جرأتِ کردار

جرأتِ کردار

مجموعی طور پر امت چھوٹے چھوٹے خانوں میں منقسم اپنی اپنی ڈفلی، اپنا اپنا راگ کی کیفیت میں ہے۔ پنبہ کجا کجا نہم! 5 فروری آیا، آنے جانے میں دو دن پاکستان کے طول وعرض میں کچھ ہلچل رہی جس سے بھارت کے کان پر جوں رینگنے کا اثر بھی کبھی نہ ہوا۔ نہ صرف کشمیر بلکہ بھارت بھر میں ہر جگہ مسلمانوں کو ظلم وستم اور کچل دیے جانے کا سامان ہے۔ ہندوؤں کو سر پر بٹھانے والے عرب ممالک اپنے اثر ورسوخ کو مسلمان بھائیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے رتی برابر بھی حصہ ڈالنے کو تیار نہیں۔ خود ہماری اپنی شہ رگ کشمیر کے لیے دونوں اطراف کی فضاؤں میں ایک واضح فرق دیکھا جاسکتا ہے۔ کشمیری ہم سے اپنا رشتہ کلمہ لاالہ الااللہ کے حوالے سے جتاتے ہیں۔ ہم نظریے کی بنیاد پر ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ اسی نام پر ان کے ہاں پاکستان، جہاد فی سبیل اللہ اور شہادت اصل بنیاد ہے۔ ادھر پاکستان، 5 فروری ثقافت کے رنگوں میں رنگ کر ڈرامے، ٹیبلو، موسیقی کے ساتھ مناتا ہے۔ ہماری جوان خوبصورت لڑکیاں چھانٹ چھانٹ کر اسٹیج پر ثقافتی حلیے، زیور، رنگینی کی چھب دکھاتیں، بال پھیلائے بلادوپٹہ میک اپ سے آلودہ صورتیں لیے اخبار میں دیکھ لیجیے۔ کیپشن: ’لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی کی یکجہتی کشمیر تقریب میں طالبات نے کشمیری ڈریس پہن رکھے ہیں۔‘ مسکراتی کھکھلاتی یہ اعلیٰ تعلیمی ادارے کی پڑی لکھی لڑکیاں کیا نہیں جانتیں کہ کشمیر کس حال میں ہے؟ یکجہتی کا اظہار کیسا ہو؟ پیلٹ گنوں سے ہمارے بچوں کی زائل بینائی، قید وبند کی لامنتہا صعوبتیں۔ لاپتگی کے خوفناک سانحے، آئے روز شہادتیں روتی کرلاتی تصاویر! ہم ہر سال دو تین مرتبہ سڑکوں پر بینر آویزاں کرنے کا زبانی جمع خرچ کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔ کشمیر ڈے سبھی اخبارات میں رنگ برنگی تصاویر، کشمیری ثقافت اور بیانات کے ساتھ منانے کا نام ہے۔ فتح کشمیر کے لیے سری نگر ہائی وے کا نام ہی کافی ہے! ایک وقت تھا کہ کشمیر کے نام پر چہرہ درد وغم سے تپ اٹھا کرتا تھا۔ ولولے، چھین کر آزادی دلانے کو نعرہ زن ہوا کرتے تھے۔ گزشتہ بیس سالوں نے ہمیں بے حسی کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینک دیا۔ اب کشمیریوں کا پرسان حال کوئی نہیں۔ ہوا کیا؟ 
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل 
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکے تو وہ لہو کیا ہے!
 اب ہمارے لہو کی قلفی جم چکی ہے۔ ہم نے نائن الیون کے بعد صرف افغان بھائیوں کی سرزمین اور لہو کا سودا نہ کیا تھا، جھونگے میں کشمیر بھی بھارت کو تھماکر صرف امریکا کی خوشنودی اور ڈالروں کی سودا گری کی تھی۔ ایک ہمی پر موقوف کیا، پوری امت مرچکی۔ کوئی کسی کا پرسان حال نہیں۔ بوسنیا اور یوکرین کے مسلمانوں کے سر پر تلوار لٹک رہی ہے۔ یمن پر امریکا بھرپور جنگ مسلط کرکے پھر اسے مسلمانوں کے حوالے کرکے ایک طرف ہوگیا۔ شام پر کون سی قیامت امریکا روس یورپ نے بشار الاسد کو تقویت دیتے نہ توڑی۔ اس کا تذکرہ بھی شہ سرخیوں میں نہیں۔ فلسطین کے تو مقدر ہی میں خونچکاں شرارے بھر رکھے ہیں۔ رجب، شب معراج یاد دلاتا گزر جائے گا، امت کے اپنے جھمیلے ہی بہت ہیں۔ اسرائیلی عزائم بد سے بدترین ہوئے چلے جا رہے ہیں۔ ہمارے نوجوان؟ پی ایس ایل میں مٹکنے لہکنے سے فرصت نہیں۔ اب بھی لاہور میں پی ایس ایل سے قبل کابینہ کی منظوری سے بھرپور ناچ گانے کا اہتمام تیار تھا۔ جسے سیکورٹی اور کورونا خدشات پر (خوفِ خدا نہیں!) منسوخ کرنا پڑا! مردہ ہے مانگ کے لایا ہے فرنگی سے نفس، کی تشخیص اقبال پہلے ہی کرچکے۔ نوجوان نسل کے بگاڑ پر نصابی حملے کچھ کم تو نہیں۔ نصابوں کے ساتھ حکومتوں کے کھلواڑ دیدنی ہیں۔ سیکولر لبرل مٹھی بھر دانشوروں کے شور شرابے پر جو تازہ ترین کتر بیونت کرکے یکساں قومی نصاب کا حلیہ بگاڑا گیا ہے، اس نے چھوٹی جماعتوں میں قومی شناخت مٹاکر رکھ دی ہے۔ اقبال اور قائداعظم پڑھانے تک کو تو گوارا نہیں کیا جا رہا۔ یہ شاہکار ہے لمز سے لاکر ہمارے بچوں کی فکری آبیاری کا سامان کرنے والی ڈاکٹر مریم چغتائی کا، جنہیں قومی نصاب میں بانیان کے تذکرے غیرضروری محسوس ہوئے! 15 مشاہیرِ اسلام جو بچوں کی کتب میں (فاتحین اور مسلم سائنس دان) موجود تھے، انہیں بھی کتابوں سے نکال باہر کیا۔ مطالعۂ پاکستان میں تحریک پاکستان کا حوالہ اسلامی بنیادوں کی بجائے ثقافتی حوالہ بنا دیا گیا۔ نسلوں کو بے دین، سیکولر بنانے کی چومکھی ہے جو بگاڑ کا مکمل سامان لے آ رہی ہے۔
 انسانی تاریخ کا ایک عظیم معجزہ ہے جو ہم سے ملحقہ سرحد پار 20 سال کے اندر برپا ہوا دیکھا۔ پوری دنیا کو دو انگلیوں کے درمیان سوشل میڈیا پر رکھنے والا آج کا مسلمان بالعموم اور نوجوان بالخصوص دم سادھے کیوں ہے؟ کیا اس نے پوری دنیا کی سائنس، ٹیکنالوجی اور سیکولر ازم کو چکنا چور ہوتے افغانستان میں نہیں دیکھا؟ اسلام کی عظمت وشوکت کا لہلاتا پرچم ہمارے نوجوان کا سرمایۂ فخر کیوں نہ بنا؟ اتنے دم بخود کر دینے والے معرکے پر امریکا یورپ کی سانس رک گئی مگر ہمارے جوں کے توں کچھ نام نہاد اسکالر، موٹی ویشنل اسپیکر اس سے نظریں چراتے، منہ پھیر کر گزر جاتے ہیں۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ نوجوان نسل کو اسلام کے نام پر اکٹھا کرکے پڑھانے کے نام پر جو کچھ جاری ہے اس کی ایک کلپ موصول ہوئی۔ اس میں چار لڑکے عمریں 14 تا 16 سال مساجد، خطبۂ جمعہ اور خطیب صاحبان پر گوہر افشانی فرما رہے ہیں۔ دکھایا یہ جا رہا ہے کہ ہم ’یوتھ‘ (نوجوانوں) کے سوالوں کے جواب نہیں دے پا رہے اس لیے وہ اسلام سے، مساجد سے بھاگتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ لڑکے بکنگھم پیلس یا وائٹ ہاؤس میں پیدا نہیں ہوئے۔ پاکستان ہی کے چھوٹے بڑے شہروں قصبوں کی خاک پھانک کر پلے بڑھے ہیں۔ ان کے کانوں میں اذان بھی دی گئی۔ مسلمان والدین، ننھیال ددھیال رکھتے ہیں۔ یکایک منہ ٹیڑھے کرکے فرنگی لہجے میں کیا فرما رہے ہیں، ملاحظہ فرمائیے۔ ایک سر چڑھا کہتا ہے: میری یہ ’جنرل آبزرویشن‘ ہے کہ فرائیڈے کے خطبے جو اردو میں ہوتے ہیں اس میں ایک ہی بات ہو رہی ہوتی ہے۔ نماز پر ہوگی، زکوٰۃ پر اگلی مرتبہ ہوجائے گی۔ بیچ ہی میں دوسرا لڑکا قہقہہ بار بولتا ہے۔ 313  مسلمان، جنگِ بدر، معراج کا واقعہ، بہت دفعہ سن لیا ہم نے۔ (313  پر سبھی ہنسے۔) حضرت جبرائیل، پروفیٹ کا دن، لگاتار 365 دن یہی سب کچھ مولوی وہی بتائے جا رہا ہے۔ ایک نے حوالہ دیا ڈاکٹر اسرار احمد اور ذاکر نائیک کا، تو یہ دریدہ دہن ان پر بھی چڑھ دوڑا۔‘ یوتھ کے نام پر انہیں بچے قرار دے کر کیا یوں مسلمات دین پر ہرزہ سرائی کو کھلا چھوڑا جاسکتا ہے؟ یہ گھاگ زبان دراز مزید بہت کو حوصلہ دیںگے جو جی میں آئے کہہ گزرنے کا۔ جس کی فزکس کمزور ہوتی ہے وہ کالی اسکرینوں پر بیٹھ کر نیوٹن آئن اسٹائن کے لتے نہیں لیتا، جاکر کسی ڈاکٹر پرویز ہود بھائی سے فزکس پڑھتا ہے۔ جس کا ایمان، اسلام کا فہم کمزور ہوتا ہے وہ اپنی جہالت کا کھلا اظہار اپنی جاہلانہ وڈیوز اپ لوڈ کرکے یہ نہیں کہتا کہ دنیا میں کوئی اسلام پڑھانے والا ہی موجود نہیں۔ (ترے دماغ میں بت ہوتو کیا کہیے!) یہ بے چارگی یا ’یوتھ‘ کی کس مپرسی یا بڑوں کی نااہلی خدانخواستہ نہیں ہے۔ انہوںنے اسلام پڑھا ہے پرویز ہود بھائی سے، اور فزکس، الیکٹرونکس پڑھ لی ہے طالبان سے۔ امریکی ہوائی بیڑے کے جہاز اور مایہ ناز ہیلی کاپٹر افغانستان کے طول وعرض میں طالبان کے ہاتھ گراؤنڈ ہوگئے! ایک وڈیو میں امریکی جہاز کے دو پروں پر دو طالب کھڑے ہیں، جس کے نیچے کیپشن لگی ہے: دو ونگ کمانڈرز! سو اب یہ بے چارے بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ 313  کا بدری حوالہ بھی تو کابل کا ہے، البدر الثانی کا! تاہم یہ ضرور ہے کہ یوتھ کے نام پر ضرر رساں ہرزہ سرا رویوں کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ سنجیدگی سے علماء سے بیٹھ کر قرآن، اسلام، تاریخ حدیث پڑھیے۔ علم سیکھنے کے لیے عجز درکار ہوتا ہے۔ ناز اور تکبر سے اینٹھ کر تو دنیاوی علم ہاتھ نہیں آتا، کجا کہ کاتب وہی فرشتوں کے ہاتھوں کا لکھا، جبرائیل امینؑ کے مبارک واسطے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر اترا رب کائنات کا آخری پیغام! جس کی قدر وقیمت پر حبشہ کی (عظیم) سیاہ فام باندی سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کے بہتے آنسوؤں کی مبارک لڑیاں گواہ ہیں کہ: ’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پردہ فرما گئے اب زمین وآسمان مابین رابطہ (بصورت وحی الٰہی) منقطع ہوگیا!‘ 
اے ناسمجھ نادان لڑکے اپنی لاعلمی اور کج فہمی پر توبہ کرو، کسی صاحب علم، عالم دین کے آگے عجز سے جاکر قرآن پڑھو۔
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جراتِ کردار
جراتِ کردار اسلامی شعائر پر چڑھ دوڑنے کا نام نہیں۔ کفر کی طاقتوں کو سرنگوں کرنے کا ہے صورتِ حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ!

مصنف کے بارے میں