بھوک

بھوک

عوامی مسائل یکطرفہ مگر ہر صوبے میں اس وقت سیاسی کشیدگی اپنے عروج پہ ہے۔عام آدمی کو دو وقت کی روٹی کے لیے آٹا میسر نہیں لوگ لمبی،لمبی لائینوں میں لگنے پہ مجبور ہیں سارا دن لائینوں میں لگنے کے باوجود بہت سے لوگ تو مایوس ہی گھر واپس جاتے ہیں یا پھر بھیڑ تلے آکے روندے جاتے ہیں آخر یہ سب کیا ہے؟اور کیسے حالات بہتری کی جانب جائیں گے۔ اصل میں سیاسی لیڈران خوف خدا،مسلمانیت اور ریاست مدینہ کی باتیں تو کرتے ہیں مگر درحقیقت وہ خوف خدا سے عاری ہو چکے ہیں۔حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں ایک بار گھی مہنگا ہو گیا تو انہوں نے کھانا ترک کر دیا اور کہا کہ جب تک ہر شخص کو با آسانی نہیں مل جائے گا تب تک میں اپنی غذا میں گھی شامل نہ کروں گا۔یہ ہوتا تھا ظرف حکمرانی کا،مگر ہمارے سیاستدان مذہب کارڈ بھی اپنے مفاد کو پورا کرنے کے لیے کھیلتے ہیں۔ انسانوں کے روپ میں ہم کہیں آدم خور تو نہیں بن چکے بس ہر انسان کو اپنے پیٹ کی بھوک دکھائی دے رہی ہے اُس بھوک کی آگ کو بجھانے کے لیے ہم اتنے لالچی ہو چکے ہیں کہ انسانوں کے جسم کے اعضا تک وقت آنے پہ نوچ ڈالتے ہیں۔آج حالات اس ڈگر پہ چل رہے ہیں۔  کل ہی ایک گینگ پکڑا گیا جو انسانی اعضا سمگل کرتا تھا اور بدلے میں بھاری قیمت وصول کرتا رہا آخر ایسے خطرناک لوگوں کو کیسے کھلا چھوڑ رکھا ہے ہمارے اداروں کو اب کچھ سخت فیصلے کرنا ہونگے وگرنہ حالات آنے والے وقتوں میں اس سے بھی خطرناک نہج پہ پہنچ سکتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان بھی کچھ اسی طرز فطرت کے ہیں اتنا سب کھا لینے کے بعد بھی بھوکے ہیں آخر بھوک کب مٹے گی۔ کبھی عوام کا حق،کبھی عوام کا پیسہ،دولت اور لالچ اور مرتبے کی حرص نے آج ہمارے ملک کی جمہوریت کا لیول کیا رہ گیا ہے۔ اسمبلیاں تو اکھاڑا بن چکی ہیں جہاں ہر جمہوری دور میں اسی طرز کی چپقلش دیکھتے ہوئے اب تو ہماری آنکھوں کی روشنی بھی ماند پڑنے لگی ہے۔ اب پنجاب اسمبلی توڑنے کا اعلان پرویز الٰہی نے سمری گورنر کو بھیج دی ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران 
خان نے 26نومبر کو راولپنڈی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس سیاسی نظام سے باہر نکل جائیں گے، پنجاب اور خیبر پختونخوا جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی۔ 9اپریل 2022، جب سے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی، پی ٹی آئی چیئرمین کا یہی موقف ہے کہ ملک کو عدم استحکام سے چھٹکارا دلانے کے لیے نئے عام انتخابات ناگزیر ہیں۔ اپنے ہر خطاب میں وہ یہ کہتے ہیں کہ اس وقت ملک جس بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے ملک میں عام انتخابات سے ہی ملک کو اس کیفیت سے نکال سکتے ہیں۔ اس ساری سیاسی صورتحال کے پیچھے درحقیقت عمران خان کی یہی سوچ ہے کہ وہ دو صوبوں میں اسمبلیاں تحلیل کر کے اور قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری سے وہ قبل از وقت عام انتخابات کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ بظاہر اب وفاقی حکومت کے پاس دو راستے ہیں۔ نمبر1 وہ وفاق اسمبلی کو تحلیل کرکے پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن کی راہ ہموار کرے۔ نمبر 2 انتخابات کو ممکنہ وقت پہ کرانے کی کوشش کرے تاخیری حربے زیادہ دیر تک چل نہ پائیں۔ اب اس موجودہ سیاسی صورتحال سے پی ڈی ایم کیا فیصلہ کرتی ہے یہ آنے والے دن ہی بتائیں گے۔ اس ساری صورتحال کو اگر میں سمیٹتے ہوئے بات کروں تو ہر سیاسی جماعت جو کہ اب ایک برانڈ کی صورت اختیار کر چکی ہیں جن چہرے تو وہی ہوتے ہیں مگر وقتاً فوقتاً سٹیکرز بدل کر مارکیٹ میں لائے جا رہے ہوتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کے لیڈران کی یہ سوچ ہے کہ وہی برسر اقتدار ہونگے تو ملک ترقی کی راہ پہ چل نکلے گا اور کسی میں اتنی قابلیت ہی نہیں ہے، ان کی اس سوچ کو 21 توپوں کی سلامی، جیسے ملک کا بیڑا غرق ان برانڈز نے کیا کہ 75سالہ جمہوری دور میں بھی جمہوریت بالغ نہیں ہوئی۔ اگر ہم بات صوبہ سندھ کی کریں یا صرف شہر قائد ہی کی کریں تو وہاں بڑی مشکل سے امن ہوا اور معیشت کا پہیہ چلا ایک عرصے تک وہاں ٹارگٹ کلنگ عروج پہ رہی جس کا اثر ملکی معیشت پہ منفی پڑتا رہا، مگر کل کی پریس کانفرنس ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے مصطفی کمال کی، جس کو ہم اگنور نہیں کر سکتے، ایک بات مصطفی کمال کی بہت اچھی اور ایک دھمکی آمیز تھی۔ اچھی یہ کہ جتنا قرٖض شہباز شریف لا رہے ہیں اتنا پیسہ کراچی شہر کما کے دے سکتا ہے۔ یہ بات دل کو لگی بہت درست کہا۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے، اس ایک شہر کے لیے بھی اگر بزنس پالیسیز بنا لیں ہم تو ہماری معیشت بہتری کی طرف جا سکتی ہے مگر اس بہتری کو لانے کے لیے بھی شرط یہی ہے کہ ذاتی اور سیاسی ترجیحات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ملکی مفادات کو ترجیح دی جائے۔ دوسری اہم بات جو کہی کہ ہم شریف کیا ہوئے سارا شہر بدمعاش ہوگیا،اس بات میں بہت سے حقائق چھپے ہوئے ہیں اس کو صرف انڈین فلم کا ایک ڈائیلاگ نہ سمجھا جائے بلکہ ان لوگوں کے دماغ کو ایک بار پھر سے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ فاروق ستار نے جو بات کہی کہ پاکستان مردہ باد کے نعرے کے بعد بھی پڑھا لکھا نوجوان ہمارے ساتھ کھڑا ہے اس ایک بات میں انہوں نے ہر چیز کی عکاسی کر دی بات بہت اہم کہہ ڈالی۔پاکستان قائم و دائم رہے مگر ان لوگوں کے سوفٹ وئیر ایک بار پھر سے اپ ڈیٹ مانگ رہے ہیں۔ جب تک ان جیسے لوگ ملک کی کمند سنبھالتے رہے گے ملک بہتری کی جانب نہیں آ سکے گا۔ اس وقت ملک کو جس نازک صورتحال کا سامنا ہے اُس کے اسباب صرف سیاسی عدم استحکام میں مضمر ہیں۔یقینا قوموں کی زندگی میں مشکل دور آتے ہیں اور جن بھول بھلیوں میں ہم پھنسے ہوئے ہیں کہ جس سے نکلنے کا راستہ سجھائی تو دے رہا ہے مگر اختیار نہیں کیا جا رہا۔ مل بیٹھنے سے دانستہ کنارہ کشی اختیار کی جا رہی ہے مگر مشکل صورتحال میں قومی سلامتی اور بہتری کے لیے مل بیٹھنا ہو گا بہتری لانے کے لیے لازم ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما، بالغ نظری، کا ثبوت دیں اور وسیع قومی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے کریں سیاسی اعتبار سے اگرچہ صورتحال گمبھیر ہے مگر ملکی سیاست کے اس اہم موڑ سے نئی راہیں بھی نکالی جا سکتی ہیں، شرط صرف ملکی مفاد کو اولیت دینے اور حسن نیت کی ہے۔