تحریک عدم اعتماد، اپوزیشن کامیاب ہوگی؟

تحریک عدم اعتماد، اپوزیشن کامیاب ہوگی؟

تحریک عدم اعتماد کا شور سنتے سنتے نصف سال گزر گیا مگر اب بالآخر بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے،اور متحدہ اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف 86ارکان کے دستخطوں سے اسپیکر آفس میں تحریکِ عدم اعتماد جمع کرا دی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اْن لوگوں نے جمع کرائی ہے جن کی آپسی صفوں میں ابھی تک اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اور ویسے تو یہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے، اور اگر خاکم بدہن یہ کامیاب ہوگئے تو انہوں نے آپس میں لڑ لڑ کر مرجانا ہے۔ کیوں کہ یہ لوگ تاریخ کے کمزور ترین ثابت ہوئے ہیں، جنہیں محض ذاتی مفاد کے ، ذاتی کیسز سے چھٹکارے کے اور کرپشن کے الزامات سے بریت کے سوا کچھ نہیں چاہیے۔ یقین مانیں کہ سب لوگ اس وقت حیران ہیں کہ آخر اپوزیشن کو ایک دم کیا سوجھی کہ وہ وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کے لیے پر تولنے لگی اور اس اہم کام کے لیے اپوزیشن پارٹیوں نے دن رات ایک کردیے۔ جبکہ آج بھی روزانہ کی بنیاد پرناصرف سر جوڑ کر بیٹھ رہی ہیں بلکہ آپس کی پرانی ’’رنجشیں‘‘ بھی دور کی جار ہی ہیں۔الغرض یہ لوگ ناصرف ایک دوسرے پر نیا سیاسی اعتماد بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بلکہ سیاسی چپقلشیں بھی دور کر رہے ہیں۔ بلکہ سنا ہے کہ ان کے درمیان آئندہ کی حکومت کے حوالے سے سیٹوں کی بندر بانٹ بھی طے ہو چکی ہے۔ 
خیر آگے چلنے سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد ہے کیا اور اسے کب کب استعمال کیا گیااور کیا عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گی بھی یا نہیں۔ درحقیقت سرکاری طور پر ’’تحریک عدم اعتماد ‘‘یا ’’عدم اعتماد بل‘‘ اس وقت پارلیمان میں لایا جاتا ہے جب کوئی حکومتی عہدیدار کوئی ایسا قدم اٹھاتا ہے جو آئین و قانون کیخلاف ہو یا ایسا اقدام جس سے ملک کی بدنامی اور نقصان ہو۔ پارلیمان میں اکثر عدم اعتماد کا بل حزب اختلاف کے جانب سے پیش کیا جاتا ہے جس پر ارکانِ پارلیمان اپنا ووٹ دیتے ہیں۔ اگر کسی وفاقی عہدیدار (جیسے وزیر اعظم،وفاقی وزیر،وغیرہ) کو برطرف کرنا ہوتا ہے تو وفاقی قانون ساز ایوانوں (مثلاً قومی اسمبلی اور سینیٹ) میں بل پیش کیا جاتا ہے اور اگر صوبائی سطح پر کسی عہدیدار (جیسے وزیراعلیٰ،صوبائی وزیر،وغیرہ) کو ہٹانا ہے تو صوبائی قانون ساز ایوانوں میں (جیسے صوبائی اسمبلی) میں بل پیش کیا جاتا ہے۔آئین کے تحت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوتی ہے یعنی سب کے سامنے ہوتی ہے، اس میں پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی طرح خفیہ ووٹنگ نہیں ہوتی۔جب تحریک عدم اعتماد پیش کی جاتی ہے تو تین دن سے پہلے اس پر ووٹنگ نہیں ہوسکتی اور سات دن سے زیادہ اس پر ووٹنگ میں تاخیر نہیں کی جاسکتی ہے۔
اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو تحریک عدم اعتماد یعنی Vote of no confidence گزشتہ تین دہائیوں میں دو دفعہ اس آئینی ہتھیار کو آزمایا گیا۔ پہلی تحریک تو محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف تھی۔ وہ اس وقت مرکز میں وزیراعظم تھیں اور میاں نوازشریف پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے مدارا لمہام تھے۔ ان دونوں میں مخاصمت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے بھی روادار نہ تھے۔ میاں صاحب نے محترمہ کو عدم اعتماد کی صورت میں للکارا۔مطلوبہ تعداد حاصل کرنے کیلئے حکومتی پارٹی کے ارکان کو توڑا گیا۔ پیسے میں کس قدر طاقت ہے اس کا اندازہ ان دنوں ہوا۔ متبادل کے طورپر غلام مصطفی جتوئی کا نام تجویز ہوا۔ جب مطلوبہ تعداد پوری ہوگئی تو ممبران کو ایک بار نہیں بار بار گنا گیا۔ اسکے بعد اسمبلی میں قرارداد جمع کرا دی گئی۔ لیکن پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی بولیاں لگنے لگیں، خزانوں کے منہ کھول دیے گئے۔اور نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک ناکام ہوگئی، اور محترمہ بال بال بچ گئیں۔ جبکہ دوسری تحریک عدم اعتماد قومی نہیں بلکہ صوبائی تھی، یہ تحریک وزیر اعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کے خلاف تھی۔ صوبے میں اطمینان بخش اکثریت رکھنے والی مسلم لیگ کی حکومت کا خاتمہ کبھی نہ ہو پاتا اگر اسی جماعت کے اندر سے ایک باغی گروپ برآمد نہ ہو پاتا۔میاں منظور احمد وٹو کی قیادت میں تقریباً ڈیڑھ درجن اراکین صوبائی اسمبلی پر مشتمل اس گروپ کو پیپلز پارٹی کی حمایت فوری طور پر میسر آگئی جس کے نتیجے میں تحریک عدم اعتماد کامیاب اور منظور احمد وٹو وزیر اعلیٰ بن گئے۔
اب تیسری مرتبہ اپوزیشن جماعتوں نے وزیرا عظم عمران خان کے خلاف ایک بار تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا ہے، اْس کے لیے پہلی بات تو یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنا آسان، جو کہ پیش کی جاچکی ہے جبکہ اس کا منظور ہونا بہت مشکل ہے۔کیوں کہ سینیٹ چیئرمین، اپوزیشن لیڈر کے انتخاب سے لے کر پچھلے دنوں ہوئے قومی اسمبلی سے منی بجٹ اور سٹیٹ بنک کی خود مختاری کے بل پاس کرانے تک اپوزیشن کاسابقہ ریکارڈ اچھا ہوتا تو شاید اس حوالے سے بھی کامیابی کی نوید سنا سکتے تھے مگر بقول شاعر 
ان چراغوں میں تیل ہی کم تھا 
کیوں گلہ پھر ہمیں ہوا سے رہے 
لہٰذااپوزیشن سے جب بھی پوچھا جاتا ہے کہ آخر آپ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد کیوں لانا چاہتے ہیں اور کیا وہ کامیاب ہوں گے۔ تو فی الوقت سب لوگ متفق ہیں کہ ہم کامیاب ہوں گے۔ لیکن اسمبلی اجلاس کے دوران کیا ہوگا کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ اور پھر حیرت یہ ہے کہ یہ لوگ ساتھ ہی جواب دیتے ہیں کہ موجودہ حکمرانوں نے ملک کو تباہ حال کر دیا ہے۔ اگر اللہ نہ کرے بقول ان کے، یہ ملک تباہ ہوگیا ہے توپھر کیا یہ لوگ معیشت کو ٹھیک کریں گے جو گزشتہ تین دہائیوں سے ملک کو لوٹتے رہے۔ اور پھر ان لٹیروں کا Confidenceلیول چیک کریں کہ یہ اپنے تئیں مکمل تیاریاں کر چکی ہے کہ اگلا متوقع وزیر اعظم کون ہوگا؟ اس حوالے سے ایک رائے آصف علی زرداری کی ہے اور دوسری میاں نواز شریف کی۔ زرداری صاحب کی خواہش اور کوشش ہے کہ پنجاب کا وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کو بنایا جائے اور وزیراعظم مسلم لیگ نون سے۔
بہرکیف میرے خیال میں یہ تحریک عدم اعتماد کبھی کامیاب نہیں ہوگی اور نہ ہی حکومت وقت سے پہلے گھر جائے گی ، اور کوئی پاگل ہی ہوگا جو حکومت کو آخری دنوں میں گھر بھیجنے کی باتیں کر رہا ہوگا، کیوں کہ جولائی میں تو ویسے بھی حکومت کو 4سال ہو جانے ہیں اور آخری سال ہمیشہ الیکشن کا سال ہو ا کرتاہے اس لیے سیانے کہتے ہیں کہ ’’جو مکا لڑائی کے بعد یاد آئے اْسے اپنے منہ پر مار لینا چاہیے‘‘! لہٰذاہمیں اس وقت خطے کی مخصوص صورتحال، بیرونی تعلقات سے حاصل مواقع اور خطرات پر توجہ دینی چاہیے،اور فی الوقت تحریک عدم اعتماد وغیرہ جیسی تحریک ملک کو عدم استحکام کی طرف لے جائیں گی، بیرونی سرمایہ کاری رک جائے گی، اور معیشت کا پہیہ جو پہلے ہی بہت مشکل سے ٹریک پر چڑھا ہے وہ بھی رک جائے گا۔ لہٰذااپوزیشن ہوش کے ناخن لے اور اپنی باری جو شاید کبھی نہیں آئے کا انتظار کرے!

مصنف کے بارے میں