اقتدار کی سیاست اور تقابلی جائزہ

اقتدار کی سیاست اور تقابلی جائزہ

کسی بھی ریاست کی کارکردگی کا کوئی معیار طے کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ اس کا موازنہ اسی خطے کے کسی آس پاس کی دوسری ریاست سے کر یں تو آپ کو  معاملات سمجھنے میں کافی رہنمائی مل جاتی ہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان نئے قرضے کی فراہمی پر پاکستان کو جتنی رسوا کن شرائط سے گزرنا پڑا اس پر وزیراعظم  شہباز شریف کا بیان تھا کہ 2 ارب ڈالر کے لیے ہمیں ناک سے لکیریں نکلوا دیں۔ جی ہاں وہ بھی صرف 2 ارب ڈالر کے لیے۔ اسی دوران پاکستانی حکام اعلیٰ کے دوست ممالک کے وہ دورے بھی مدنظر رکھیں جن میں قطر سعودیہ امارات چائنہ نے حسب توفیق پاکستانی خزانے میں حصہ ڈالا۔ آئیں اب اس خبر کا موازنہ بارڈر پار انڈیا کے ساتھ کرتے ہیں جہاں اس ہفتے انڈیا کی تاریخ کی سب سے بڑی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ انڈیا کی Reliance industries نے جام نگر میں سعودی پٹرولیم کمپنی Aramco کے ساتھ75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا ہے جس کے تحت انڈیا میں ایک آئل ریفائنری قائم کی جائے گی جس کے ساتھ سٹوریج کی وسیع سہولت ہو گی جہاں سعودی عرب اپنا زائد پٹرول ذخیرہ کرے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ معاہدہ انڈین حکومت نے نہیں بلکہ انڈیا کی ایک نجی سرمایہ کاری کمپنی نے کیا ہے جو کہ مکیش امبانی کی ملکیت ہے۔ آپ یہ سن کر مزید حیران ہوں گے کہ 75 ارب کی یہ سرمایہ کاری مکیش امبانی کی کمپنی کا صرف 20 فیصد شیئر کے برابر ہے اب آپ کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ پاکستانی حکام ملک سے باہر تشریف لے جاتے ہیں تو مذاکرات کا محور و مرکز یہ ہوتا ہے کہ ہمیں قرضہ یا امداد دی جائے جبکہ انڈیا کا معاملہ یہ ہے کہ وہ تجارت اور سرمایہ کاری کی بات کرتے ہیں دونوں طرف کے نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ Aramco اور Reliance کمپنی کے اس معاہدے میں ایک وقت ضرور آئے گا جب سعودیہ کی انڈیا کے اندر موجود آئل ریفائنری سے انڈیا کو سستے داموں پٹرول مل سکے گا اور جب اس تیل پر بار برداری کے اخراجات نہیں ہوں گے تو اس کی قیمت اور کم ہو جائے گی۔ انڈیا پہلے ہی روس سے عالمی مارکیٹ کے مقابلے میں سستا تیل خرید رہا ہے اور اگر ایران سے پابندیاں ہٹ جاتی ہیں تو وہ پہلے ہی معاہدوں کے تحت انڈیا کو عالمی منڈیوں سے کم قیمت پر پٹرول سپلائی کرتا رہا ہے یعنی اب انڈیا کے پاس ایک نہیں دو نہیں بلکہ تین ایسے ممالک روس سعودیہ اور ایران کی حکومت میں موجود ہیں۔ یہ ہوتی ہے خارجہ پالیسی۔ 
انڈیا کے برعکس ہمارے ہاں اس وقت قومی سطح پر کچھ بھی نہیں ہو رہا طوائف الملوکی کا ایک دور دورہ ہے جس میں حکومتیں بنانے اور حکومتیں گرانے کے سوا اور کوئی شغل نہیں ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا بیان ہے کہ پنجاب میں حکومت کی تبدیلی خارج از امکان نہیں۔ یہاں جس طرح ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت ہوتی ہے اس کا کچھ نہ کچھ اندازہ تو آپ اس ہفتے کی ویڈیو لیکس سے لگا سکتے ہیں۔ افتخار درانی صاحب اپنے لیڈر عمران خان کو کہہ رہے ہیں کہ 5 ممبر تو میرے پاس ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ اگر وہ 5 ہمیں اور دے دے تو گیم ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اس ویڈیو سے ملتی جلتی صورت حال اس وقت پنجاب میں ہے۔ پس دیوار بہت سی چیزیں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ پرویز الٰہی صاحب کو بھی پتہ ہے کہ وہ ایک صبح اٹھیں گے تو وہ وزیراعلیٰ نہیں ہوں گے لہٰذا انہوں نے پنجاب کے خالی خزانوں کی آخری بوندیں نچوڑ لی ہیں دو ارب روپے سے زیادہ کی سڑکوں کی تعمیر کے منصوبے صرف گجرات اور منڈی بہاؤ الدین کے لیے ہیں جو ان کا انتخابی پاور ہاؤس ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو 5 خصوصی مشیر رکھنے کی اجازت ہے مگر ان کے مشیران اور معاونین خصوصی کی تعداد 43 یا اس سے بھی تجاوز کر چکی ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ سب اعزازی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے 13 ایسے ہیں جن کو سرکاری گاڑی سرکاری ڈرائیوز بمعہ پٹرول کی سہولت حاصل ہے۔ پرویز الٰہی کا موقف یہ ہے کہ جب وزیراعظم 74 رکنی کابینہ رکھ سکتا ہے تو پھر وزیراعلیٰ کو بھی حد سے تجاوز کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اس پر ہمیں انڈین فلم بھائی بھائی کا مشہور گانا یاد آرہا ہے کہ 
جس کا بڑا بھائی ہو شرابی
چھوٹا پئے تو کیا ہے خرابی
ویسے یہ سب آپس میں بھائی بھائی ہیں پرویز الٰہی نے عدم اعتماد کے دوران اصل معاہدہ تو PDM کے ساتھ کیا تھا بعد میں وہ منحرف ہو گئے ہو سکتا ہے اگلے الیکشن کے بعد ایک بار پھر PDM کے ساتھ آجائیں۔ 
میاں نواز شریف 3 سال کی خاموشی کے بعد میڈیا پر واپس آئے ہیں لندن میں ایک پریس کانفرنس کی فوٹیج ریلیز کر دی گئی ہے جس میں مریم نواز ان کے ساتھ بیٹھی ہیں۔ میڈیا پر آنے کے فیصلے کے پیچھے بھی مریم نواز کا دخل ہے۔ میاں صاحب کافی ناراض اور دل گرفتہ ہیں کہ گزشتہ 5 سال میں ان کے ساتھ جو ہوا اس کا حساب کوئی دے گا انہوں نے اپنی قید کا خصوصی ذکر کیا جس دوران ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کا انتقال ہو گیا اور آخری وقت میں جیل سے انہیں فون پر بات کرنے کی اجاز ت نہیں دی گئی انہیں یہ بھی رنج ہے کہ میڈیا میں بیگم صاحبہ کی بیماری کا مذاق اڑایا گیا۔ اس گفتگو میں انہوں نے فوج کا براہ راست نام لینے سے گریز کیا مگر انہیں اس سے زیادہ اعتراض عدلیہ پر تھا کہ کس طرح یکطرفہ فیصلے کر کے انہیں تاحیات نا اہلی کی سزا دی گئی جبکہ آج وہی عدالتیں تاحیات نا اہلی کو Draconian Law یا ظالمانہ قانون کہہ رہی ہیں۔ آنے والے دنوں میں فیصل واوڈا کی تاحیات نا اہلی کیس کے فیصلے سے غالب امکان یہی نظر آرہا ہے کہ نا اہلی سے تاحیات کا لفظ نکال دیا جائے گا جو نوا زشریف کے چوتھی بار وزیراعظم بننے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ 
حالیہ سیاسی حالات میں عمران خان کی لانگ مار چ کی کال کافی اہمیت کی حامل ہے جسے وہ فائنل کال کہہ رہے ہیں مگر تاریخ دینے سے گریزاں ہیں اس کی دو وجوہات ہیں یا تو وہ بیک چینل مذاکرات کر رہے ہیں یا پھر انہیں لانگ مارچ کی کامیابی کا پورا یقین نہیں ہے جس کی وجہ سے فضا کلیئر نہیں ہو رہی یا پھر یہ دونوں وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لانگ مارچ کا ایک تیسرا مسئلہ بھی ہے اس کا کروڑوں روپے کا خرچہ کون بھرے گا۔ پرانے سپانسر تو دل برداشتہ ہو کر پارٹی چھوڑ چکے ہیں کسی نئے کے بس کی بات نہیں ہے۔ پرانے سپانسر سے یاد آیا کہ علیم خان نے لندن میں حسین نواز کے دفتر میں نواز شریف سے ملاقات کی ہے جو خفیہ رکھی جا رہی تھی مگر کسی طرح سے آؤٹ ہو گئی یہ ملاقات پنجاب میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی اور علیم خان کی ن لیگ میں شمولیت کے امکانات کے تناظر میں ہوئی ہے۔ 
صدر پاکستان محترم عارف علوی کی طرف سے حکومت اور اپوزیشن کے دوران ’بیچ بچاؤ‘ کرانے کی بات آگے نہیں بڑھ سکی بلکہ اس وجہ سے عمران خان اپنے دیرینہ ساتھی عارف علوی سے ناراض ہو گئے ہیں۔ صدر پاکستان نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا ان کا کہنا تھا کہ اس پر تحقیقات ہونی چاہیے صدر پاکستان نے گزشتہ 4 سال تمام قاعدے قانون اور ethics کو بالائے طاق رکھ کر تحریک انصاف کی اندھا دھند حمایت کی مگر اب وہ کہتے ہیں کہ وہ غیر جانبدار ہیں ان کا کسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ویسے صدر کے منصب کے عزت و وقار کا تقاضا بھی یہی ہے۔ ویسے بھی عارف علوی صاحب اندر سے سمجھتے ہیں کہ ان کی سابقہ پارٹی اب اور انہیں کیا دے گی صدر سے بڑا تو کوئی منصب ہی نہیں دیگر یہ کہ تحریک انصاف کے اپنا صدر لانے کے امکانات نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہوا بھی تو عارف علوی صاحب کا دوبارہ منتخب ہونے کا چانس نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ عمران خان ان کی بابت غصے میں ہیں۔ 
جہاں تک لانگ مارچ کی بات ہے تو عمران خان کا سارا پریشر بلڈ اپ نئے آرمی چیف کی تقرری کے فیصلے میں حصہ دار بننے کا ہے وہ حکومتی رائے کو متاثر کرنا چاہتے ہیں جس کا امکان بہت کم ہے۔ آرمی چیف کے دورہئ امریکہ کے بعد اپوزیشن پہلے سے زیادہ بے بس اور فرسٹریشن کا شکار ہے۔ صدر علوی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ نئے آرمی چیف کے تقرر پر حکومت اور اپوزیشن میں مشاورت ہونی چاہیے۔ صدر پاکستان کو اندر سے پتہ ہے کہ جب اپوزیشن اسمبلیوں سے استعفیٰ دے چکی ہے تو پھر مشاورت کیسے ہوگی۔ عمران خان نے اسمبلیوں سے اجتماعی استعفیٰ دے کر بہت بڑی غلطی کی جس کے مزید ثمرات انہیں نگران حکومت کے قیام کے وقت بھی چکھنا پڑیں گے۔

مصنف کے بارے میں