فائنل راؤنڈ

فائنل راؤنڈ

سیاست میں ان دنوں خاصی گرما گرمی ہے۔ عمران خان جلسہ پر جلسہ کر رہے ہیں تاہم ان کے جلسوں میں شرکا کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ ٹی وی چینل کا حال یہ ہے کہ وہ عمران خان کا جلسہ دکھانا بھی چاہتا ہے مگر اس کے لیے اپنے پلے سے کچھ خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جو فیڈ تحریک انصاف انہیں فراہم کر رہی ہے وہی چلانے پر مجبور ہے۔ تحریک انصاف کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ چند سو لوگوں کو لاکھوں کا اجتماع دکھائے۔ تحریک انصاف کے پاس سٹاک میں فوٹیج موجود ہوتی ہے جسے وہ خوب استعمال کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ساؤنڈ سسٹم میں موجود نعروں اور تالیوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ دو نمبری کرنے میں اس جماعت کو کمال حاصل ہے۔ سائبر بریگیڈ کو بھرتی کرکے حکومت کے سارے وسائل اس میں جھونک دیے گئے۔ خیبر پختونخوا میں اساتذہ کو تنخواہ نہیں ملتی مگر اس بریگیڈ کو فوری ادائیگیاں کی جاتی ہے۔ اب یہ سلسلہ پنجاب میں بھی جاری ہے۔ ارسلان بیٹے کو یہاں بٹھایا گیا ہے اور حکومت کے وسائل اس کی دسترس میں دے دیے گئے ہیں۔ ان کے چہرے سے نقاب اتر رہے ہیں تاہم ان کی پوری کوشش ہے کہ اپنے آپ کو بچایا جائے۔ عمران خان کی جھوٹی سلطنت ان کے ہاتھ سے سرک رہی ہے۔ آڈیو لیکس نے ان کے اصل کردار کو بے نقاب کر دیا ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ عمران خان کی پریشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ جو گڈی چڑھانا جانتے ہیں وہ اتارنے کے ہنر سے بھی واقف ہیں۔ سونے کا جو پانی چڑھایا گیا تھا وہ آہستہ آہستہ اتر رہا ہے۔ 
نئے پاکستان کی تعمیر راستے میں رہ گئی ہے اور اب حقیقی آزادی کا جنون سوار ہے۔
پاکستان کی سیاست میں یہ پہلا لیڈر ہے کہ جس کی حکومت ختم ہوئی لیکن ابھی تک آزاد گھوم رہا ہے۔ مقدمات قائم ہوئے مگر گرفتاری نہیں ہوئی، یہ سب کسی ڈیل کا نتیجہ ہے یا جان بوجھ کر عمران خان کو ہاتھ نہیں لگایا جا رہا اور اس کا فائدہ اٹھا کر وہ جگہ جگہ جا کر لوگوں سے حلف لے رہا ہے۔ جس دن سرکاری مشینری حرکت میں آئی حلف دینے اور لینے والوں میں بہت سے گھروں میں دبک کر بیٹھ جائیں گے۔ عمران خان عرب سپرنگ ڈھونڈ رہا ہے اور اسی ماڈل کے تحت کام کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا سارا زور سوشل میڈیا پر ہے۔ ٹوئیٹر کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی کا تجربہ پہلے بھی کامیاب ہو چکا ہے اور اب یہ تجربہ پاکستان میں کیا جا رہا ہے۔  کئی برس تک عمران کو ٹی وی سکرین پر بٹھا کر مخالفین کی کردار کشی کی مکمل اجازت دی گئی۔ کوئی روک ٹوک نہیں تھی جس کو چاہا غدار بنا دیا اور جو ساتھ آ گیا اس کے سارے گناہ دھل گئے۔
کل ہی موصوف فرما رہے تھے کہ یہ لوگ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے میری گندی گندی ویڈیوز بنا رہے ہیں تاکہ کردار کشی کی جا سکے۔ جعلی آڈیوز بنائی جا رہی ہیں۔ گندی ویڈیوز کا ذکر عمران خان پہلے بھی کر چکے ہیں اور اب جلسوں میں اس کا ذکر اس لیے کر رہے ہیں کہ اگر اس طرح کا مواد سامنے 
آئے تو یوتھیوں کے پاس کچھ تو ہو کہ وہ اپنا چورن بیچ سکیں۔ اسے حفاظت خود اختیاری کا نام دیا جا سکتا ہے یا ڈیمیج کنٹرول کرنے کی کوشش۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ یہ ویڈیوز کسی بھی وقت منظر عام پر آ سکتی ہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف نے عدالت میں جانے کا اعلان بھی کیا ہے لیکن ابھی تک گئے نہیں۔ اپنے ٹیلی فون کی ریکارڈنگ کا دفاع وہ خود اپنے انٹرویوز میں کر چکے ہیں کہ انہیں اس بات کا کوئی خوف نہیں کہ ان کا فون ٹیپ ہوتا ہے۔ آج بھی ان کا موقف ہے کہ ایجنسیوں کو وزیراعظم کی محفوظ لائن کو بگ کرنا چاہیے مگر اسے پبلک نہیں کرنا چاہیے۔ گندی گندی ویڈیوز کی رٹ لگانے سے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ اپنی سابق بیوی ریحام پر ہتک عزت کا دعویٰ کریں کہ انہوں نے اپنی کتاب میں عمران خان اور ان کے ارد گرد نظر آنے والے ساتھیوں کو بیچ چوراہے ننگا کر دیا تھا۔ وہاں کچھ کیا نہیں اور اب جلسوں میں واویلا مچا رہے ہیں۔ 
عمران خان کے گرد آہستہ آہستہ شکنجہ کسنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ حکمران اتحاد کسی بھی صورت انہیں کوئی موقع نہیں دینا چاہتا کہ وہ ایک بار ہیرو بن جائیں۔ آڈیو لیکس نے ان کی سیاست پر بہت اثر ڈالا ہے اور اگر اس طرح کی کچھ اور لیکس آ گئیں تو عمران خان کی لیکیج بند نہیں ہو گی۔ جس دن شہباز شریف کی آڈیو لیکس آئی تھی اور ہیکر نے مزید آڈیوز ریلیز کرنے کا اعلان کیا تھا اس دن پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے لوگ ہیکرز سے یہ درخواستیں کر رہے تھے کہ وہ جلد از جلد مزید آڈیوز سوشل میڈیا کی زینت بنائے مگر جب عمران خان کی ویڈیوز آنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو وہ میاں نوازشریف اور مریم نواز کی آڈیوز کو جوڑ کر میڈیا پر چلا رہے ہیں کہ دیکھیں یہ کام تو کوئی بھی کر سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان تمام آڈیوز کا فرانزک کرائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔
عمران خان کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ ایف آئی اے نے درج کر لیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مقدمہ میں انہیں کب گرفتار کیا جاتا ہے۔ یہ مقدمہ الیکشن کمیشن کے ممنوعہ فنڈنگ کے فیصلے کی روشنی میں درج کیا گیا ہے جس میں یہ ثابت ہو گیا تھا کہ پی ٹی آئی نے بیرون ملک سے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی تھی۔ اس مقدمہ کے بعد ان کی جماعت پر پابندی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ ایف آئی اے نے جو پرچہ درج کیا ہے اس میں عمران خان کے علاوہ تحریک انصاف کے دوسرے کئی رہنما بھی شامل ہیں۔ اس سے پہلے کہ عمران خان لانگ مارچ کا اعلان کریں اور پھر حکومت انہیں گرفتار کرے اور وہ ایک بار پھر ہیرو بن جائیں حکومت اس سے پہلے ہی اس مقدمہ کو آگے بڑھائے اور اگر عمران خان اپنی گرفتاری کے خلاف عدالت سے داد رسی چاہتے ہیں تو وہ عدالت سے رجوع کا حق استعمال کر سکیں۔ آج اسلام آباد ہائی کورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں جعلی حلف نامہ جمع کرانے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے درج مقدمے میں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی۔ اب پولیس انہیں منگل تک گرفتار نہیں کر سکے گی اور اس دن وہ متعلقہ عدالت میں پیش ہوں گے۔
 وقت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ شہبازشریف اور حمزہ شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے اور ان کی بریت پر فیصلہ محفوظ ہو چکا ہے اور عمران خان منی لانڈرنگ میں پھنس گئے ہیں۔ کروڑوں ڈالر بیرون ممالک سے وصول کرنے کا الزام الیکشن کمیشن میں ثابت ہو چکا ہے اب حکومت اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے تاہم یہ احتیاط ضرور کی جا رہی ہے کہ ایک چھوٹی سی غلطی کہیں ان کے لیے وبال جان نہ بن جائے۔ عدالت میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف ایف آئی اے منی لانڈرنگ کے مقدمہ میں کوئی بھی گواہ پیش نہیں کر سکا۔یاد رہے کہ ایف آئی اے نے نومبر 2020 میں ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ، کرپشن کی روک تھام ایکٹ اور انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو شوگر سکینڈل میں منی لانڈرنگ کے کیس کا سامنا ہے، جب کہ سلیمان شہباز برطانیہ مفرور ہیں۔
فائنل راؤنڈ کی تیاری مکمل ہو چکی ہے۔ حکومت نے بھی اپنی صفوں کو درست کیا ہے اور عمران خان نے بھی اپنے لشکر کو ترتیب دے لیا ہے۔ گھمسان کی اس جنگ میں جیت کس کی ہو گی کچھ کہا نہیں جا سکتا مگر ایک بات تو سو فیصد کہی جا سکتی ہے کہ اس کا نقصان ملک اور قوم کو ہو گا اور اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑے گا۔

مصنف کے بارے میں