یہ دھرتی یہ جیون ساگر یہ سنسار ہمارا ہے

یہ دھرتی یہ جیون ساگر یہ سنسار ہمارا ہے

حضرت آدم ؑ کو جنت میں سوائے شجرِ ممنوعہ کے تمام زرعی پیداوار کے استعمال کا اذن عام تھا۔ پھر باغِ عدن میں بھی بقائے زندگی کے لیے تمام اشیائے خور و نوش موجود تھیں۔ اس لحاظ سے پہلا انسان ہی پہلا کسان بھی ہے۔ یہ بات بھی بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اس روئے زمین پر بچنے والا آخری انسان بھی آخری دم تک زراعت ہی کا پیشہ اختیار کیے ہوئے ہو گا۔ پھر جب آدم ؑ کے بعد دنیا کی پہلی آبادی وجود میں آئی تو بنی آدم کا پیشہ صرف زراعت اور غلہ بانی ہی تھا۔ اپنی انتھک محنت اور لگن سے کسان نے اس کرہ ارض کو انواع و اقسام کی فصلوں، باغوں، پھلوں اور پھولوں سے آراستہ کر کے رشکِ فردوس بنایا اور خوراک کے ہر معاملے میں خود کفالت کی منزل کو پا لیا۔ کسان کی لگن اور انتھک محنت کے باعث جب ضرورت سے زیادہ اناج پیدا ہونا شروع ہوا اور اسے ذخیرہ کرنے کی نوبت آ پہنچی تو پھر ایسی بستیاں وجود میں آئیں جو بعد میں قصبات اور پھر شہروں کی شکل اختیار کر گئیں۔ گرزتے وقت کے ساتھ دنیا واضح طبقات میں بٹ گئی یعنی ایک دیہاتی تو دوسرا شہری۔ وقت کے ساتھ ساتھ کسان کے پیدا کردہ اناج اور دیگر زرعی پیداوار کو ذخیرہ کرنے والے لوگ تعلیمی، ذہنی، معاشی اور معاشرتی طور پر ترقی یافتہ ہو گئے اور خود کو مہذب شہری سمجھنے لگے، مگر کسان کسی صلے اور ستائش سے بے نیاز خوراک پیدا کرنے کے عمل میں مصروف رہا۔ آج جب دنیا ترقی یافتہ ہو چکی ہے پھر بھی یہ کسان اناج پیدا کر کے نسلِ انسانی کی بقا کی ضمانت فراہم کر رہا ہے۔ انسانی دنیا میں کسان بہت اہمیت کا حامل ہے گندم سے لے کر دال تک، چاول سے لے کر چینی تک کسان کی محنت کا نتیجہ ہے۔ ہمارا کسان جھلسانے والی گرمی، بارش، طوفان اور دیگر زمینی اور آسمانی آفات کی پروا کیے بغیر دن رات کی انتھک محنت سے ہمارے لیے خوراک پیدا کرنے کا واحد وسیلہ ہے۔ اگر کبھی کسان ناکام ہو جائے تو پوری نسلِ انسانی ختم ہو جائے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی 70فیصد آبادی زراعت پر منحصر ہے لیکن پھر بھی پاکستان کا کسان دن بہ دن زوال کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ کسان روزِ اول سے ہی ہمارے ملک کی ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں لیکن ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے کسان کے اپنے جسم کی ہڈی ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے۔ اسی لیے شاعر کہتا ہے۔
ہار اور جیت کا امکان کہاں دیکھتے ہیں
ہم گاؤں کے لوگ ہیں نقصان کہاں دیکھتے ہیں
بھوک سے مر جاتے ہیں زمین نہیں بیچتے
ہم گاؤں کے لوگ ہیں ضمیر نہیں بیچتے
ہمارا کسان بے حد محنتی اور جفا کش انسان ہے۔ وہ اپنا خون پسینہ ایک کر کے بلاناغہ کھیتوں پر کام کرتا ہے مگر اس کے باوجود مفلوک الحال اور پس ماندہ ہے۔ ہمارے کسان کو ایک طبقے نے شعوری طور پر پابندِ زنجیر کر رکھا ہے۔ ہمارے کسان کا سب سے بڑا مسئلہ پیسے کا ہے ان کے پاس پیسے ہبت کم ہوتے ہیں اور ان کو فصل کی بوائی اور کاشت کے لیے روپے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے وہ آڑھتیوں کے پاس جاتے ہیں تو وہ کسان کو بھاری سود پر قرض دیتے ہیں۔ سود کے ساتھ ساتھ جب ان کی فصل پک کر تیار ہوتی ہے تو ان کو بحالتِ مجبوری فصل بھی ان ہی ساہوکاروں کو دینا پڑتی ہے جس کے باعث وہ اپنی من مرضی کا ریٹ لگاتے ہیں، سود کاٹ کر جب آخر میں حساب کیا جاتا ہے تو کسان خالی ہاتھ رہ جاتا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ زراعت اور اس سے چلنے والی صنعتوں پر منحصر ہے۔ ملکی برآمدات کا نصف سے زائد انحصار ٹیکسٹائل مصنوعات پر ہے۔ زراعت کا شعبہ نہ صرف عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرتا ہے بلکہ اس کے علاوہ مختلف شعبوں میں عوام کے معیارِ زندگی کو بلند کرنے اور صنعت و ملکی معیشت کی ترقی میں کردار ادا کرتا ہے۔ شہر وں میں بیٹھے بڑے فیکٹری مالکان کے کاروبار اچھی فصلوں سے ہی ترقی کے منازل طے کر رہے ہوتے ہیں اور کسان دن رات محنت میں لگے رہتے ہیں۔ ان کسانوں کے دم سے لاکھوں لوگوں کو روٹی اور روزگار مل رہا ہوتا ہے جبکہ ان غریبوں کو آج تک نا تو اپنی فصلوں کا مارکیٹ میں صحیح سے معاوضہ ملا ہے اور نا ہی کسی قسم کا ریلیف۔ ایک دہقان جو مٹی کو سونا بنانے کی لیاقت رکھتا ہے، جو بنجر زمین کو سر سبز و شاداب کھیتوں میں تبدیل کرتا ہے اور انسانوں کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ آج قرضوں کے بوجھ تلے دبا پاکستان کا وہی غریب کسان خودکشی پر مجبور ہے۔ دنیا کا تن ڈھانپنے کا سامان کرنے والے کے اپنے بدن پر موزوں لباس بھی نہیں ہوتا۔ بقول شاعر
اُٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ اُمرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہئ گندم کو جلا دو
پچھلے کئی سال سے زراعت کا اہم شعبہ عدم توجہی کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے۔ آج یہ حالت ہے کہ کسان پے در پے مصیبتوں اور آفتوں سے نیم جاں پڑا ہے، زراعت مکمل تباہی کے راستے پر ہے ہر سال پنجاب اور سندھ کے زرخیز میدانوں میں ٹڈی دل راج کرتی ہے۔ زراعت کے شعبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ملکی افرادی قوت کی اکثریت شعبہِ زراعت سے منسلک ہے لیکن پاکستان کے کسان ہر سال ہو رہی ماحولیاتی تبدیلیوں، ناقص حکومتی پالیسیوں اور دن بہ دن بڑھتی مہنگائی کے باعث مشکلات کا شکار ہیں۔ کھاد، کیڑے مار سپرے اور ادویات کی قیمتیں آسمان سے بات کرتی ہیں اس کے باوجود ان تمام ادویات کے معیارکے تعین کا ہمارے ملک میں کوئی نظام موجود نہیں۔ بدلتی ضروریات، زمانے کی تیزی اور صورتحال کی بدولت ملکی اکثریت اس شعبے کو ترک کر کے دیگر شعبوں سے منسلک ہونے پر مجبور ہے۔ زراعت کی اہمیت کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے زراعت اگر اہم ہے تو پھر کسان کسی صورت بھی غیر اہم نہیں ہو سکتا، اسے نظر انداز کرنا صرف کسان کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اپنے ملک کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔ زراعت سے وابستہ 80فیصد لوگ منافع بخش سمجھی جانے والی فصلوں میں شمار ہونے والی کپاس کی فصل کاشت کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں گندم باہر سے درآمدکی جاتی ہے جہاں کے کسان لائنوں میں لگ کر اپنی گندم فروخت کرتے ہیں اور کوئی خریدار نہیں ہوتا۔ ہر گزرتا دن محنتی اور جفاکش کسانوں کے لیے مایوسیاں اور نئی پریشانیاں لے کر طلوع ہوتا ہے۔ ان کسانوں کی زندگی ہل چلاتے بیچ بوتے گزر جاتی ہے مگر قرض کا بوجھ ہے کہ کم ہونے میں ہی نہیں آتا۔ کسی بھی حکومت نے اس متوسط طبقے کی خود مختاری کے لیے کبھی صدق دل سے کوئی اقدام کیا ہی نہیں، قرضوں کی نت نئی سکیموں کے جال میں پھنس کر ان کی ساری زندگی ذہنی اذیتوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو پھر کسان شاید صرف اپنے کھانے کے لیے فصلیں پیدا کریں گے۔ حکومتِ پاکستان کو ان تمام مسائل کا حل نکالنا ہو گا اگر ہمارے ملک کے کسان ایسے ہی زبوں حالی کا شکار رہے تو وہ فصلیں نہیں کاشت کر پائیں گے۔ فصلیں اگر کاشت نہ کی گئیں تو پاکستان کا جی ڈی پی کیسے بڑھے گا اور پاکستان کیسے ترقی کرے گا۔