حالی آٹا وِسمیا ناہیں

Aaghar Nadeem Sahar, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

رخشندہ نوید کا شمار بلاشبہ اردو کی ان چند تخلیق کار خواتین میں ہوتا ہے جن کے نہ تو موضوعات کا ٹکراؤ ہے اور نہ ہی انہوں نے ایک ہی موضوع کو بار بار مختلف شیڈز دیے بلکہ ہر تخلیق کو گزشتہ سے الگ کر کے لکھنے کی کوشش کی اور یہ خوبی بہت کم تخلیق کاروں میں نظر آتی ہے۔ورنہ اس کے برعکس یہ بات آج کے جدید شاعرکے ہاں خاص طور پر دیکھی جا سکتی ہے کہ اس نے یا تو ایک ہی خیال کو مختلف طریقوں سے برتا یا کلاسیکی خیال اور مصرعے چرا کر نئے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی۔دکھ تو یہ ہے کہ اس کوشش میں ہمارے کئی بڑے اور عہد ساز شعرا بھی پیش پیش نظر آئے۔اب المیہ یہ ہے کہ جدید شاعر ہونے کا لیبل بھی تو لگوانا تھا سو ایسے میں اس طرح کے تجربات ہی کام آئے۔ایک اور اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ آج ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں اس میں جو نعرہ شدت سے لگایا جا رہا ہے وہ جدیدیت اور جدید شاعری کاہے اور اس پر لسانی تشکیلات والوں نے بھی کمال کا ہنر دکھایا۔اب مسئلہ یہ ہے کہ ہم یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ ہم جدیدیت کسے کہیں اور جدید شاعری کسے کہیں‘کیا محض لفظوں کی بازی گری اور ڈکشن کی کنسٹرکشن ہی جدید شاعری کہلائے گی یا پھر ہیت اور اسلوب کے ساتھ معنویت کا بھی کوئی عمل دخل ہوگا۔عمومی طور پر اگر جدید شعرا(مردو خواتین)کی شاعری کا جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر نے تو انگریزی الفاظ کی بھرمار کو ہی جدید شاعری سمجھ لیا سو جینز‘ برگر‘ موبائل‘ ٹیکسٹنگ‘ چیٹ اور کئی اس طرح کے کھوکھلے لفظ جن کا اردو شاعری میں کسی بھی طرح سے کوئی خاص مطلب نہیں نکلتا تھا‘ زبردستی لگائے اور ان سے زبردستی معانی بھی وصول کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔مگر انتہائی خوشی کی بات یہ ہے کہ رخشندہ نوید جیسی تخلیق کاروں نے ایسے بے ہودہ تجربات سے ناصرف گریز کیا بلکہ روایت سے تعلق مضبوط رکھتے ہوئے جدید شاعری کا پلو تھاما۔
مذکورہ مجموعہ کلام جس کی زیادہ تر شاعری اصلاحی اور سماجی رویوں پہ ہے اور اس پہ خوشی کی 
بات یہ ہے کہ یہ ان کی مادری زبان میں ہے۔ایسے دور میں جب ہمارے اردو کے تخلیق کار انگریزی سے استفادے کے چکر میں پڑے ہوں‘ایسے میں مادری زبان سے ناتا جوڑنا یقینا قابلِ تحسین اور قابل توجہ ہے۔کیونکہ مادری زبان سے تعلق جوڑنے اور قبولنے کا مطلب یہ ہے کہ رخشندہ نوید اس زبان کی ثقافتی حیثیت کو بھی تسلیم کرتی ہیں اور اس کی تہذیبی شناخت کے حوالے سے بھی سنجیدگی سے سوچتی ہیں۔ورنہ تو ہمارے ہاں مادری زبانوں کے علاوہ بھی جو سلوک قومی زبان کے ساتھ کیا گیا‘اس پر صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ایک ایسا دور جب ہمارے بزرگ پنجابی بولتے ہوں‘ہم اردو بولتے ہوں اور ہمارے آنے والی نسل انگریزی بولتی ہوں اور مغرب زدہ ماحول کی پروردہ ہو‘ایسے میں مادری زبان سے تعلق بنائے رکھنا ایک جہاد ہے اور یہ جہاد رخشندہ نوید نے کیا جس پر داد تو بنتی ہے۔
نیا زفتح پوری نے نگارِ پاکستان میں شائع ہونے والے ستر کی دہائی میں اپنے ایک مضمون میں کہا تھا”میں نے جدید شاعری کی مخالفت کبھی نہیں کی لیکن اس کا جو مفہوم و اسلوب بعض جدید شعراء نے قائم کیا اس سے ضرور مجھے اختلاف تھا اور ہمیشہ رہے گا۔جب تک جدید شاعری کو محض آرٹ سمجھا جائے گا اور معنویت کو ناقابلِ اعتنا“۔میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ آج کے جدید نعرے باز شاعر نے شاعری کو محض آرٹ سمجھ لیا‘مشاعرہ لوٹنے اور مشاعرہ باز شاعر بننے کے چکر میں اس نے شاعری کی شکل بگاڑ کر رکھ دی مگر یقین جانیں آج بھی چند گنے چنے وہ تخلیق کار موجود ہیں جو ادبی محافل سے دور اپنی ایک الگ دنیا بسائے بیٹھے شعر کہہ رہے ہیں۔
ورنہ ہمارے ہاں آج بھی صورت حال ایسی ہی ہے جیسی آج سے پچاس سال قبل تھی۔جدید شاعری کے نعرے باز اور علمبردار شاعری کو محض لفظی جادوگری سمجھ کر معنوی ترقی کو پسِ پشت ڈال کر اِترا رہے ہیں۔آج سے نصف صدی پیچھے جب شاعری کے ساتھ ایسا ظلم کیا جا رہا تھااس زمانے میں بھی ”ادب برائے ادب“اور ”ادب برائے زندگی“کے علمبردار سامنے آئے۔یہ دونوں قبیلے بھی یہ بات بھول گئے تھے یا دانستہ نظر انداز کرتے رہے کہ ”ادب برائے ادب“بھی زندگی سے لبریز ہوتا ہے کیونکہ جس فن پارے میں زندگی کی لہریں نہ ہوں وہ ادب کہلایا ہی نہیں جا سکتا۔ایسا مردہ اور غیر متحرک ادب وقت کے ساتھ آپ اپنی موت مر جاتا ہے۔ادبی تفرقے بازی اپنی جگہ مگر دانستہ ایسے نظریات ادب کے سنجیدہ قاری پر زبردستی تھوپ دیے گئے۔یہی وجہ ہے کہ آج کا شاعر جس کے پاس کلاسیکی شاعری کا مطالعہ ہے اور نہ ہی معنوی تبدیلی کو قبول کرنے کی صلاحیت‘وہ بھی جدید شاعری کے نام پر اردو شاعری کا تماشا بنا رہا ہے۔ویسے بھی جب عظیم شاعری کا معیار فیس بک‘انسٹاگرام کے لائکس‘ کمنٹس اور شیئرنگ ہوں گی تو ایسی ہی پاپولر شاعری تخلیق ہوگی اور ایسے عظم شاعر پیدا ہوتے رہیں گے۔
 یہی وجہ ہے کہ میرا جدید شاعری کے حوالے سے نقطہ نظر مختلف ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ شاعری کو بالکل نئے خیال اور نئے تجربات کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔زبان کے آگے بلاشبہ بند نہیں باندھا جا سکتا مگر زبان کو خراب ہونے سے بچایا جائے کیونکہ زبان کا تخلیق کار کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہوتا ہے اور اگر تخلیق کار ہی اردو زبان کی بے حرمتی کرنا شروع کر دے گا توپھر ہم مغرب زدہ تعلیمی اداروں سے کیسے شکوہ کر سکیں گے کہ وہ ہماری زبان اور شناخت مٹانے کا کام کر رہے ہیں۔رخشندہ نوید اور ان جیسے دیگر تخلیق کاروں کے لیے ہمیشہ میرے دل سے دعا نکلتی ہے۔یہ وہ سچے اور کھرے لوگ ہیں جنہوں نے ناصرف قومی زبان کو بچایا بلکہ مادری زبان کی بھی توقیر بڑھائی۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں درجنوں اشعار ایسے ہیں جن پر دل سے واہ نکلتی ہے ورنہ اگر یہ بھی محض مشاعرے باز شاعرہ ہوتیں تو شاید دیگر مشاعرے بازوں کی طرح ان کے پاس مشکل سے دو چار شعر کام کے نکلتے۔میری رخشندہ نوید کے شعری مستقبل کے لیے بہت ساری دعائیں اور نیک تمنائیں ہیں۔