مقبولیت کے دعوے

مقبولیت کے دعوے

عمران خان حکومت میں نہیں تھے تو ان کے متعلق ایمانداری کے دیوتا کا ایک ایسا تصور قائم کر دیا گیا تھا کہ عام آدمی یہی رائے رکھتا تھا کہ بندہ ایماندار ہے لیکن ہم ایسے کچھ احمق تھے جو اس وقت بھی کہتے تھے کہ اگر لندن میں فلیٹس اور چند کنال کے سرے محل کو لے کر میاں نواز شریف اور زرداری صاحب دونوں کرپٹ ہو سکتے ہیں تو 307کنال کے بنی گالہ کے محل جی ہاں ہم اسے محل ہی کہیں گے اس لیے کہ اتنے بڑے رقبہ پر بنی جائیداد کو ہم گھر کس کلیہ سے کہیں یہ بات اگر کوئی ہمیں سمجھا دیں تو ہم اسے گھر کہنا شروع کر دیں گے بلکہ ماضی میں بنے بہت سے محلوں کا رقبہ بھی اس سے کم ہو گا پھر عمران خان کو کرپٹ کیوں نہیں کہا جا سکتا۔ یہ بات جب خان صاحب کے فین کلب سے کہی جاتی تو ان کا جواب آتا کہ عمران خان نے ساری عمر کرکٹ کھیلی ہے یہ اس کی حلال کمائی سے بنا ہوا ہے حالانکہ جتنی کرکٹ عمران خان نے کھیلی ہے اس سے کہیں زیادہ ظہیر عباس اور سیکڑوں دیگر کھلاڑیوں نے بھی کھیلی ہو گی لیکن کسی کے پاس اتنا پیسہ نہیں آیا 
کہ وہ اتنا بڑے رقبہ پر محل نما گھر بنا سکیں اور پھر یہ دلیل اس وقت دم توڑ گئی کہ جب سپریم کورٹ نے اس کی منی ٹریل مانگی تو جمائما کے چیک کو بطور منی ٹریل پیش کرنا پڑا اور چونکہ لاڈلے تھے اور عدالت ثاقب نثار کی تھی اس لیے منی ٹریل کو قبولیت کا شرف بھی بخش دیا گیا لیکن بنی گالہ کے اتنے بڑے محل اور زمان پارک کے گھروں کا خرچ کیسے چل رہا ہے اور اس خرچ کے ذرائع آمدن کیا ہیں ان کا آج تک کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا۔ ہم اپنے عنوان سے متصل ہو گئے کہ جس طرح آج تک خان صاحب کے ذرائع آمدن کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا اسی طرح عمران خان کی بے پناہ مقبولیت کے بھی تسلی بخش شواہد نظر نہیں آ سکے۔
بیانات کی حد تک اور سوشل میڈیا کی اگر بات کریں تو خان صاحب کی مقبولیت کی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی یعنی ستر کی دہائی کہ جب لاہور کی آبادی ایک چوتھائی تھی اور اسی کی دہائی کہ جب لاہور کی آبادی آج کی نسبت آدھی سے بھی کم تھی تو اس وقت بھٹو صاحب نے جو جلسے کئے تھے کیا خان صاحب نے کوئی ایک جلسہ بھی ان جلسوں سے چار گنا بڑا کیا ہے یا 10 اپریل 1986 وطن واپسی پر محترمہ شہید بینظیر بھٹو کا عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے استقبال کیا تھا کیا اس سے دگنا تو کیا کبھی اس سے آدھا مجمع بھی خان صاحب اکھٹا کر سکے ہیں لیکن دعوے ایسے کہ انسان پریشان ہو جائے اور زمینی حقائق کے باوجود بھی دعوے کرنے میں تحریک 
انصاف والوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ پہلے بھی ایک کالم میں ذکر ہو چکا ہے کہ جب لبرٹی سے لانگ مارچ شروع ہوا تو چند ہزار بندے تھے اور لبرٹی میں جلسے کے بعد تو بمشکل دو ڈھائی ہزار افراد رہ گئے تھے اور صاف پتا چل رہا تھا کہ اگر لانگ مارچ ہی کی طرح لاہور سے راولپنڈی جانا ہے تو پھر لاہور سے نکل کر شاہدرہ کے بعد چند گاڑیاں ہی رہ جائیں گی اسی لیے پورا مہینہ لانگ مارچ کے نام پر جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے جلسوں سے کام چلایا گیا اور صاف نظر آ رہا تھا کہ لانگ مارچ بُری طرح فیل ہو چکا ہے لیکن پھر بھی بیان آ رہے تھے کہ راولپنڈی میں 25 سے 30 لاکھ افراد ہوں گے اور بس اس کے بعد اسلام آباد پر یلغار ہو گی اور پھر انتخابات کی تاریخ لینا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے لیکن پھر جو ہوا اسے کہتے ہیں ٹائیں ٹائیں فش۔ ہم نہیں بلکہ یہ ہم خیال میڈیا کو چھوڑ کر پاکستان کا پورا میڈیا یہی کہتا ہے کہ خان صاحب نے جب ہیلی کاپٹر سے بندوں کی تعداد دیکھی کہ اتنے بندوں کے ساتھ تو کسی مقامی تھانے کا گھیراؤ نہیں کیا جا سکتا تو اسلام آباد جا کر کیسے گھیراؤ کریں گے تو پھر مایوسی کے عالم میں انہوں نے دو صوبوں کی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کر دیا جو اب بھی گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ ہم مان لیتے ہیں کہ اس وقت عوام میں خان صاحب کی مقبولیت کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی لیکن خان صاحب اپنے قول و فعل سے جب خود ہی اس کی نفی کریں تو ہم کیا کریں۔ عدم اعتماد کی تحریک کے دوران قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر نے جس طرح کا آئین شکن کردار ادا کیا تھا کیا اس کے بعد اس بات پر یقین کیا جا سکتا ہے کہ فیض آباد میں خیمہ بستی بننے کے بعد اگر راولپنڈی میں عوام کی کثیر تعداد موجود ہوتی تو خان صاحب بجائے دھرنا دینے کے پُر امن واپسی کی راہ کا آپشن استعمال کرتے۔ پنجاب کی صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر جب ضمنی الیکشن ہوئے تو ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ خاص طور پر جب قومی اسمبلی کی آٹھ نشستوں پر الیکشن تھے کہ حمزہ شہباز پنجاب میں ہوتے ہوئے غیر فعال رہے اور مریم نواز تو اس سے پہلے ہی لندن چلی گئیں۔ اس حوالے سے ہم اکثر نواز لیگ کے دوستوں سے پوچھتے اور انہیں اس بات کا طعنہ بھی دیتے کہ کیا نواز لیگ نے اندز کھاتے تحریک انصاف سے کسی قسم کی 
ڈیل کر لی ہے کہ ضمنی الیکشن میں اسے کھلی چھوٹ دے دی تھی اور اس نے بآسانی میدان مار لیا تو ان کے پاس بھی ہمارے سوالات کا کوئی معقول جواب نہیں ہوتا تھا لیکن خدا بھلا کرے مونس الٰہی کا کہ جن کے اعتراف کے بعد مسلم لیگی قیادت کا بیان آیا کہ انھیں بھی اس بات کا علم ہو گیا تھا اور اسی لیے انھوں نے ان انتخابات کو سنجیدہ نہیں لیا۔ اب بات یہ ہے کہ عمران خان جنہوں نے گذشتہ نو ماہ ماسوائے جلسہ جلسہ کھیل کر ملک میں سیاسی انتشار پھیلانے کے سوا کچھ اور نہیں کیا۔ اب بھی تحریک انصاف کی قیادت کے بیانات دیکھ لیں اور خود عمران خان نے اتوار کو وڈیو لنک پر جو خطاب کیا ہے اس میں ملک کے وزیر خزانہ اور وزیر اعظم کے دو ٹوک موقف کے بعد بھی ملک و قوم کے مفاد کے خلاف ایک ہی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ ملک خدا نخواستہ دیوالیہ ہو رہا ہے اور شوکت عزیز کی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کی لیک ہوئی فون کالز بھی ملک کو دیوالیہ کرنے کی خواہش کا ہی حصہ تھیں تو جو جماعت اپنے سیاسی مفاد کی خاطر ملک کو دیوالیہ کرنے سے بھی دریغ نہیں کر رہی تو اگر عمران خان کی مقبولیت اس حد تک ہوتی کہ وہ عوامی حمایت کے بل پر موجودہ حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے تو قارئین دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا وہ کم کرتے۔ انہوں نے کب کا یہ کام کر لینا تھا اور انہوں نے کبھی اس سے انکار بھی نہیں کیا یاد کریں کہ خیبر پختونخوا سے اسلحہ بردار افراد کی آمد پر وہاں کے وزراء نے کیا بیانات دیئے تھے لیکن ہوا کیا کہ وفاق اور سندھ کے سوا پورے ملک میں حکومت ہونے کے باوجود بھی جیسا کہ کالم کے شروع میں عرض کیا اپنی مقبولیت کے تسلی بخش ثبوت دنیا کے سامنے پیش نہیں کر سکے اور ان کے بے تحاشا پروپیگنڈا کے بعد بھی عوام نے لانگ یا شارٹ مارچ کہہ لیں اس میں شرکت نہ کر کے دنیا کو بتا دیا ہے کہ سوشل میڈیا پر دعووں کے برعکس مقبولیت کی حقیقت کیا تھی۔