"چڈی بڈیز"  کی ٹیم

 ایک اینڈ پر کرئیر کے بدترین دور سے گزر رہا "کپتان" اور دوسری جانب T20 کرکٹ میں  مسلسل بال ٹوبال کرکٹ کھیلنے والا "اوپنگ" بلے باز ،پاکستان ٹیم کی T20  سے T10 کی جانب بڑھتی کرکٹ کے دور میں ایسی  حکمت عملی نہ تو جارحانہ تھی نہ ہی  اسے مثبت کرکٹ کہا جا سکتا ہے،  قومی ٹیم نے پورے ٹورنامنٹ میں روٹین کرکٹ  کھلی  اور ہر میچ  کو سنسی خیز بنایا، بھارت افغانستان کے ساتھ میچز" ہیڈ ٹو ہیڈ" رہے فائنل میں بھی کچھ مختلف کرنے کی حکمت عملی نہیں  بنائی گئی  گئی ،بابر اعظم نے موجودہ  بیٹنگ فارم کو برقرار رکھتے ہوئے  لیگ اسٹمپ پر جاتی وائڈ بال کو  چھیڑ دیا   اور شارٹ  فائن لیگ پر   مدشہنکا  نے  ان کا شاندار کیچ لیا کپتان ایک بار پھر ٹیم کی "نیا پار "لگائے  بغیر پولین لوٹ گیا۔

شاید بڑے ٹورنامنٹ کے فائنل میں ہمیں مخالف کو سرپرائز دینے کی ضرورت تھی بابر اعظم  کی جگہ مڈل آرڈر   سے  کسی کھلاڑی کو اوپننگ کروائی جا سکتی تھی اس فیصلے سے  مخالف ٹیم کی حکمت عملی کو" ڈسٹرب" اور ان پر دباؤ بنانے کا موقع مل سکتا تھا، یہ فیصلہ اس لئے بھی اہم ہو سکتا تھا کہ مخالف ٹیم کو پیغام ملتا کہ ہمارے بیٹنگ لائن اپ میں" اوپننگ" کی اہم پوزیشن کیلئے متبادل کھلاڑی موجود  ہیں  نا کہ یہ اہم پوزشین  کسی ایک  کھلاڑی کی پرفارمنس کی مرہون منت ہے ۔

 بابر اعظم کی خراب پرفارمنس پورے ٹورنامنٹ میں جاری رہی لیکن ان کی بیٹنگ پوزیشن وہی برقرار رکھی گئی،T20 کرکٹ کے عالمی نمبر ون  بلے باز محمد رضوان نے بھی اپنی درجہ بندی کے مطابق کارکردگی نہیں دکھائی گو کہ وہ پاکستان کی طرف سے ایک بار پھر ٹاپ اسکورر  لیکن میچ کے آدھے کے قریب اوور ز   کھیل کر صرف 55 رنز ہی بنا سکے  ، باقی کھلاڑیوں کو مار دھاڑ کرنے کیلئے  جو بقیہ  اوورز   نصیب ہوئے ان میں  وہ  100 سے زائد رنز بنانے میں ناکام رہے،بابر نے  “post match presentation”  میں شکست کا ذمہ نہ اپنے  سر  لیا نہ رضوان کو موردالزام ٹھریا بلکہ سارا ملبہ مڈل آرڈر پر ڈال دیا جس سے ان الزامات کو تقویت ملی کہ بابر ٹیم نہیں چلا رہے بلکہ دوستیاں نبھا رہے ہیں ، سابق کپتان شعیب ملک نے  بھی  اپنے تازہ ٹوئیٹ میں کھل کر اس بات کا  اظہار کیا ہے۔

فیلڈنگ کے دوران بھی کپتان بابر اعظم کی حکمت عملی  پر کچھ سوالیہ نشان ہیں، آغاز سے ہی اسکور کھانے والے محمد حسنین سے مکمل 4 اوورز کروائے گے وہ  10 سے  زائد " اکانومی ریٹ" کے ساتھ میچ  کے مہنگے ترین باؤلر رہے، محمد نواز سے   ایک ہی    اوور کروایا گیا جس میں انہیں صرف 3 رنز پڑے 5 ابتدائی وکٹیں حاصل کرنے کے باوجود اٹیک نہیں گیا گیا اسری لنکا نے آدھی ٹیم پویلین لوٹ جانے کے باوجود "رن ریٹ "برقرار رکھا اور بڑا اسکور کرنے میں کامیاب رہے۔

4 آسان کیچ چھوڑے گئے لنکن بیٹسمینوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا پانچویں نمبر پر آنے والے  راجپکشا نے 71 رنز کی شاندار اننگز کھیلی اور   مخلاف  ٹیم کو بڑا ہدف دینے میں اہم کردار ادا کیا ،    سری لنکن ٹیم نے تینوں شعبوں میں بہترین کارکردگی دکھائی   انرجی کے ساتھ میچ کھیلا اور ایشیائی کرکٹ کا چیمپئن بنے۔

پاکستان ٹیم کیلئے اس شکست سے سیکھنے کیلئے بہت کچھ ہے  لیکن  کوتاہیوں کو دور کرنے کیلئے ورلڈ کپ سے پہلے وقت کم  ،    کھلاڑیوں  کی فٹنس کے مسائل میں بھی غیر معمولی اظافہ ہوا  جس کا ٹیم کو خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے، اوسط درجے کی فیلڈنگ  نے بھی ایشیاء کپ فائنل میں پاکستان کی شکست میں اہم کردار ادا کیا

 ٹیم کے "تھنک ٹینکس" کوجدید  کرکٹ  کھیلنے کی حکمت عملی اپنانے  کی طرف توجہ دینا ہو گی ایک طرز کے کمبی نیشن کو تبدیل کرنا ہو گا، بہتر "اسٹرائیک ریٹ" کے بلے بازوں کو ٹاپ پوزشین پر کھلانا ہو گا ،  ،اگر کوئی مسلسل پرفام نہیں کر رہا تو اس کی پوزشین کو تبدیل  کرنا ہو گا  ، بڑے نام اگر بڑی پرفارمنس نہیں دے پا رہے تو چھوٹوں کو آزمانا چاہیئے اور جو  کھلاڑی ان تبدیلیوں میں رکاوٹ بنے اسے پاکستان کرکٹ پر ترجیح نہیں ملنی چاہئے ،قومی کرکٹ ٹیم سے متعلق  اس تاثر کو ختم کرنا ہو گا کہ یہ اب صرف  "چڈی بڈیز " کی ٹیم  ہے

وقاص احمد اعوان

نوٹ: یہ مضمون لکھاری کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔