کتنے دوست 
ہیں۔ یہ وہ وفاداری ہے جو آپ اپنے دوستوں کے ساتھ بانٹتے ہیں جو اہم ہے۔آپ نے اپنے اوپر لگائے کسی بھی لیبل پر دھیان نہیں دینا۔ عمران خان کو بھی توشہ خانہ کی گھڑی پر دھیان نہیں دینا چاہیے کیونکہ یہ احمقوں کی صدی ہے۔ اس ملک میں سب کچھ وہ ممکن ہے جو آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہ 1998 کی بات ہے مصر میں مشہور ڈانسر فیفی عبدو کا طوطی بولتا تھا، حکومتی ایوانوں سے بزنس کلاس تک فیفی کے ٹھمکوں کی زد میں تھے۔قاہرہ کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں اپنے جلوے دکھانے کے بعد فیفی نے شراب پینے کیلئے بار کا رخ کیا، شراب زیادہ پینے کی وجہ سے وہ اپنے ہوش کھو بیٹھی اور بار میں ہنگامہ کھڑا کر دیا، ہوٹل میں وی آئی پیز کی سکیورٹی پر مامور پولیس آفیسر فوری وہاں پہنچ گیا، اس نے بڑے مودبانہ انداز میں فیفی سے کہا کہ آپ ایک مشہور شخصیت ہیں اس طرح کی حرکتیں آپ کو زیب نہیں دیتی۔ یہ آفیسر خوش مزاجی اور خوش اخلاقی کیلئے مشہور تھے اس ہوٹل میں قیام کرنے والی اہم شخصیات انہیں پسند کرتی تھیں، وہ ایک فرض شناس آفیسر تھے۔ فیفی کو پولیس آفیسر کی مداخلت پسند نہ آئی اس نے نشے کی حالت میں ہی اعلیٰ ایوانوں کا نمبر گھمایا اور پولیس آفیسر کا کہیں دور تبادلہ کرا دیا۔ اگلی شام جب فیفی کا نشہ اترا اس نے ہوٹل انتظامیہ سے پولیس آفیسر کے متعلق پوچھا اسے بتایا گیا کہ آپ نے اس کا تبادلہ کرایا ہے فیفی نے فون گھمایا سرکار نے پولیس آفیسر کو واپس ہوٹل رپورٹ کرنے کا حکم دیا۔ پولیس آفیسر نے پولیس سے متعلقہ وزیر کو اپنا استعفیٰ پیش کیا، ان دنوں وجدی صالح وزیر ہوتے تھے وزیر نے حیرت سے پولیس آفیسر سے پوچھا کہ اس ہوٹل میں ڈیوٹی کرنے کیلئے پولیس آفیسر بڑی بڑی سفارشیں کراتے ہیں آپ کو دوسرا موقع ملا لیکن آپ استعفیٰ پیش کر رہے ہیں؟ پولیس آفیسر نے تاریخی جواب دیا ”جس ملک میں ایک شرابی عورت کے اشارے پر ٹرانسفر اور ایک رقاصہ کے حکم پر واپسی ہو اس ملک میں کسی غیرت مند کا رہنا عار اور عیب ہے“۔ چند ماہ بعد اس آفیسر نے مصر ہی چھوڑ دیا آج وہ امریکہ میں اپنے بڑھاپے کے دن خوشی سے گزار رہا ہے۔یہ صرف ایک مصر کی کہانی نہیں ہے یہ ہمارے ہر غریب دیس کی کہانی ہے، یہ میرے ملک کی بھی کہانی ہے لیکن ہماری انفرادی اور اجتماعی غیرت مر چکی ہے۔ عدالت جس کو مرضی این آر او دے کیونکہ یہ احمقوں کی صدی ہے اور ہماری غیرت مر چکی ہے۔ رانا ثنا اللہ اپنے کیسز سے بری ہو یا سیلمان شہباز واپس آئے یا نواز شریف کے کیسز ختم ہوں۔ ہمیں کوئی غرض نہیں کیونکہ ہماری غیرت مر چکی ہے اور یہ احمقوں کی صدی ہے۔ یہاں سب کچھ ممکن ہے۔